یہ سلسلہ یونہی جاری رہے گا....؟

علماء کے خون کے پیاسے ہاتھ ابھی کہیں نہیں گئے اور نہ ہی ان کی خونی پیاس بجھ پائی ہے۔ جو لوگ علماء کے وجود سے خوف زدہ ہیں مختلف رنگ و روپ میں آکر اپنا وار کیے جا رہے ہیں۔ شہر کراچی جہاں پہلے بھی اخیار امت علماء دین کو خون میں نہلایا گیا، قاتل درندوں نے ہر بار اسلامیانِ پاکستان کو گہرے زخم لگائے، مگر ہر وقوعہ کے وقت حکومت نے کیا کردار ادا کیا ہے؟ اہل اقتدار نے اپنی ذمہ داری کہاں نبھائی؟ کیا ان کا مقصد محض کرسی اقتدار ہے، کیا عوامی پیسوں پر پلنے والے یہ وزراء و حکومتی اہلکار اپنی عیش وعشرت کے دن گزارنے آتے ہیں۔ یہاں ایک ہی دن میں مولانا عبدالغفور ندیم اور مولانا سعید احمد جلالپوری جیسے وسیع حلقہ رکھنے والے جید علماء کرام کو اپنے بیٹوں اور رفیقوں سمیت سرعام رواں دواں سڑکوں پر قاتل نشانہ بنا ڈالتے ہیں اور پھر ایسے غائب کہ ان کا کوئی سراغ کیا ان کی اڑائی ہوئی دھول کا پتہ ونشان نہیں ملتا۔

دراصل وہ عالمی کفریہ طاقتیں جو ہر جگہ مسلمانوں کے تعاقب میں ہیں اور درجہ بدرجہ اپنی سرگرمیوں کو سرانجام دیتی ہیں۔ ان کی سازشوں میں جو عالم دین رکاوٹ ہو یا جس سے انہیں خطرے کی امید ہو اسے راستے سے ہٹا دینا ہی ان کا مشن ہے۔ مدارس اور علماء کو بدنام کرنا، انہیں دہشت گردی کے ساتھ منسلک کرنا محض علماء دشمنی پر مبنی نہیں بلکہ ایسے لوگ دین دشمن قوتوں کے ایجنٹ ہیں یہ ان کی راہیں ہموار کرتے ہیں، ان کی سرگرمیاں ان کے ایجنڈے کی تکمیل آسان کر دیتی ہیں، جب یہ لوگ اپنی تحریر و تقریر سے علماء کرام کو دہشت گردی سے جوڑتے ہیں تو اس وقت انہیں یہ احساس ہو کہ نہ ہو مگر ہوتا یہی ہے کہ اس طرح وہ ان علماء کے وجود اور ان کی اہمیت و قیمت کو ختم کر رہے ہوتے ہیں۔ یہی وقت ہوتا ہے ان قوتوں کے شادیانے بجانے کا جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ اب ہمارے ان مہروں نے راہ کافی آسان کردی ہے اور ان کے گرد شکوک وشبہات کے تانے بن دیئے گئے ہیں تب وہ اپنا وار کر گزرتے ہیں۔

مولانا سعید احمد جلالپوری شہید کس فرقہ پرستی سے وابستہ تھے جو انہیں ان ظالموں نے نشانہ بنایا اور مولانا عبدالغفور ندیم شہید کس فرقہ واریت کے ماننے والے تھے جو انہیں یہ سزا دی گئی؟ جی نہیں!یہ امت مسلمہ کے وہ لوگ تھے جن کے وجود کی برکت سے اللہ تعالیٰ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، بہت سے فتنے دبے رہتے ہیں، بہت سے سرکشوں کو سر اٹھانے کی ہمت نہیں پڑتی، ایسے نیک افراد کا وجود سراپا خیر و بھلائی ہوتا ہے۔ ان کی برکت سے گمراہی کی ظلمتیں کافور ہوتی ہیں اور علم وہدایت کا نور دور دور تلک پھیلتا ہے۔ یہ ان کی مقبولیت کی علامت ہے کہ رب العزت نے زندگی سعادت والی دی اور موت شہادت والی، یہ بہت بڑا اعزاز ہے ان کے دشمن اور قاتل درندے کتنے بے وقوف ہیں، کتنے احمق ہیں، انہوں نے زندگی چھیننا چاہی مگر وہ کیا جانیں وہ ایسے زندگی پا چکے جو انسانی عقل وشعور سے بھی ماوراء ہے۔ یقیناً یہ حضرات ہم سے بہت اچھے رہ گئے، مانا کہ ان کی جدائی اور فراق پسماندگان کیلئے حسرت و افسوس کا باعث ہے وہ پسماندگان نسبی ہوں یا روحانی، لیکن خود ان کیلئے یہ سعادت ہی سعادت ہے ایک انسان اور کلمہ گو مسلمان کی اس سے بڑی کیا سعادت ہو سکتی ہے کہ خاتمہ بالخیر و الشہادت ہو جائے، جی اس سے بڑی خوش نصیبی کہاں مل سکتی ہے کہ جس موت کی تمنا میں سرکار دو عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان اقدس مچل جاتی ہو لوددت ان اقتل فی سبیل اللہ ثم احی ثم اقتل ثم احی ثم اقتل....جس موت کیلئے فاروق اعظم کے دست دعاء بلند ہوتے ہوں اللہم ارزقنی شہادة فی سبیلک ....اور دوسری جانب ان قاتلوں کیلئے کتنی بڑی بدنصیبی اور پھٹکار ہے وہ اپنے اس جرم کے بدلے کتنا گھٹیا سودا کرتے ہیں، دنیا کی ذلت و رسوائی اور خوف و دہشت ہر جگہ انہیں چپکی رہتی ہے۔ وہ سکون تلاش کرنا چاہتے ہیں مگر بے سکونی وبے چینی انہیں کہیں کا نہیں چھوڑتی، آگے قبر کا عذاب الگ ان کا منتظر، جہنم کے انگارے الگ دھکائے جاتے ہیں، یہ بدنصیبی وہ کیسے گوارا کرلیتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ان بدبختوں کیلئے ابدی جہنم لکھی جا چکی ہوتی ہے۔ تب وہ ایسی حرکات بد کے ذریعے اپنا ٹھکانہ متعین کرلیتے ہیں۔

علماء دین کا مسلسل قتل ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ خاص کر اس حوالے سے کہ ہم اگر قانونی معاونت حاصل نہ ہونے کی وجہ سے قاتل ہاتھوں تک نہیں پہنچ سکتے تو کیا؟ آخر روز حساب آنا ہے، آخر قیامت بر حق ہے، وہاں سب دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ وہاں اعلان ہوگا وامتازوا الیوم ایہاالمجرمون اے مجرموں! آج کے دن الگ ہو جاﺅ تب ظاہر ہے یہ مجرم خود کو کہاں چھپائیں گے، وہاں چھپنے کی جگہ ہوگی نہ بھاگنے کی، سب اللہ رب العزت کی بارگاہ میں پیش ہوں گے اور اپنے کیے کا حساب چکائیں گے۔ اس لیے آج یہ قاتل اگر بچ بھی گئے تو کل کہاں جائیں گے؟ البتہ ایک بات کہ ان علماء کے قتل سے کن قوتوں کے کیا مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور کون سی قوتیں اس قتل پر شادیانے بجاتی ہیں۔ تب ہمیں یہ عزم کرنا چاہیے کہ ہم ان قوتوں کے راستے میں ضرور رکاوٹ بنیں گے، ان کے عزائم کو خاک میں ملائیں گے، ہم نے ان دشمنوں کو پہچاننا ہے جو مختلف پردوں میں چھپ کر وار کرتے ہیں ہمیں دیکھنا ہوگا کہ قادیانی وارتدادی لابیاں کس انداز سے سرگرم ہیں، کہاں کہاں نوجوان نسلوں کو گمراہ کر رہی ہیں، خیر خواہوں کے روپ میں رہزن کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اسی طرح سیاسی پارٹیاں اس ملک کو آگ میں دھکیلنے کی جو سازش کررہی ہیں ان کے آگے بند باندھنا ہوگا۔ حق کو پہچاننا اور اس پر ڈٹ جانا یہی کامیابی ہے پھر چاہے اس راہ میں موت کو گلے لگانا پڑے، خوشی سے قبول کرنا چاہیے۔ لیکن اپنے مشن سے ہٹنا، اپنے نصب العین سے غداری کرنا اور غداری تو دور کی بات اسے ثانوی حیثیت دینا بھی اپنی ناکامی کو خود دعوت دینا ہے۔

اس موقع پر دشمن خوش نہ ہو اہل حق کے قافلے کیلئے یہ کوئی نئی چیز نہیں ہمارے قافلے شہادتوں کے خوگر ہیں۔ مولانا سعید احمد جلالپوری کی شہادت ان کا اعزاز صد افتخار ہے جس نے انہیں اپنے پیش رو مولانا حبیب اللہ مختار، مولانا یوسف لدھیانوی، مفتی نظام الدین شامزئی اور مفتی جمیل خان شہید رحمہم اللہ اجمعین کے مبارک قافلے سے جا ملایا ہے اور مولانا عبدالغفور ندیم کی شہادت بھی ان کا اعزاز صد افتخار جس نے انہیں تاریخ عزیمت کے روشن باب مولانا حق نواز جھنگوی، مولانا ضیاء الرحمن فاروقی، مولانا ایثار القاسمی، مولانا اعظم طارق اور مولانا علی شیر حیدری شہید رحمہم اللہ تعالیٰ سے جا ملایا ہے۔ جس طرح اول الذکر بزرگوں کے جانے سے ان کی مثل کا خلا تو ضرور پیدا ہوا مگر ان کا مشن نہ رک سکا اسی طرح اب بھی دشمن کے عزائم پورے نہ ہوں گے اور ان کا مشن جاری رہے گا البتہ متعلقین کو سوچنا ہوگا کہ کیا ہم اپنے قائدین کو اسی طرح”لقمہ تر“ بناتے رہیں گے؟
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372824 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.