اقبالؒ کا "جاوید نامہ" امر ہوگیا
(Muhammad Bilal Khan, Abbotabad)
۳ اکتوبر ۲۰۱۵ ء کی صبح ناشتہ
کرکے اٹھا ہی تھا کہ موبائل فون کی سکرین پر چند پیغامات نمودار ہوئے، نہ
چاہتے ہوئے بھی پیغامات دیکھے تو ایک معتمد دوست کا بھی پیغام تھا کھولا ہی
علامہ اقبالؒ کا نامِ نامی سامنے ،میں نے سوچا کہ علامہ رحمہ اللہ کا کوئی
شعر یا فرمان ہی ہوگا پڑھ ہی لوں۔۔۔مگر اگلے ہی لمحے میری نظر جس جملے پر
پڑی تو جسم جیسے لرز سا گیا، دل یک دم بوجھل اور طبیعت میں سخت اداسی بھر
آئی ، ساتھ ہی اپنی قسمت پہ افسوس بھی ہوا۔۔۔۔پیغام تھا کہ علامہ اقبالؒ کے
چہیتے جاوید آج اقبال کے مہمان بنے ہیں، چند لمحے تو گویا میں اپنے آپ کو
یقین دلاتا رہا کہ نہیں۔۔!! ایسا کچھ نہیں ہوا ہوگا لیکن نہ چاہتے ہوئے بھی
موت پر عین یقین کرتے ہوئے تصدیق کیلئے انٹرنیٹ کھولا، اگلے ہی لمحے مختلف
ذرائع ابلاغ نے بھی یہ افسوسناک خبر شائع کی ہوئی تھی، ۔۔۔ انا للہ و انا
الیہ راجعون !
مجددِ ملت، حکیم الامت، داعئ وحدت، مفکرِ پاکستان ، عظیم فلسفہ دان ، شاعرِ
مشرق علامہ محمد اقبال رحمہ اللہ کے فرزندِ ارجمند جسٹس جاوید اقبال مرحوم
فکرِ اقبالؒ کے حقیقی ترجمان اور داعی تھے، علامہ صاحبؒ کے فلسفۂ خودی پر
زندگی بھر عمل پیرا رہے،اور اپنا لوہا منوایا، آخر کیوں نہ ہوتے ایسے جو
اقبالؒ جیسے باپ سے جنم لیا ، ڈاکٹر جاوید اقبال ۵ اکتوبر ۱۹۲۴ ء کو
سیالکوٹ صوبہ پنجاب میں پیدا ہوئے، گورنمٹ کالج یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم
رہے، پنجاب یونیورسٹی سے بی ۔اے پاس کیا، وہیں سے انگریزی اور فلسفہ میں
اعزازی نتائج کے ساتھ ایم اے پاس کیا اور طلائی طمغہ پایا، بعد ازاں.
۱۹۵۴ء میں برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی،
۱۹۵۶ء میں بار ایٹ لاء ہوئے۔ جسٹس جاوید اقبال نے سیاسیات میں ماہر
الفنیات کی ڈگری بھی حاصل کی، ایل ایل بی پنجاب یونیورسٹی سے ہی کیا،
1960ء میں آسٹریا کے شہر کینبرا میں ''ایشیا میں آئین کا مستقبل '' کے
مذکراہ میں شرکت کی۔ تین مرتبہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رکن کی
حیثیت سے شریک ہوئے۔ 1961ء میں حکومت امریکہ کی دعوت پر وہاں گئے اور
کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ’’اقوام متحدہ کا مستقبل‘‘ پر لیکچر دیے۔
۵ اکتوبر ۱۹۸۶ء سے ۴ اکتوبر ۱۹۸۹ء تک سپریم کورٹ کے سینئر جسٹس رہے، ۸
مارچ ۱۹۸۲ء کو جنرل ضیاء الحق مرحوم کے دور میں ان کی لاہور ہائیکورٹ میں
بطور چیف جسٹس تقرری ہوئی ، ۵ اکتوبر ۱۹۹۶ ء تک لاہور سپریم کورٹ کے چیف
جسٹس کے عہدے پر فائز رہے۔
علامہ اقبالؒ کو اپنے اس فرزندِ سعادت مند سے نہایت ہی الفت و انسیت تھی،
اسی لئے پورا جاوید نامہ ڈاکٹر جاوید اقبال مرحوم کے نام کیا، مجھے علامہ
اقبالؒ سے نہایت ہی دلی لگاؤ ہے، علامہ مرحوم کو میں اپنا روحانی مرشد
تسلیم کرتا ہوں، اس لئے بچپن سے ہی علامہ مرحوم سے محبت اور والہانہ عقیدت
ہے، میر جدِامجد محمد نصیر خان تحریکِ پاکستان کے سرگرم کارکن رہے، اب بھی
الحمدللہ بقیدِ حیات ہیں،وہ علامہ رحمہ اللہ کے بہت بڑے چاہنے والے ہیں،
اور اقبالؒ ہی ان کے نزدیک بیسویں صدی کے مجدد ملت تھے، ماشاءاللہ جدِ
محترم بھی 90 کا ہندسہ عبور کرچکے ہیں، اللہ ان کی عمر، علم اور عمل میں
برکت عطا فرمائے، ہمیں بچپن سے ہی علامہ صاحب مرحومؒ کی محبت دلوں میں
بسانے والے جدِ مکرم ہی ہیں۔ خیر تو بات کر رہا تھا جاویداقبالؒ مرحوم کی
تو جب مجھے آج سے قریباً سات سال قبل ساتویں جماعت میں یہ علم ہوا کہ علامہ
اقبالؒ کے بیٹے جاوید اقبال حیات ہیں، یقین جانئے کہ مجھے اس بات کے علم سے
جو خوشی ہوئی وہ قابلِ رشک تھی میرے لحاظ سے، میں سوچتا کہ چلو یہ کتنی خوش
قسمتی ہے کہ اقبالؒ نہ سہی فرزندِ اقبالؒ کے دور میں تو سانس لے ہی رہے ہیں،
اس دن سے فرزندِ اقبالؒ سے ملنے کی چاہت اور حسرت تھی جو اب ہمیشہ کیلئے
حسرت بن گئی ہے، بہرحال کیا کیا جاسکتا ہے، میرے نصیب میں ہی یہی لکھا ہوگا،
۔۔ اللہ تعالیٰ بہشت میں ہی اقبالؒ اور فرزندِ اقبالؒ سے ملاقات کا شرف
بخشے۔ آمین
ڈاکٹر جاوید اقبال کی ساری زندگی ہی قابلِ رشک ہے، تادمِ آخر اپنے والد
گرامی جیسی خودداری کی عملی تصویر بنے رہے، خودداری کا ایک عملی ثبوت یہ کہ
انہوں نے اپنے والد مربی و مرحوم کی مغربی دنیا سے نالاں ہونے کی وجہ سے
زندگی بھر امریکا کا ویزہ قبول نہ کیا، انکی اہلیہ جسٹس ناصری اقبال کے
مطابق انہیں جب کہا گیا کہ امریکی حکام آپ سے بارہا معذرت کرچکے ہیں، معافی
بھی مانگ چکے ہین اس لیے ویزہ لے لیں شائد کبھی ضرورت پڑ جائے علاج معالجے
کیلئے، لیکن اس مردِ خودشناس نے یہ بھی قبول نہ کیا ، اور آخری دم تک کینسر
کے مرض سے لڑتے لڑتے اپنی ہی دھرتی پر شوکت خانم کینسر میموریل ہسپتال میں
جان، جان آفریں کے سپرد کردی۔
انہوں نے کبھی بھی اپنے حسب نسب کے بل بوتے پر کچھ نہیں کیا، بلکہ اپنی
خودداری، لگن اور عزم و استقلال سے ایک مثالی زندگی جیتے جیتے امر ہوگئے
اور اقبالؒ کے جاوید نامہ کیساتھ ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے۔ مجھے
جسٹس جاویداقبال مرحوم کی سب سے زیادہ جو بات پسند آئی وہ یہ کہ زندگی بھر
انہوں نے علامہ اقبالؒ کے نام کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا۔ یہ آدابِ فرزندی
ہے تھے کہ اقبال کے سعادت مند لختِ جگرنے والد کے نام سے ہٹ کر بھی دیارِ
عشق میں اپنا مقام پیدا کر کے مصداق اپنا مقام اور نام بنایا، ورنہ آج
ہمارے معاشرے میں حسب و نسب اور اپنے آباؤاجداد کے کارناموں کی بنیاد پر
کیا کچھ نہیں ہوتا، سیاستدانوں کو ہی دیکھ لیں، چاہے مذہبی سیاسی جماعتیں
ہوں یا سیکیولر سیاسی جماعتیں، سب کے سب نے اپنے بڑوں کے نام پر کھایا ،
پیا اور خوب لوٹا، ایک گدی نشین کا بیٹا اس کا جانشین، سکول پرنسپل کا بیٹا
اس کے منصب کا فائدہ اٹھاتا ہے، مدرسے کے مہتم کا بیٹا باپ کی جانشینی پر
نظریں جمائے رکھتا ہے، لیکن یہ عزم و استقلال کے پہاڑ راہِ زندگی کے ہر
نشیب و فراز میں اپنی خودداری پر جمے رہنے والے فرزندانِ ملت بہت کم مائیں
جنتی ہیں، جیسے اقبالؒ جیسا ماں ایک ہی جنا تھا، ویسے ہی فرزندِ اقبالؒ بھی
ماں نے ایک ہی جنا تھا۔۔۔۔۔۔ خالقِ کل ان کی تربت پر سدا رحمتوں کا نزول
فرمائے، اور نئی نسل تک اقبالؒ کے فلسفۂ خودی کی امانت بعینہٖ سپرد کرنے
کا اجرِعظیم عطا فرمائے۔ آمین !
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری کو روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا |
|