" کراچی کے امن کیخلاف سازش "

کراچی میں جاری رینجرز کا آپریشن ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے شروع ہوا ۔ پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی اجازت اور دستخط یہ آپریشن شروع ہوا۔ 17 جولائ کو سندھ حکومت نے صوبے میں رینجرز کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع کی۔ محکمہ داخلہ کی سفارش پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس کی منظوری دی۔ ہر سال رینجرز کے قیام میں توسیع کی جاتی رہی ۔ رواں سال یہ مدت 19 جولائی کو ختم ہونی تھی لیکن اس سے قبل ہی صوبائی حکومت نے اس میں اضافہ کیا اس سے پہلے رینجرز اور سندھ حکومت میں بعض کارروائیوں پر اختلافات کے بعد حکومت نے رینجرز کو مشتبہ افراد کو 90 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے اختیارات میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ وفاقی حکومت کے رابطے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مشاورت سے سندھ کی صوبائی حکومت نے 20 روز کے لیے اختیارات میں اضافہ کر دیا۔ اس اقدام پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے صوبے کے وزیر اعلٰی اور ارکان صوبائی اسمبلی پر زور دیا تھا کہ وہ صوبے سے رینجرز کے انخلا کے لیے بل پاس کریں

رینجرزمخالف اشتہارات شائع کرانے کے الزام میں ایس ایس پی انویسٹی گیشن کراچی لطیف صدیقی کو معطل کردیا گیا. رینجرز ترجمان کیمطابق : ترجمان رینجرز نے کہا ہے کہ ایک پولیس افسرکی جانب سےرینجرز مخالف اشتہارات کراچی کے امن کیخلاف سازش ہے۔جس کا مقصد کراچی آپریشن کو نقصان پہنچانا ہے۔ایک حکمت عملی کےتحت عوام کی نظروں میں رینجرزکی کارکردگی کوگرانےکی کوشش کی جارہی ہےاس جھوٹے پراپیگنڈے کے خلاف رینجرز قانونی چارہ جوئی کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ اشتہارات کے مندرجات قطعی طور پر جھوٹ پر مبنی ہیں۔کراچی پولیس کی جانب سے رینجرز کے خلاف اغوا کے اشتہارات پر رینجرز کی ناراضی کے اظہار کے بعد اشتہار کا کورنگ لیٹر جاری کرنے والے پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان اشتہارات سے پولیس اور رینجرز میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ترجمان کے مطابق ایک حکمتِ عملی کے تحت عوام کی نظروں میں رینجرز کی اعلیٰ کارکردگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے، جس کا مقصد کراچی آپریشن کو نقصان پہنچانا ہے، ان اشتہارات کے مندرجات قطعی طور پر جھوٹ پر مبنی ہیں۔ رینجرز ترجمان کا کہنا ہے کہ رینجرز نے اپنے طور پر اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ پولیس اور رینجرز بہت اہم خدمات انجام دے رہے ہیں، گذشتہ دو سالوں میں امن و امان کے قیام میں ان کا بنیادی کردار رہا ہے ان میں کوئی تصادم یا اختلاف نہیں ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے اشتہارات صرف دونوں محکموں میں غلط فہمیاں پیدا کرنے کی کوشش ہیں۔ شہریوں کی گمشدگی اور لاشوں کی برآمدگی کے بعد ان کی شناخت کے لیے پولیس کی جانب سے اخبارات میں اشتہارات شائع ہونا معمول کی بات ہے لیکن ان میں رینجرز کا ذکر غیر معمولی ہے۔ رینجرز حکام کیطرف سے کراچی آپریشن پر 22 جون کو حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے رہنما مشاہد اللہ خان نے کہا تھا کہ پاک فوج کی موجودہ قیادت کے خلاف پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کے بیان کی وضاحت کے بعد ان کے ساتھ تنازع حل ہو چکا ہے تاہم کراچی میں رینجرز کا آپریشن جاری رہے گا۔ مشاہد اللہ خان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور اس کے سربراہ آصف زرداری کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے باوجود کراچی میں رینجرز کا آپریشن جاری رہے گا کیونکہ یہ ملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے شروع ہوا ۔ کراچی میں رینجرز کی کارروائی، پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سمیت تمام سیاسی جماعتوں کی اجازت اور دستخط یہ آپریشن شروع ہوا۔ 17 جولائ کو سندھ حکومت نے صوبے میں رینجرز کے قیام میں مزید ایک سال کی توسیع کی۔ محکمہ داخلہ کی سفارش پر وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے اس کی منظوری دی۔ ہر سال رینجرز کے قیام میں توسیع کی جاتی رہی ۔ رواں سال یہ مدت 19 جولائی کو ختم ہونی تھی لیکن اس سے قبل ہی صوبائی حکومت نے اس میں اضافہ کیا اس سے پہلے رینجرز اور سندھ حکومت میں بعض کارروائیوں پر اختلافات کے بعد حکومت نے رینجرز کو مشتبہ افراد کو 90 روز کے لیے زیر حراست رکھنے کے اختیارات میں توسیع سے انکار کر دیا تھا۔ وفاقی حکومت کے رابطے اور سابق صدر آصف علی زرداری کی مشاورت سے سندھ کی صوبائی حکومت نے 20 روز کے لیے اختیارات میں اضافہ کر دیا۔ اس اقدام پر متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے صوبے کے وزیر اعلٰی اور ارکان صوبائی اسمبلی پر زور دیا تھا کہ وہ صوبے سے رینجرز کے انخلا کے لیے بل پاس کریں اور گزشتہ رینجرز ترجمان کا کہنا تھا کہ ستمبر 2013 سے اب تک 6251 آپریشن کیے گئے جن میں گیارہ ہزار سے زائد ملزمان گرفتار اور پندرہ ہزار ہتھیار برآمد کیے ۔اس کے علاوہ ان کارروائیوں کے دوران ایک ہزار سے زائد دہشت گرد اور پانچ سو سے زائد ٹارگٹ کلرز کو بھی گرفتار کیا ۔ اور اب کراچی میں پولیس کی جانب سے رینجرز کے خلاف اغوا کے اشتہارات پر اس اشتہار کا کورنگ لیٹر جاری کرنے والے پولیس افسر کو معطل کر دیا گیا وزیر اعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ کا کہنا ہے کہ ان اشتہارات سے پولیس اور رینجرز میں غلط فہمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی رینجرز کے ترجمان نے ایک اعلامیے میں ان اشتہارات کو کراچی کے امن کے خلاف سازش قرار دیا۔ رینجرز ترجمان کا کہنا ہے کہ رینجرز نے اپنے طور پر اس معاملے کی تحقیقات شروع کر دی ہیں تاکہ معاملے کی تہہ تک پہنچا جا سکے۔ 11 ستمبر 2015 کو ایم کیو ایم نے رینجرز پر چار کارکنوں کی ہلاکت کا الزام لگاتے کہا کہ یہ اراکین کئی ماہ سے لاپتہ تھے انھیں ماورائے عدالت قتل کیا گیا اور کہا کہ یہ رینجرز کی تحویل میں تھے، انھیں غیر قانونی طور پر قید میں رکھا گیا اور ان کا کوئی جسمانی ریمانڈ نہیں لیا گیا جبکہ رینجرز نے ایم ایم کیو ایم کے الزامات کو مسترد کیا اور کہا کہ یہ پارٹی کی ایما پر ایم کیو ایم کے ’سیف ہاؤسز‘ میں روپوش تھے اور ایم کیو ایم لیگل ایڈ کمیٹی کے ممبر اور وکیل حسنین بخاری کے قتل میں ملوث تھے۔ رینجرز ترجمان کا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ چاروں ملزمان پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ایما پر روپوش تھے۔ گزشتہ دو سال سے جاری کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک بصد مشکل 70 ، 80 فیصد کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ طویل محنت اور تفتیش کے بعد جن لوگوں کے نام سامنے آئے وہ سیاسی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں تب جا کر پتہ چلا کہ منظم تخریب کاری، دہشتگردی اور ٹارگٹ کلنگ وغیرہ سوچے سمجھے منصوبے کا حصہ ہے۔ کراچی میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی دونوں ان جرائم میں درپردہ ملوث ہیں۔ پیپلز پارٹی کے سابق وزیر داخلہ سندھ ذوالفقار مرزا نے تو کھلم کھلا ’’پیپلز امن کمیٹی‘‘ کے نام سے لیاری میں پیپلز پارٹی کے منظم اور طاقت ور گروپوں کو بہترین اسلحہ سے مسلح کر دیا تھا لیکن ایم کیو ایم کا تو شروع ہی سے دہشتگردی اور خوف و ہراس پھیلا کر کراچی کو یرغمال بنانے اور سو فیصد نتائج حاصل کرنے کا منصوبہ تھا۔ انکی تنظیم فوجی انداز کی ہے سیکٹر بنا کر سیکٹر کمانڈ بنا رکھے ہیں یہی سیکٹر کمانڈ اب سنگین جرائم میں پکڑے جا رہے ہیں۔ ایم کیو ایم کا یہ دوسرا چہرہ اس قدر بھیانک ہے کہ اپنے ہی خاص خاص لیڈرز کو بھی مروانے سے گریز نہیں کیا گیا۔ ایم کیو ایم کے ایک لیڈر آفاق نے اس زمانے میں الطاف حسین سے اختلاف کی بنا پر اپنا علیحدہ دھڑہ بنا لیا تھا پھر اسکے ساتھ جو کچھ ہوا سب جانتے ہیں گزشتہ تین سال سے لندن میں عمران فاروق قتل کیس کی تفتیش جاری ہے، قاتل اور سہولت کار پاکستان کی ریاست کی قید میں ہیں۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ والے اسلام آباد میں ان کا بیان ریکارڈ کرکے لے جاچکے ہیں یہ قتل چونکہ لندن میں ہوا تھا اس کی اندرونی کہانی بھی آفاق سے ملتی جلتی ہے۔ اسکاٹ لینڈ یارڈ کا اصرار ہے کہ ملزم انکے حوالے کئے جائیں تاکہ قتل کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ پاکستان اور برطانیہ کے درمیان اس سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں اور امید رکھنی چاہیے کہ جلد ہی اس ضمن میں کوئی حتمی فیصلہ ہو جائیگا یوں تو برطانیہ کی خفیہ سروس MI6 کا نام بھی بیچ میں بار بار آ رہا ہے کہ ایم کیو ایم کے قائد جو لندن میں مقیم ہیں وہ MI6 کے مہمان ہیں۔ الطاف حسین کا اشتعال انگیز تقریر کرنے کے بعد معافی مانگ لینا ان کیلئے ایک معمول کی بات ہے۔ آجکل ملک میں کرپشن کا زبردست شور مچا ہوا ہےجمہوریت کے نام پر حکمران بلبلا رہے ہیں اور یہ واویلا کر رہے ہیں کہ رینجرز، نیب، ایف آئی اے وغیرہ صوبائی معاملات میں مداخلت کر رہے ہیں۔ صاف لفظوں میں ان کا یہ کہنا ہے کہ سب کچھ کرو لیکن سیاست دانوں کی کرپشن کو نظرانداز کرو۔ آج کے پاکستان میں معاشی توازن اس حد تک بگڑ چکا ہے کہ عرشی طبقے نے فرشی طبقے کی زندگی کو عذاب بنا کر رکھ دیا ہے۔ پاکستان کے حالات ہمیں بتا رہے ہیں دشمن بھارت نے مشرقی پاکستان کی طرح موجودہ پاکستان میں بھی ہر شعبہ زندگی میں اربوں کھربوں روپیہ خرچ کرکے مملکت کے اندر مملکت بنا کر حالات کو اس حد تک خراب کرنا تھا تاکہ پاک فوج امن و امان بحال کرنے میں مصروف ہو جائے تب دنیا کو یہ باور کروایا جائے کہ مداخلت کیوں ضروری ہے۔ جنرل راحیل شریف نے جرأت کا مظاہرہ کیا اور مملکت کو درپیش چیلنجز سے نمٹنے کیلئے ’’ضرب عضب‘‘ کے نام سے ’’جہاد‘‘ شروع کیا اس آپریشن نے جو ابھی جارہی ہے ملک دشمنوں پر ثابت کر دکھایا کہ پاکستان کی افواج بے مثال بہادری کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملک دشمنوں کے محفوظ ٹھکانوں کو تہس نہس کر سکتی ہے۔

Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 334602 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More