گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این
اے 122لاہور ۔5سے کل امیدوار تو 20تھے لیکن اصل مقابلہ پی ٹی آئی کے
سربراہ عمران خان اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سردار ایاز صادق کے درمیان
تھا۔ عمران خان اور ایاز صادق اسکول کے زمانے کے دوست ہیں، ایک وقت ایسا
بھی تھا جب فروری انیس سو ستانوے میں ہونے والے عام انتخابات میں عمران خان
لاہور سے جس قومی اسمبلی کی نشست کے لیے امیدوار تھے اسی حلقے کی صوبائی
نشست پر ایاز صادق نے تحریک انصاف کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے لیے انتخاب
لڑا، دونوں ہی ہار گےد، اس کے ساتھ ہی دونوں کی راہیں جدا ہوگیں ، ایاز
صادق نے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت اختیار کرلی۔ 2002 ء اور 2013ء کے
انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 لاہور میں عمران خان اور ایاز
صادق ایک دوسرئے کے مدمقابل آئے اور دونوں مرتبہ ہی ایاز صادق کامیاب ہوئے،
(2008ء کے انتخابات کا پاکستان تحریک انصاف نے بائیکاٹ کیا تھا) 2013ء کے
انتخابات میں قومی اسمبلی کے اس حلقے سے ایاز صادق کو 93,389 ووٹ ملے جبکہ
اُن کے مدمقابل تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان 84,517 ووٹ لیکر دوسرے
نمبر پر رہے۔ ایاز صادق 8872 ووٹوں کے فرق سےجیتے تھے۔
گیارہ می 2013ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122لاہور ۔5سے
ایاز صادق سے شکست کھانےکے بعد پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے
ایاز صادق کے خلاف الیکشن کمیشن میں پٹیشن دائر کر رکھی تھی۔ 22 اگست 2015ء
کوالیکشن ٹریبونل نےحلقہ این اے 122 سے مسلم لیگ (ن) کے رکن قومی اسمبلی
ایاز صادق اور پی پی 147 سے ن لیگ کے ہی رکن پنجاب اسمبلی محسن لطیف کے
انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم
دیا تھا۔ گیارہ اکتوبر کو حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخابات ہونگے لیکن اس
مرتبہ ایاز صادق کے مدمقابل عمران خان کی جگہ سےپاکستان تحریک انصاف کے
امیدوار علیم خان ہونگے۔ حلقہ این اے 122 کے ضمنی انتخابات میں
بیرسٹرعامرحسن پاکستان پیپلز پارٹی کےامیدوار ہیں لیکن بیرسٹر عامرحسن کی
بدقسمتی کہ اُن کے انتخابی جلسوں اور ریلیوں میں شریک ہونے والوں کی تعداد
نہ ہونے کے برابر ہے، بیرسٹر عامرحسن 2013ء کے انتخابات میں صرف 2833 حاصل
کرپائے تھے۔ میڈیا بھی پیپلز پارٹی کے امیدوار کو قطعی اہمیت نہیں دےرہا ہے
کیونکہ یہ سب جانتے ہیں کہ لاہور کے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 122 میں
ہونے والے ضمنی انتخابات میں اصل مقابلہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے ایاز صادق
اور پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان کے درمیان ہے۔
قومی اسمبلی کی نشستوں میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوتا گیا تو قومی اسمبلی
کےحلقوں میں بھی ردوبدل ہوتا رہا۔ 1970ء کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے
بانی ذوالفقار علی بھٹو انہی علاقوں پر مشتمل قومی اسمبلی کے حلقہ این
ڈبلیو 60 سے چند روز قبل وفات پانے والے علامہ اقبال کے صابزادئے ڈاکٹر
جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال کو شکست دیکر کامیاب ہوئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے
ذوالفقار علی بھٹو کے 78 ہزار ایک سو بتیس ووٹوں کے مقابلے میں33 ہزار نو
سو اکیس ووٹ حاصل کیے تھے، ڈاکٹر جسٹس (ریٹائرڈ) جاوید اقبال نے 1970ء کے
بعد کبھی کسی انتخاب میں حصہ نہیں لیا، البتہ بہت عرصے بعد سینیٹ کے لیے
ایک بار ضرور منتخب ہوئے ۔ سال 2002ء میں نئی حلقہ بندیاں ہوئیں تو حلقہ 94
کا زیادہ تر حصہ، حلقہ 98 کے بیشتر علاقے اور حلقہ 95 کی چند یونین کونسلز
ملا کر این اے 122 تشکیل دیا گیا، لاہور کینٹ کے ایک جانب سے شروع ہونیوالا
یہ حلقہ دھرمپورہ، علامہ اقبال روڈ، گڑھی شاہو، شملہ پہاڑی، اپرمال، زمان
پارک، فیروز پور روڈ، اچھرہ اور سمن آباد سے ہوتا ہوا ملتان روڈ تک جا
پہنچتا ہے۔ قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 94 سے 1988ء کے انتخابات میں
بینظیربھٹو بھی منتخب ہوچکی ہیں، تاہم یہ نشست بینظیربھٹو کی طرف سے چھوڑ
دی گئی تھی۔
ویسے تو ہر ضمنی انتخاب سے پہلے عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ تحریک انصاف
ہی جیتے گی مگر انتخابی حقائق بتاتے ہیں کہ 2013ء کے بعد ہونے والے چھ میں
سے پانچ ضمنی انتخابات میں کامیابی نواز لیگ کو ملی ہے۔ماضی قریب میں ہونے
والے انتخابی نتائج اور موجودہ سیاسی پس منظر پرنظر ڈالی جائے تو لگتا ہے
کہ سردار ایاز صادق کامیاب ہوجائیں گے، لیکن عمران خان کے دعووں کے مطابق
اہلیانِ لاہور ان ضمنی انتخابات میں ووٹ تحریک انصاف کو دیں گے۔ قومی
اسمبلی کے اس حلقے میں آنے والی دو صوبائی سیٹوں میں سے ایک سیٹ پی پی 148
تحریک انصاف کے میاں اسلم اقبال 54893 ووٹ لے کر جیت چکے ہیں۔ جبکہ
11اکتوبر کے ضمنی انتخاب میں پی پی 147 کی سیٹ پر مقابلہ نواز لیگ کے محسن
لطیف اور تحریک انصاف کے شعیب صدیقی کے درمیان ہوگا۔ پی پی 147 کی ایک
دلچسپ تاریخ یہ ہے کہ اس سیٹ پرسردار ایاز صادق بھی 2008ء کے انتخابات میں
کامیاب ہوئے تھے۔ تاہم ایاز صادق کے سیٹ چھوڑنے کے بعد ہونے والے ضمنی
انتخاب میں علیم خان جیت کر پرویز الہٰی کی کابینہ کا حصّہ بنے تھے۔
گیارہ مئی 2013ء کے انتخابات کے وقت قومی اسمبلی حلقہ این اے 122 میں
رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 3 لاکھ 26 ہزار 28 تھی۔ عام انتخابات کے بعداس حلقہ
میں 1 لاکھ 62 ہزار 501 نےن ووٹرز کا اندراج ہوا۔ گیارہ اکتوبر 2015ء کو
ہونے والے ضمنی انتخابات میں اسی حلقے میں رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 4 لاکھ 88
ہزار 529 ہے، ان میں مرد ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 68 ہزار 57 ہے جبکہ خواتین
ووٹروں کی تعداد 2 لاکھ 20 ہزار 472 ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس حلقے میں
اکثریت نوجوانوں کی ہے جن کا زیادہ تر جھکاو ُ تحریک انصاف کی طرف ہے، جبکہ
پینتالیس پچاس یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کی اکثریت مسلم لیگ (ن) کی حامی
ہے، ایک سروے کے مطابق زائد عمر کے لوگ وزیراعظم نواز شریف کی اقتصادی
راہداری اور توانائی کے منصوبوں کیلئے کی گیں کوششوں کو سراہتے ہیں۔ لوگوں
کی اکثریت نے امیدواروں کے بجائے نواز شریف اور عمران خان کو ووٹ دینے کی
بات کی یا شیر اور بلے کو ووٹ دینے کی اصطلاح استعمال کی۔
کون جیتے گا کون ہارے گا اس کا فیصلہ ہمیں 11 اکتوبر کی رات کو مل جاے گا،
فیصلہ جو بھی ہو اُس سے نہ تو نواز شریف کی حکومت ختم ہوگی اور نہ ہی عمران
خان وزیراعظم بن پاینگے لیکن سیاسی اثرات دونوں پارٹیوں پر ضرور ہونگے۔
پاکستان تحریک انصاف کے علیم خان اگر جیتے ہیں تو عمران خان کی شہرت کا
گراف کافی اوپر چلا جائے گا، عمران خان کےمسلم لیگ (ن) اور الیکشن کمیشن پر
لگائے گےن سارئے الزامات درست قرار دیےا جاینگے کیونکہ پاکستان تحریک انصاف
کی جانب سے جن چار حلقوں کو کھولنے اور اُن کی دوبارہ گنتی کروانے کا
مطالبہ کیا جاتا رہا ہے اس میں قومی اسمبلی کا یہ حلقہ این اے 122 بھی شامل
تھا۔ لوگ عمران خان کے لاتعداد یو ٹرن کو بھول کرانہیں ایک سنجیدہ سیاست
داں سمجھنے لگیں گے لیکن اگر پاکستان مسلم لیگ (ن) کے امیدوار اور سابق
اسپیکرایازصادق جیت جاتے ہیں اور واپس اسپیکر کی نشست پرجا بیٹھتے ہیں تو
عمران خان یہ سمجھ لیں کہ سیاست سے اُنکا نکالا شروع ہوجائےگا۔ عمران خان
نے اس ضمنی انتخابات کے شفاف ہونے کےلیے جو بھی مطالبات کیے وہ حکومت نے
مان لیے ہیں، پھربھی اگر علیم خان نہ جیت پائے تو عمران خان کے کسی الزام
یا احتجاج کی کوئی اہمیت نہیں ہوگیت اور پاکستان تحریک انصاف کی یہ سیاسی
موت ہوگی۔
حلقہ این اے 122 میں دو امیدوار نہیں لڑرہے ہیں بلکہ دو سیاسی جماعتوں کی
سیاست کا فیصلہ ہونا ہے، 22 اگست 2015ء کوالیکشن ٹریبونل کا فیصلہ آنے کے
بعد اب یہ حلقہ پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان تحریک انصاف دونوں ہی کےلیے
سیاسی زندگی اورموت کا مسئلہ بن چکا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کراچی کے حلقہ این اے
246 میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی طرح اس بار بھی میڈیا حلقہ این اے 122
میں ہونے والے ضمنی انتخابات کی تفصیلی کوریج پر لگ گیا ہے۔ 11 اکتوبر کو
اوکاڑہ کے حلقہ این اے 144 میں بھی ضمنی انتخاب ہو رہا ہے مگر اُس حلقہ پر
میڈیا کی کوئی توجہ نہیں۔ چلیے تو پھر انتظار کرتے ہیں کہ حلقہ این اے 122
کے لاہورئیے کیا فیصلہ کرتے ہیں اور "بو کاٹا" کے نعرئے کی گونج کس کی طرف
سے آتی ہے۔ |