پاکستان: افغانستان کی الزام تراشیاں....ناقابل فہم و بے بنیادقرار

 قیام پاکستان کے بعد سے افغانستان اور پاکستان کے تعلقات میں بہت سے موڑ آئے ہیں۔ افغان حکومت نے ہمیشہ پاکستان کی مخالفت کی ہے، سابق صدر حامد کرزئی کے دور حکومت میں آخر تک افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشیوں کا بھرپور سلسلہ جاری رہا ۔ افغانستان میں اشرف غنی کے اقتدار میں آنے کے بعد توقع بندھی تھی کہ پاک افغان برادرانہ مراسم استوار ہو جائیں گے، جس کا اشرف غنی نے اپنے اقتدار کے آغاز میں عندیہ بھی دیا اور ان کے دورہ اسلام آباد اور اس کے بعد آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور مشیرامور خارجہ سرتاج عزیز کے الگ الگ دورہ کابل سے دہشتگردی کے خاتمے کے لیے پاک افغان مشترکہ حکمت عملی طے ہوتی نظر آئی، مگر باہمی خیرسگالی کی یہ فضا زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی اور اشرف غنی نے پاکستان کے خلاف اپنے پیشرو کرزئی والا لب و لہجہ اختیار کر لیا اور افغان حکومت کی جانب سے پاکستان پر یہ الزام عاید کیا جانے لگا کہ اسلام آباد افغانستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتا ہے اور افغان طالبان کی حمایت بھی کرتا ہے، جبکہ پاکستان نے ہمیشہ ان الزامات کی تردید کرتے ہوئے یہ واضح کیا کہ ایک مستحکم افغانستان پاکستان کے مفاد میں ہے اور پاکستان وہاں سیاسی استحکام کے لیے کوشاں ہے۔

حالیہ دنوں افغانستان کے اہم شہر قندوز پر طالبان نے قبضہ کیا اور جیل توڑ کر چھ سو سے زاید قیدیوں کو بھی چھڑا لیا، جو یقینا افغان حکومت کی ناکامی تھی لیکن اس قبضے کے بعد اشرف غنی اور اس کے بعد افغانستان کے چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان پر دشنام طرازی کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان میں حملہ آور سرحد پار سے آرہے ہیں۔ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کے بعد پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے واضح کیا کہ افغانستان کے مسائل الزام تراشی سے نہیں، مذاکرات سے حل کیے جاسکتے ہیں۔ پاکستان افغانستان کے مسائل کا پرامن حل چاہتا ہے جس سے پورے خطے میں امن اور استحکام آئے گا، لیکن پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مداخلت کے امکان کو مسترد کیے جانے کے باوجود بھی نہ صرف افغان حکومت نے اپنا روایہ برقرار رکھا، بلکہ افغان میڈیا نے بھی پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا شروع کردیا اور پاکستان پر قندوز قبضے میں ملوث ہونے کاالزام عاید کیا گیا۔ گزشتہ روز پاک فوج نے افغان میڈیا کی طرف سے پاکستانی سیکورٹی فورسز کے قندوز حملے میںملوث ہونے کے الزامات کو نامعقول، بے بنیاد اور سستی شہرت حاصل کرنے کی کوشش قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے کہا ہے کہ یہ الزامات غیر ذمہ دارانہ رویہ ہے، جن کا اعادہ نہیں ہونا چاہیے، بلکہ حقیقی خطرے پر توجہ دی جائے۔ آئی ایس پی آر کے ترجمان نے افغان میڈیا رپورٹس کو رد کرتے ہوئے کہا کہ افغان اہلکار کی طرف سے لگائے گئے الزامات مکمل طور پر بے بنیاد ہیں، پاکستان افغان قیادت میں ان کے اپنے امن کے عمل کی پہلے ہی حمایت کرتا ہے اور پاکستان نے قندوز حملے کی مذمت کی ہے، یہ الزامات ناقابل فہم ہیں۔ الزام تراشی ذمہ دارانہ رویہ نہیں، بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بار بار الزام تراشی کی بجائے باہمی بہتر مفاد میں اس حقیقی خطرے پر توجہ دی جائے جو دونوں ملکوں کو درپیش ہے۔ آئی ایس پی آر) کے ترجمان نے کہا قندوز حملے میں پاکستانی سیکورٹی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے حوالے سے افغان حکام کے الزامات بے بنیاد اور من گھڑت ہیں۔ پاکستان قندوز حملے کی شدید مذمت کرتا ہے۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ پاکستان کے سیکورٹی حکام قندوز حملے میں ملوث نہیں ہیں۔

واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر الزام تراشی کا یہ پہلا موقع نہیں ہے، بلکہ اس سے پہلے بھی افغانستان کئی بار پاکستان پر االزام تراشی کرچکا ہے، جس کی پاکستان کی جانب سے بھرپور تردید کی جاتی رہی ہے۔ اگست میں بھی افغانستان کے صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے پاکستان پر افغانستان میں حملے کا الزام عاید کیا تھا، جس کے بعد پاکستان کے دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان افغانستان کی زیرقیادت افغانستان میں امن اور مصالحت کی کوششوں کے حوالے سے بدستور پرعزم ہے۔ افغانستان سے مکمل تعاون کریں گے۔ جبکہ اس سے پہلے ماہ جون میں افغان پارلیمنٹ پر طالبان کے حملے کے بعد افغان انٹیلی جنس نے افغان پارلیمنٹ پر حملے میں طالبان کی مدد کا الزام بھی پاکستان پر ہی عاید کیا تھا۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے افغان خفیہ ایجنسی کا یہ موقف سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ پہلا موقع نہیں کہ افغانستان نے اس طرح کا الزام لگایا ہو، جبکہ پاکستان کی پالیسی اس حوالے سے بڑی واضح ہے کہ افغانستان کا دشمن پاکستان کا دشمن ہے۔ پاکستان نے واضح کر دیا تھا کہ وہ افغانستان کا استحکام اور وہاں امن و امان چاہتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ افغان حکومت و میڈیا کا پاکستان پر الزام تراشی کرنا الٹاچور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف ہے، کیونکہ پاکستان میں دہشتگردی پھیلانے والے عناصر افغانستان سے سرحد عبور کرکے آتے ہیں جس کے ٹھوس ثبوت بھی آرمی چیف اور مشیرامور خارجہ کابل انتظامیہ کو پیش کرچکے ہیں۔تمام شواہد کے باوجود افغانستان کا پاکستان پر الزام عاید کرنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ پاکستان نے افغانستان کی تعمیر نو میں ہر ممکن تعاون کرنے اور پاکستان میں 30لاکھ سے زاید افغان مہاجرین کو تمام تر سہولتوں کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں قیام امن کی کوششوں کو کامیاب بنانے اور پاک افغان بارڈر پرغیر قانونی نقل و حرکت روک کر دراندازی کی حوصلہ شکنی کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، لیکن اس کے باوجود ہر دور میں آنے والی افغان حکومت کی طرف سے پاکستان پر الزام تراشی کرنا مضحکہ خیز عمل ہے۔ افغان حکومت کی کمزوری کی وجہ سے طالبان افغانستان میں منظم اور مضبوط ہوئے ہیں اور انہوں نے قندوز پر قبضہ کیا ہے۔ افغان فوجیں طالبان کا مقابلہ کرنے کی تو سکت نہیں رکھتیں، مگر پاکستان پر انگلی اٹھانے سے گریز نہیں کرتیں۔

پاکستان افغانستان میں امن کا خواہاں ہے۔ پاکستان اور افغانستان دو مسلمان پڑوسی ملک ہیں اور دونوں کے درمیان مذہبی، ثقافتی، سیاسی تعلقات صدیوں پر محیط ہیں، لیکن افغانستان نے پاکستان کے معاملے میں ہمیشہ منفی رویہ اپنایا ہے اور افغانستان میں ہونے والی ہر دہشت گردی کو پاکستان کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ افغان حکومت ہر موقع پر پاکستان کو ہی ہدف ِ تنقید بنانے اور افغانستان کی موجودہ صورتحال کا ذمہ دار قرار دینے کی پالیسی اختیار کیے ہوئے ہے۔ اصولی طور پر قیام امن کے لیے افغانستان کا پاکستان کے ساتھ مثالی اتحاد ہونا چاہیے تھا۔ اگر اس حقیقت کا ادراک کرکے کابل کے حکمران پاکستان کے ساتھ اتحاد و یکجہتی کے بندھن میں بندھ جاتے اور قیام امن کے لیے مشترکہ حکمت عملی طے کرلیتے تو خطے کی امن و امان کی صورتحال بھی بہتر ہوجاتی اور بھارت کو بھی پاکستان کی سالمیت کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کے لیے افغان سرزمین استعمال کرنے کا موقع نہ ملتا۔ مگر اشرف غنی نے یکلخت طوطا چشمی اختیار کرلی اور تلخ و ترش لہجے میں پاکستان پر الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع کر دیا، جس کا اعادہ انہوں نے ایک بار پر گزشتہ دنوں یہ کہہ کر کیا کہ پاکستان کے ساتھ برادر مسلم ملک والے نہیں، بلکہ دو ریاستوں والے تعلقات ہیں۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کی جانب سے بیان دیا گیا کہ افغانستان اور پاکستان کے تعلقات صرف دوستانہ نہیں، بلکہ برادرانہ ہیں۔ افغان حکومت امریکا، بھارت، اسرائیل اور بعض دوسرے اتحادیوں کے ذریعے پاکستان کے خلاف الزام تراشی کرکے ماحول کو کشیدہ رکھنے پر تلی ہوئی ہے اور اس حقیقت کو فراموش کررہی ہے کہ دوست اور دشمن تو بدلے جاسکتے ہیں، لیکن پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔ افغانستان کی خراب صورتحال دونوں ملکوں کے لیے نقصان کا باعث ہے اور افغان حکمران محض پاکستان کو مورد لزام ٹھہرا کر کچھ حاصل نہیں کرسکتے۔ دونوں ملکوں کو مل کر خطے میں پائیدار امن و سلامتی کا راستہ تلاش کرنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی طاقت کے بل پر نہیں، بلکہ حقائق کی بنیاد پر تشکیل دینا ہوگی۔

عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 633255 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.