ساہتیہ اکیڈمی ایوارڈ کی واپسی
(Shamim Iqbal Khan, India)
انگریزی زبان کی ممتاز ادیبہ
۸۸؍سالہ ’نین تارا سہگل‘ جو ہندوستان کے پہلے و ہردِل عزیز وزیر اعظم پنڈت
جواہر لعل نہرو کی بھانجی ہیں،بے گناہ محمد اخلاق کو رات کے سنّاٹے میں اس
کے گھر میں گھس کربے دردی سے قتل کر دیے جانے پربہت ہی سخت برہمی اور رنج و
غم کا اظہار کر تے ہوئے ان کے ناول پر ملے ساہتیہ اکاڈمی اوارڈ کو عوام کے
ساتھ اظہار یکجہتی کے طور پر واپس کر دیا۔انھوں نے یہ کہا ’’وزیر اعظم
لاکھوں لوگوں کا خطاب کرتے ہیں، بہت سے مسائل پر اپنی رائے بھی دیتے ہیں
لیکن ثقافت پر ہو رہے حملوں کے لے کر وہ خاموش کیوں ہیں؟‘‘
محترمہ سہگل کے بعد معروف ادیب اشوک واجپئی نے ساہتیہ اکاڈمی اوارد لوٹا
دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے ’’بھارت کے ثقافتی ورثہ پر منصوبہ بند سازش کے تحت
حملے ہو رہے ہیں اسے دیکھتے ہوئے اب مصنفین کے لیے فیصلہ لینے کا وقت آگے
ہے‘‘۔
ان دو مصنفین کے علاوہ مزید پانچ لوگوں نے ، جن کے نام ہیں: ویراناماڈیلوار،
ٹی ستیش جاورے گوڑا، سنگا میش مونا سکھانی، ہنومنت ہالی گیری،سری دیوی وی
الور اور چدانند نے بھی اپنے اپنے ایوارڈ لوٹانے کو فیصلہ کیا ہے۔
قابل ستائش ہیں یہ حضرات اور انہیں کی طرح کے لاکھوں حضرات جن کے دلوں میں
انصاف کی شمع روشن ہے، ان کو ہر اچھے برے کی پہچان ہے۔برائی کے خلاف اگر یہ
لوگ کھڑے ہو سکتے ہیں تو کہا جاسکتا ہے حقیقت میں بھارت مختلف مذاہب کا ایک
گلدستہ ہے۔ مٹھی بھر کے کچھ فرقہ پرست اس گلدستہ کو خراب نہیں کر سکتے۔
رحمن عباس نے یہ اعلان کیا ہے کہ ’مہاراشٹر ساہتیہ اکاڈمی ۲۰۱۱‘ ایوارڈوہ
بھی واپس کر رہے ہیں۔یہ ہوئی ہے مردوں والی بات۔مردو ں والی باتیں کرنے
والے بہت سے شاعر ہیں جوہندو ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈسے سرفراز کیے جا چکے ہیں
لیکن وہ خاموش ہیں۔ میری مراد ’منور رانا(۲۰۱۴)‘، ’جاوید اختر(۲۰۱۳)‘،
’خلیل مامون(۲۰۱۱)‘، ’ش․کاف․ نظام(۲۰۱۰)‘، ’عبدالکلام قاسمی(۲۰۰۹)‘، ’وہاب
اشرفی(۲۰۰۷)‘، ’مخمور سعیدی(۲۰۰۶) (انکا انتقال ۲۰۱۰ء میں ہو چکا ہے)‘،’جابر
حسین(۲۰۰۵)‘،’ سلام بن رزاق(۲۰۰۴)‘، ’ سید محمد اشرف(۲۰۰۳)‘،’ نیر مسعود(۲۰۰۱)،
’محمد ادریس امبرؔ بہرایچی(۲۰۰۰)‘، ’بشیر بدر(۱۹۹۹)‘ اور ’ندا فاضلی(۱۹۹۸)۔
محترم اعظم خان صاحب نے اقوام متحدہ جانے کی بات کہہ دی۔وہ ایک اچھے سیاست
داں ہیں،ہو سکتا ہے اس میں انہوں نے کوئی سیاسی پہلو نظر آیا ہو۔ ہم جیسے
غیر سیاسی لوگ کیاسمجھیں گے۔اگر وزارت سے الگ ہونے کی بات کرتے تو یہ بات
ہم جیسے کم عقلوں کی سمجھ میں آجاتی۔
ویسے آج مودی جی کا مون برت یہ کہتے ہوے توڑا ہے ’’ہندو مسلمان آپس میں مت
لڑیں، انہیں غربت کے خلاف لڑنا چاہئے‘‘۔جب اتنا ہی بولنا تھا تو اتنا
’ولمبھ‘ کیوں ہوا۔اس کی وجو یہ سمجھ میں آتی ہے کہ ’صدر جمہوریہ عالی جناب
پرنب مکھر جی ابھی نہیں بولے تھے، ’پروٹوکول‘ کا خیال تو رکھنا ہی پڑتا ہے۔
صدر جمہوریہ ہند نے کہا ’’ہماری قومی یکجہتی بہت اہمیت کی حامل ہے اسکا
ہمیشہ خیال رکھا جانا چاہئے اور ہم اپنے ملک کی تہذیب کو ختم نہیں ہونے دے
سکتے۔ہم سب کو مل جُل کر رہنا ہوگا اور ثقافتی تبدیلیوں کو ذہن میں رکھنا
ہوگا۔اب راج ناتھ سنگھ جی بھی بولے ہیں کہ’’قانون سے کھلواڑ کرنے و ماحول
خراب کرنے والوں پر سخت کاروائی ہو گی‘‘۔
سادھوی پراچی شاید محمد اخلاق کے کنبے کو پُرسہ دینے جا رہی تھیں کہ پولیس
والوں نے روک لیا۔پولیس بھی کیا طرفہ تماشہ کرتی ہے، دنگہ نہیں روک سکتی
ہے، بیچاری ،بھگوان کو پیاری سادھوی کو روک لیا۔
میرے اندر کے ’ضمیر بھائی‘ نے مجھے ٹوکا’ پگلانے ہو، سادھوی پرسہ دینے
جائیں گی؟ارے وہ اس لیے جا رہی تھیں کہ دیکھیں کہ اگر اخلاق کا بھوت ان کے
چیلے چاپڑوں کا ستا رہا ہو تو کچھ بھسم، بھبھوت، گنڈا ونڈا پہنا آئیں۔میرے
اندر کے ’ضمیر بھائی‘ پھر بولے’’فلموں میں تم نے دیکھا نہیں کہ کچّی موت
مرنے والا انسان (نصیر الدین شاہ)کس طرح بھوت بن کر کسی قبرستان بیٹھے ایک
ناکام انسان (شاہ رخ خاں) کی مدد سے اپنے قاتلوں کا خاتمہ کرتا ہے۔یہ بھوت
تو اب اور بھی غضب ناک ہو جائے گاکیونکہ اس کے گھر والے بھی گھر چھوڑ کر
چلے گئے ہیں، اب وہ خالی گھر کی دیواروں سے سر ٹکرا ٹکرا کر اپنے کو اور
بھی غضب ناک بنائے گا۔
میرے اندر والے (ضمیر بھائی) پھر مجھ سے بولے۔گورکھپور کے ادتیہ ناتھ بہت
غصے میں ہیں۔ کہہ رہے ہیں یہ پراچی موسی پگلا گئیں ہیں ؟ کہیں گنڈا بھبھوت
سے بھوت پر قابو پائیں گی؟وہاں لوگوں کو خاص طریقے سے بنی ہوئی بندوقیں
دینی پڑیں گی تاکہ بندوق میں لگی ٹیلی اسکوپ سے بھوت دکھنے پر اس کو نشانا
بنایا جا سکتا ہے۔سوال یہ اُٹھتا ہے کہ بھوت تو ایک ہی ہوگا لیکن بندوقیں
پورے گاؤں میں سپلائی ہوں گی؟ پتہ نہیں ’فیکٹری میڈ‘ ہوں گی یامیڈ اِن
ٹھورے(Local)۔ کیا سب کوعام طور سے بندوق سپلائی کی جائیں گی؟یا کوٹے کے
حساب سے؟ |
|