”حماس“ فلسطین کی جہادی تنظیم
ہے، جسے شیخ احمد یسین شہید رحمہ اللہ جیسے بزرگ مجاہدوں کے معطر لہو نے
سینچا ہے۔ اسرائیلی ظلم وجور اور سرزمین فلسطین پر ناجائز قبضے کو واگزار
کرانے کیلئے اس تنظیم کی بنیاد رکھی گئی۔ اس تنظیم کے عزائم و مقاصد کو
صحیح طور پر اس وقت تک جانچا ہی نہیں جا سکتا جب تک اسرائیل کی حقیقت اور
اس کے سیاہ کردار وعزم کو سامنے نہ رکھا جائے۔ آج اسرائیل جس سرزمین پر
واقع ہے وہ دراصل فلسطین کی زمین ہے۔ مگر امریکہ، برطانیہ کی شہہ پر اور ان
کی مدد سے ایک منصوبہ کے تحت فلسطینی علاقے چھین کر اسرائیلی ریاست قائم
کردی گئی اور اب اسرائیل اپنے ناپاک عزائم کے ساتھ پورا فلسطین ہڑپ کرلینا
چاہتا ہے جس کی وجہ سے اسرائیل دن رات فلسطین کو اپنی جارحیت، ظلم وستم اور
تذلیل کا نشانہ بنا رہا ہے۔ اسرائیل دراصل تنہا کچھ بھی نہیں لیکن امریکہ
اور یورپی ممالک نے اسے اس قدر طاقت ور بنا دیا ہے کہ کھجور کی گٹھلی جتنی
یہ ریاست لبنان، فلسطین، مصر، شام، اردن ،عراق اور سعودی عرب تک پہنچنے کے
خواب دیکھ رہی ہے اور اس کے علاوہ دوسرے مسلم ممالک کو اپنے کنٹرول کرنے
کیلئے اپنی دہشت گرد کاروائیوں کیساتھ ساتھ ان ممالک کی قیادت کی تذلیل
کرنے میں بھی دن رات مصروف ہے جیسے پچھلے دنوں وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس
میں اسرائیلی وزیر خارجہ نے شام کے وزیر خارجہ کے ساتھ جارحانہ انداز میں
تلخ کلامی کی اور اس کو دھمکیاں دیں جس سے خطہ میں خوف وہراس پھیلنے کا
خدشہ پیدا ہوا۔ سعودی عرب جیسے ملک نے بھی اسرائیل کو اپنی حدود میں رہنے
کیلئے کہا۔ یوں تو ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی ساری کی ساری قیادت
درندہ صفت ہے مگر ان میں سے بعض اعلیٰ عہدیدار بہت ہی اکھڑ مزاج، مغرور اور
اخلاق رزیلہ کے مالک ہیں ان میں ایک نام ایوگڈولائبر مین کا ہے جس نے
اسرائیل اور ترکی کے درمیان اپنے جارحانہ رویہ سے تعلقات میں کشیدگی عروج
تک پہنچانے میں بے حد مذموم اور اشتعال انگیز کردار کا مظاہرہ کیا اور جس
کی وجہ سے گزشتہ دنوں میں ترکی کے خلاف اسرائیلی حکمرانوں کی جارحیت، تہذیب
و تمدن سے ماوراء اور مستحکم تھے مگر جب ترکی نے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی
جارحیت کے خلاف آواز اٹھائی تو اسرائیل ہاتھ دھو کر ترکی کی حکومت کو گرانے
اور اس کی قیادت کو ذلیل کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اس طرح کے رویہ کا مقصد صرف
اور صرف یہ ہے کہ امت مسلمہ کی تذلیل کی جائے اور مسلم ممالک کو اپنے رعب
میں لا کر اس کو اپنے زیرنگیں لایا جائے۔ ان کو اکیلا کر کے ان کی معیشت کو
تباہ کیا جائے اور ان کے وسائل پر قبضہ کر کے ان ممالک میں اسرائیل نواز
حکومتیں لا کر وہاں اپنا تسلط قائم کیا جائے۔
اسرائیل کے انہی جارحانہ عزائم کے خلاف فلسطین میں جو مزاحمتی تحریکات وجود
میں آئیں، حماس اپنے کردار وعزائم کے لحاظ سے ان میں ممتاز اور سرفہرست ہے۔
دراصل حماس اپنے حقوق کے تحفظ اور مفادات کے حصول کے سلسلے میں کسی کی
ڈکٹیشن قبول نہیں کرتی۔ وہ اپنی پالیسی خود ہی مرتب کرتی ہے اور اسے عملی
جامہ پہنانے کیلئے اپنے تمام وسائل و اسباب بروئے کار لاتی ہے اور جس
معاملے کو حق سمجھتی ہے اس سے کسی صورت دستبردار ہونا گوارا نہیں کرتی چاہے
اس مؤقف پر عالمی برادری کی حمایت حاصل ہو یا نہ ہو۔ بہر حال حماس اپنے
مؤقف پر مضبوطی سے قائم رہنے والی ٹھوس بنیادوں پر استوار مضبوط جماعت ہے۔
حماس کا یہی حقیقت پسندانہ اور منافقت سے پاک سیاسی کردار ہے جس نے اسے اہل
فلسطین میں خاص مقبولیت عطا کی ہے اسرائیل نے بارہا حماس پر یلغار کی تاکہ
اس جماعت کو اس قدر شکست وریخت سے دو چار کردیا جائے جس سے نہ تو اس میں
قوت مقاومت باقی رہے اور اہل فلسطین کا اعتماد بھی اس سے اٹھ جائے۔ ماضی
قریب میں غزہ پر ہونیوالی اسرائیلی یلغار اس سلسلے کی کڑی تھی۔ اس جارحیت
میں اسرائیل نے تمام انسانی و اخلاقی حدود کو پھلانگ کر جس درندگی کا
مظاہرہ کیا اور عالمی جنگی قوانین کی دھجیاں اڑا کر جس طرح ان کی پامالی کی
اس کے اثرات حماس پر تو کیا اثر انداز ہوتے اس سے برعکس ظاہر ہوئے ہیں۔
حماس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے اور عالمی سطح پر اسے مزید حمایت حاصل
ہوئی جبکہ خود اسرائیل ہنوز الزامات اور مذمتی مہموں کا نشانہ بنا ہوا ہے۔
حال ہی میں اس حوالے سے ایک مفصل رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں بتایا گیا ہے
اسرائیل کے خلاف مذمتی مہمات میں خاصا اضافہ ہو رہا ہے اور اسرائیلی جرائم
اب اس قدر بڑھ گئے ہیں اور ان سے نظر چرانا اتنا مشکل ہوگیا ہے کہ اب
اسرائیلی درندوں کے حمایتی دوست بھی اظہار مخالفت کرنے لگے ہیں۔ رپورٹ میں
کیا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیل کے خود ساختہ وقار کو کافی دھچکا لگا
ہے دنیا بھر میں اسرائیل مخالف مہم میں اضافہ ہو رہا ہے جو کہ صرف زبانی
کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر بھی زور وشور سے جاری ہے۔ جب اسرائیلی اتھلیٹ
باہر کے ممالک میں مقابلے کیلئے جاتے ہیں تو انہیں اسرائیل مخالف مظاہروں
کا سامنا کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ اب یورپ میں بھی اسرائیل کی مصنوعات کے
بائیکاٹ کا رجحان فروغ پا رہا ہے اور اسرائیلی رہنماﺅں کو لندن دورہ کے
دوران گرفتاری کی دھمکیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ اسرائیل کی شخصیات اور
اداروں دونوں کے گرد اس کا جال بنا جا رہا ہے یہ دائرہ کار اب یورپی ممالک
تک پھیلتا جا رہا ہے۔ رپورٹ میں اس نیٹ ورک میں لندن، برسلز، مرڈ، بورنٹو،
سان فرانسکو، برمکے، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کو بھی شامل کیا ہے۔ اس
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل کی کردار کشی کرنے والوں میں نوجوان،
تارکین وطن اور سیاسی متحرکین شامل ہیں۔ اگرچہ یہ تعداد میں زیادہ تو نہیں
ہیں مگر ان کی چلائی جانی والی مہم بہت اثر انگیز ہے۔ یہ عوامی مہمات اور
میڈیا کوریج کے ذریعے اسرائیل کے خلاف منفی تاثر ابھارنے کا اہم ذریعہ بنتے
ہیں۔ یہ ادارے اسرائیل کی پالیسیوں پر تنقید کرنے والے عالمی اداروں کے
ساتھ بھی مکمل تعاون کرتے ہیں۔ ایمنسٹی اور ہیومن رائٹس کے ساتھ تعاون واضح
مثال ہے۔ یہ یورپ میں متحرک فلسطینی گروہوں کو بھی ان اداروں سے رجوع کرنے
کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اس نیٹ ورک میں اکثریت میں فلسطین، عرب یا
مسلمان نہیں بلکہ یورپین اور شمالی امریکہ کے بائیں بازو کے کارکن شامل ہیں
جو کہ اسرائیل کو ایک قابض اور جابر ریاست تصور کرتے ہیں۔ اسرائیل کی
پالیسیوں پر مسلسل تنقید اب عالمی سطح پر فروغ پذیر ہے جس میں کسی جھوٹ کا
عنصر نہیں پایا جاتا بلکہ اسرائیل کا اپنا کیا دھرا ہی ہے جو کہ سامنے آرہا
ہے اسرائیل کا جارحانہ رویہ اور اس کی پالیسیاں دنیا کی نگاہوں سے ڈھکی
چھپی نہیں۔ سچ کب تک چھپایا جا سکتا ہے۔ اسرائیل کی ڈھٹائی نے عالمی اداروں
کو بولنے پر مجبور کردیا ہے۔ یورپی یونین، برطانیہ، گولڈ سٹون، رپورٹ، غزہ
جنگی جرائم، تحقیقات اب اسرائیل کے دوست بھی اس کے خلاف زبان کھولنے لگے
ہیں۔ اسرائیل پر تنقید کے سلسلے میں یہ بھی قابل ذکر ہے کہ سابق اسرائیلی
وزیراعظم ایہود المرٹ کے امریکہ میں آمد پر ان کے خلاف شگاگو میں شدید
احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ مظاہروں کا اہتمام امریکہ میں مقیم فلسطینی، عرب،
مسلمان شہریوں اور انسانی حقوق تنظیموں نے کیا تھا۔ اس حتجاجی مظاہرے میں
ہزاروں افراد نے شرکت کی ۔ مظاہرین کے پلے کارڈز اور بینرز پر لکھا تھا
”ایہود اولمرٹ جنگی مجرم “مظاہرین نے ایہود کے خلاف زبردست نعرے بازی کرتے
ہوئے انہیں امریکہ سے نکل جانے کو کہا۔ شکاگو یونیورسٹی میں مظاہرین نے
یونیورسٹی ہال میں ایہود کو پکڑنے کی کوشش کی تاکہ ان کو گرفتار کیا جائے۔
اسی طرح سابق اسرائیلی وزیراعظم امریکی دورے کے دوران شگاگو یونیورسٹی میں
دنیا میں قیام امن کے موضوع پر تقریر کررہے تھے اسی دوران ایک طالب علم نے
میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ایہود خود ایک جنگی مجرم ہیں ان کی اصل
جگہ شکاگو یونیورسٹی نہیں بلکہ انہیں عالمی عدالت انصاف میں جانا چاہیے اور
ثابت کریں کہ امن کا مفہوم کیا ہے؟
اسرائیل پر آج جو تنقید ہو رہی ہے وہ سب اس کا اپنا کیا دھرا ہے۔ جیسا کہ
حال ہی میں اسرائیلی گماشتوں نے ایک حماس رہنما کو دبئی میں خفیہ طور پر
قتل کیا، اس سے جہاں پر یہ واضح ہوتا ہے کہ اسرائیل اپنی درندگی اور ہٹ
دھرمی پر پوری ضد سے قائم ہے وہیں یہ بھی پتا چلتا ہے اس وقت اسرائیلی
مزاحمت کے راستے میں اگر کوئی رکاوٹ (جو واقعی رکاوٹ ہو نہ کہ بناوٹی)ہے
توو ہ ”حماس“ہے۔ اسی لیے اسرائیل غزہ پر جارحیت کرے فسلطین میں خفیہ
کاروائیاں کرے یا دبئی میں کسی تنظیم کے رہنما کو نشانہ بنائے تو وہ ”حماس“
ہی کو ٹارگٹ کرتا ہے۔ اس صورت میں وہ عرب ممالک جو عالم عرب میں اسرائیلی
اثر و رسوخ ختم کرنا اور اسرائیلی درندگی کو لگام دینا چاہتے ہیں ان کیلئے
ضروری ہے کہ وہ اپنی حمایت کا وزن”حماس“ کے پلڑے میں ڈال دیں۔ اگر عرب
ممالک اسرائیل، امریکہ اور برطانیہ سے مرعوب ہو کر اس جماعت سے اسی طرح دور
رہے تو یہ بات صرف حماس ہی کیلئے نقصان دہ نہیں بلکہ خود عرب ممالک کیلئے
مشکلات و پریشانیوں کا باعث بن سکتی ہے اور یہ بات محض ایک خدشہ نہیں بلکہ
اسرائیل کے متعدد اقدامات اس کی بین دلیل ہیں۔ کاش کہ اسلامی ممالک کے
حکمران ایسی مخلص دفاعی تنظیموں سے بے رخی کا وہ سلوک ترک کر دیں جو امریکہ
یورپ کے دباﺅ پر اختیار کر رکھا ہے تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسی جارح پسند
اقوام کو لگام نہ ڈالی جا سکے۔ اللہ تعالیٰ اپنے مخلصین کا حامی و ناصر ہو۔
آمین۔ |