مرادرسول،شہیدمحراب حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ

مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ ٔراشد، اعدل الاصحاب،امام العادلین،مرادرسول،شہیدمحراب حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ وہ صحابی ہیں جن کی فضیلت کے لیے اتنا کافی ہے کہ قرآن کریم ان کی رائے کی موافقت کرتا ہے اور سیدالمرسلین ،خاتم الانبیا صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان کے لیے فرمایا :میرے بعد اگر کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔(سنن ترمذی)

22لاکھ مربع میل پر حکومت کرنے والے خلیفہ کی زندگی کا ایک ایک گوشہ اپنے اندر ایسے انمٹ نقوش لیے ہوئے ہے جن کی اتباع کرنے والے بادشاہ ہوں یا رعایا سبھی راہِ ہدایت پر گامزن ہوجاتے ہیں ۔ آپ کی اطاعتِ الہی ،اتباعِ رسول،زہد وتقوی، اخلاق حسنہ، رعایا کی نگہبانی، یتیموں پر شفقت ،غمزدوں کی غم گساری،غریبوں پر رحم،ناداروں کی دلجوئی،بے سہاروں کے ساتھ ہمدردی،عاجزی وانکساری،احساسِ ذمہ داری،بیت المال سے حق دار کی خیر خواہی،یادِ آخرت وغیرہ تمام ہی صفاتِ عالیہ قابل تقلید ہیں ۔اس مضمون میں آپ کی بے مثال شخصیت کا مختصر سا تعارف پیش کرنے کی سعی کی گئی ہے۔

آپ کا نام مبارک عمر ہے،دورجاہلیت اور اسلام دونوں میں آپ کا نام عمر ہی رہا ،عمر کا معنی ہے آباد کرنے یا آباد رکھنے والا۔چونکہ آپ کے سبب اسلام کو آباد ہونا تھا لہذا پہلے ہی سے یہ نام عطا کردیا گیا نیزآپ کا عہد خلافت چونکہ اِسلام کی آبادی کا زمانہ ہے اس لحاظ سے بھی آپ اسم بامسمی ہوئے۔

آپ کا لقب فاروق ہے۔اس لقب کے حوالے سے حضرت علی المرتضی کرم اﷲ تعالی وجہہ الکریم سے عرض کی گئی کہ :ہمیں حضرت عمربن خطاب رضی اﷲ عنہ کے متعلق کچھ بتائیے تو ارشاد فرمایا:
حضرت عمر وہ ہستی ہیں جنہیں اﷲ عزوجل نے لقبفاروق عطا فرمایا کیونکہ آپ نے حق کو باطل سے جدا کردکھایا۔(تاریخ ابن عساکر)

حضرت عائشہ صدیقہ طیبہ طاہرہ رضی اﷲ عنہا سے عرض کی گئی :حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو فاروق کا لقب کس نے دیا؟
انھوں نے ارشادفرمایا:حضورنبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے دیا۔(اسد الغابہ)

ایک روایت میں ہے کہ حضرت جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا:زمین میں ان کا نام عمر اور آسمانوں میں فاروق ہے۔ (ریاض النضر ہ)

آپ کی کنیت ابو حفص ہے ،جس کی نسبت آپ کی صاحب زادی حضرت سیدہ حفصہ رضی اﷲ عنھاکی طرف ہے ،جوام المؤمین بھی ہیں۔آپ کالقب وکنیت دونوں محمد صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کے عطا کردہ ہیں۔ سب سے پہلے امیرالمؤمنین کالقب بھی حضرت سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کودیاگیا،اس کاپس منظریہ بیان کیاجاتاہے کہ ایک بار حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کو تو خلیفہ رسول اﷲ کہاجاتا تھا جبکہ مجھے یہ نہیں کہاجاسکتا کیونکہ میں حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کا خلیفہ ہوں اوراگر یہ کہا جائے خلیفہ خلیفہ رسول اﷲ تو بات لمبی ہوجائے گی۔اس وقت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اﷲ عنہ نے کہا : آپ ہمارے امیر ہیں اور ہم مومنین ہیں تو آپ ہوئے امیر المومنین۔آپ نے فرمایا:یہ ٹھیک ہے۔(الاستیعاب)
آپ رضی اﷲ عنہ کا نسب نویں پشت میں رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی نویں پشت میں کعب کے دو بیٹے ہیں مرہ اور عدی۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم مرہ کی اولاد میں سے ہیں، جبکہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ عدی کی اولاد میں سے ہیں۔

آپ رضی اﷲ تعالی عنہ مکہ میں پید ا ہوئے اور ان چند لوگوں میں سے تھے جو لکھ پڑھ سکتے تہے۔ جب حضور اکرم صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم نے لوگوں کو اسلام کی دعوت دی تو حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی سخت مخالفت کی۔ آپ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کی دعا سے حضرت عمر رضی اﷲ تعالی عنہ نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لے آپ کو مراد رسول بھی کہا جاتا ہے۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم نے اﷲ تعالی سے دعا فرمائی تھی :
اے اﷲ ! ابوجہل اور عمر بن خطاب میں سے جو آپ کو زیادہ محبوب ہو اس کے ذریعے اسلام کو غلبہ عطا فرما۔حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہ یہ روایت بیان کر کے آگے کہتے ہیں :اور آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو دونوں میں سے عمر رضی اﷲ عنہ زیادہ محبوب تھے۔(سنن ترمذی)

حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :عمر رضی اﷲ عنہ نے جب سے اسلام قبول کیا تب سے ہماری طاقت و قوت میں اضافہ ہوتا گیا(صحیح بخاری )

ہجرت کے موقعے پر کفار مکہ کے شر سے بچنے کے لیے سب نے خاموشی سے ہجرت کی ،مگر آپ کی غیرت ایمانی نے چھپ کر ہجرت کرنا گوارانہیں کیا۔آپ نے تلوار ہاتھ میں لی کعبہ کا طواف کیا اور کفار کے مجمع کو مخاطب کر کے کہا:’’ تم میں سے اگر کوئی شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کی بیوی بیوہ ہوجائے اس کے بچے یتیم ہوجائیں تو وہ مکہ سے باہر آکر میرا راستہ روک کر دیکھ لے‘‘مگر کسی کافر کی ہمت نہ پڑی کہ آپ کا راستہ روک سکتا۔

سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ دین میں اس قدر پختہ تھے کہ انسان کا سب سے بڑا دشمن شیطان بھی ان کے مقابلے میں آنے سے کتراتا تھا۔اسی حقیقت کے متعلق نبی مکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی گواہی ہے :اے ابن خطاب ! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! جب کبھی شیطان کا سرِ راہ تم سے سامنا ہوتا ہے تو وہ تمھارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چل دیتا ہے۔(صحیح بخاری)

یہ بات بھی بہت مشہور ہے کہ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ جو موقف اختیار کرتے تھے تو اس کی تائید میں قرآن مجید نازل ہو جاتا تھا۔جیسا کہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے:
مقام ابراہیم کو مستقل جائے نماز بنانے کی رائے،امہات المومنین کو حجاب کا حکم دینے کی رائے،بدر کے قیدیوں سے متعلق رائے کے ذریعے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اپنے رب سے موافقت کی تھی۔(صحیح مسلم)
قرآن کریم میں بہت سی آیات طیبہ ہیں جو حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے بارے میں نازل ہوئیں اورآپ کی شان وعظمت پر دلالت کرتی ہیں ۔
(1)آپ نے جب اسلام قبول کیا اور اہل حق کی تعداد چالیس ہوگئی تو سورہ انفال کی آیت نازل ہوئی۔(معجم کبیر)
ازواجِ مطہرات کے متعلق طلاق کی غلط خبر مشہور ہوئی تو آپ نے بارگاہِ رسالت میں رجوع کیا او ر حقیقتِ حال دریافت کرکے مسجد نبوی میں اس کااعلان کردیا تو سور نسا کی آیت نمبرنازل ہوئی۔(مسلم)
(3)سور ہ تحریم کی آیت نمبر میں آپ کو صالح المومنین یعنی’’ نیک ایمان والے ‘‘کہا گیا۔ (درمنثور)
(4)ایک کافر نے آپ کے ساتھ بیہودگی کی تو سور بنی اسرائیل کی آیت نمبر میں آپ کو صبر ومعاف فرمانے کی تلقین کی گئی۔ (خازن)
(5)اسی طرح ایک دوسرے موقع پرسور جاثیہ کی آیت نمبرمیں بھی آپ کو درگزرکرنے کا حکم ہوا۔(الکشف والبیان)
(6)سور ہ سجدہ کی آیت نمبر میں آپ کے ایمان کو بیان کیا گیا۔(زادالمسیر)
(7)جنگ بدر میں آپ نے اپنے ماموں عاص بن ہشام بن مغیرہ کو قتل کیا توسور مجادلہ کی آیت نمبر میں آپ کے دشمنانِ خداورسول سے دوستی نہ کرنے کی گواہی دی گئی۔ 8))سورہ ال عمران کی آیت نمبر میں آپ کے مشیر رسول ہونے کا بیان ہے۔(درمنثور)
(9) آپ نے بارگاہِ رسالت میں آواز کوانتہائی پست رکھ کراس بارگاہِ عرش نشان کاانتہائی ادب کیا تو سور حجرات کی آیت نمبر نازل ہوئی اور آپ کے باطنی تقوی کو بیان کیا گیا۔)البحر المحیط(

اس کے علاوہ بھی آیات مقدسہ ہیں جو آپ کے حق میں نازل ہوئیں،تفصیل کے لیے تفاسیر کی طرف مراجعت کیجئے۔

اسی موضوع پر نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم گواہی دیتے ہوئے فرماتے ہیں:بیشک اﷲ تعالی نے عمر( رضی اﷲ عنہ ) کی زبان اور ان کے دل پر حق رکھ دیا ہے۔( ترمذی )

حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے فرزند ارجمند ابن عمر رضی اﷲ عنہ بھی کچھ ایسی ہی گواہی دیتے ہوئے کہتے ہیں:جب بھی لوگوں کو کوئی مسئلہ پیش آتا جس میں آرا مختلف ہوتیں اور عمررضی اﷲ عنہ کوئی اور رائے پیش کرتے تو قرآن کریم انہی کی رائے کی تائید میں نازل ہو جاتا۔(مسند احمد)

سیدنا ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی خلافت کے بعد سیدنا عمر رضی اﷲ عنہ کی خلافت کی طرف رسول کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کا صاف اشارہ ایک حدیث سے یوں ملتا ہے :
دوران خواب میں نے اپنے آپ کو ایسے کنویں پر پایا جس کی منڈیر نہیں تھی ، اس میں ایک ڈول تھا۔ میں نے اس کنویں سے جتنے اﷲ تعالی نے چاہے ڈول کھینچے پھر اس ڈول کو ابن قحافہ(ابوبکر رضی اﷲ عنہ )نے تھام لیا۔ انھوں نے اس کنویں سے ایک یا دو ڈول کھینچے ، ان کے کھینچنے کی کمزوری کو اﷲ معاف فرمائے ، اس کے بعد ڈول بڑے ڈول میں تبدیل ہو گیا اور اس کو ابن الخطاب( رضی اﷲ عنہ ) نے پکڑ لیا۔ میں نے انسانوں میں کوئی مضبوط طاقتور شخص نہیں دیکھا جو عمر( رضی اﷲ عنہ ) کی طرح ڈول کھینچتا ہو۔ اس نے اتنے ڈول کھینچے کہ سب لوگ جانوروں اور زمین سمیت سیراب ہو گئے۔(بخاری)

یہ حدیث سیدنا عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنہ کی خلافت کی واضح دلیل ہے کہ ابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کے بعد وہی خلیفہ راشد قرار پائیں گے۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کی خلافت وامامت پر نہ صرف صحابہ رضی اﷲ عنھم بلکہ تمام امت مسلمہ کا اجماع ہے۔

سیدنا حضرت علی المرتضی رضی اﷲ عنہ خود بھی حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کے مداح تھے۔حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں ان لوگوں میں کھڑا تھا جو عمر رضی اﷲ عنہ کے لیے اس وقت دعا کر رہے تھے جب آپ کو چارپائی پر لٹایا گیا تھا۔ اچانک میرے پیچھے سے ایک شخص نے اپنی کہنی میرے کندھوں پر رکھی اور یوں دعا کی :’’اﷲ تعالی آپ پر رحم فرمائے ، مجھے اﷲ تعالی سے امید تھی کہ وہ آپ کو آپ کے دونوں ساتھیوں کے ساتھ ہی جمع کر دے گا، کیونکہ میں اکثر و بیشتر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم سے یہ الفاظ سنا کرتا تھا "میں ، ابوبکر اور عمر تھے، میں ابوبکر اور عمر نے یوں کیا، میں ابوبکر اور عمر گئے" تو اسی لیے مجھے امید تھی کہ آپ کو اﷲ تعالی آپ کے ساتھیوں کے ساتھ ہی اکٹھا کر دے گا‘‘۔ابن عباس رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں : میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو وہ علی رضی اﷲ عنہ تھے جو یہ دعا کر رہے تھے۔(بخاری )

قرآن کریم کے مطابق تمام صحابہ کرام محبت والفت اور باہمی رحم دلی میں بے مثال تھے ۔ اسی لیے حضرت عمرفاروق اور حضرت علی رضی اﷲ عنہمابھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ شیر وشکر رہے ،غزوہ خندق کے موقع پر جب حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے مشہور جنگجوکافر عمر بن عبد ودکو جہنم رسید کیا تو حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے فرط مسرط سے ان کا سر چوم لیا۔(کشف الغمہ)

آپ اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے : الہی ! مجھے اس وقت زندہ نہ رکھناجب کوئی مشکل پیش آئے اور مشکل کشائی کے لیے حضرت علی موجود نہ ہوں۔دوسری طرف حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ الکریم کے کیا جذبات تھے ،شیعہ کتب سے ملاحظہ کیجئے:
بعد وصال جب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو کفن پہنا دیا گیا تو حضرت علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے ان کے بارے میں فرمایا:مجھے روئے زمین پر اس سے زیادہ محبوب کوئی شے نہیں کہ میں اِن جیسے اعمال لے کر بارگاہِ رب العزت میں حاضرہوں۔(تلخیص الشافی،مطبوعہ نجف اشرف)

ایک موقع پر فرمایا:حضرت ابوبکروحضرت عمر کا کردار نہایت عمدہ تھا اور ان دونوں نے اپنے دورخلافت میں امت میں عدل وانصاف قائم کیا۔(ناسخ التواریخ)

ایک بار فرمایا:اﷲ تعالی حضرت عمرؓ کے شہروں کو برکت دے۔آپ نے کجی کو درست کیا،بیماری کا علاج ،فتنہ وفساد کو پس پشت ڈالا،سنت نبوی کو قائم کیا۔وہ دنیا سے پاک دامن رخصت ہوئے۔انھوں نے خیر کو پالیااور اﷲ تعالی کی اطاعت وتقوی کا حق ادا کردیا۔(نہج البلاغہ)

تاریخ گواہ ہے کہ جس قدر فتوحات اور احکامات شرعیہ کا نفاذ آپ رضی اﷲ عنہ کے زمانۂ خلافت میں ہوا اتنا کسی اور خلیفہ کے زمانے میں نہ ہوا حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے وصالِ پرملال کے وقت اِسلامی حکومت کا کل رقبہ تقریبانو لاکھ ستائیس ہزار مربع میل تھا۔خلافتِ صدیقی میں اس رقبے میں مزید دو لاکھ پچہتر ہزار ایک سو چونسٹھ مربع میل کا اضافہ ہواور سلطنت اسلامیہ کا کل رقبہ بارہ لاکھ دو ہزار ایک سو چونسٹھ مربع میل ہوگیااور پھر خلافتِ فاروقی کی عظیم الشان فتوحات کی بدولت اس رقبہ میں تیرہ لاکھ نو ہزار پانچ سو ایک مربع میل کا اضافہ ہوااور یوں پچیس لاکھ گیارہ ہزار چھ سوپینسٹھ مربع میل زمین آپ کے زیر نگیں آگئی ۔یہ تمام علاقہ بغیرآرگنائزڈآرمی کے فتح کیا ۔ آپ کی ان فتوحات میں اس وقت کی دو سپرپاورطاقتیں رو م اورایران بھی ہیں ۔ آج سیٹلائٹ میزائل اورآبدوزوں کے دور میں دنیا کے کسی حکمراں کے پاس اتنی بڑی سلطنت نہیں ہے ۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ کے کسی ساتھی نے ان کی حکم عدولی نہیں کی، وہ ایسے عظیم مدبرومنتظم تھے کہ عین میدان جنگ میں اسلام کے مایہ ناز کمانڈرسیدناخالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کومعزول کردیا اورکسی کو یہ حکم ٹالنے اور بغاوت کرنے کی جرا ء ت نہ ہوئی ۔حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے جن علاقوں کوفتح کیا وہاں آج بھی سیدنا عمرفاروق کا نظریہ موجود ہے ،دن رات کے پانچ اوقات میں مسجد کے میناروں سے اس نظریے کا اعلان ہوتا ہے ۔ عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے دنیا کوایسے سسٹم دئیے جو آج تک دنیا میں موجود ہیں ۔آپ کے عہد میں باجماعت نماز تراویح کا باقاعدہ سلسلہ شروع ہوا،آپ کے دورمیں شراب نوشی کی سزا 80 کوڑے مقررہوئی ، سن ہجری کا اجراکیا، جیل کاتصور دیا، مؤذنوں کی تنخواہیں مقررکیں،مسجدوں میں روشنی کابندوبست کروایا،باوردی پولیس، فوج اورچھا ؤنیوں کاقیام عمل میں لایا گیا، آپ نے دنیا میں پہلی بار دودھ پیتے بچوں، معذوروں، بیواؤ ں اور بے آسرا لوگوں کے وظائف مقررکیے ۔ آپ نے دنیامیں پہلی بار حکمرانوں، گورنروں، سرکاری عہدے داروں کے اثاثے ڈکلیئر کرنے کا تصور دیا ۔ آپ جب کسی کو سرکاری عہدے پر فائز کرتے تھے تواس کے اثاثوں کا تخمینہ لگواکر اپنے پاس رکھ لیتے اوراگرعرصہ امارت کے دوران عہدے دار کے اثاثوں میں کوئی غیرمعمولی اضافہ ہوتا تواس کی تحقیق کرتے ۔ یہ وہ سسٹم ہے جس کو دنیا میں کوئی دوسرا شخص متعارف نہ کروا سکا، دنیا کے 245ممالک میں یہ نظام کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے ۔ان حقائق کی روشنی میں زبان وقلم بے اختیار گواہی دیتا ہے کہ دنیا کا سکندر اعظم عمرفاروق رضی اﷲ عنہ ہیں۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ کو حج سے واپسی کے بعد ابولؤلو نامی مجوسی ایرانی غلام ،جس کی قبرآج بھی مرجع خلائق ہے اورایرانی اسے بابافیروزکے نام سے یادکرتے ہیں،فیروزہ نامی پتھربھی اسی بدترین دشمن اسلام کی طرف منسوب ہے،نے خنجر کے پے درپے تین وار کرکے شدید زخمی کردیا۔آپ تین دن اسی حالت میں رہے مگرنماز کوئی نہ چھوڑی پھر یکم محرم الحرام کودس سال پانچ مہینے اور اکیس دن مسند خلافت پر متمکن رہنے کے بعد63برس کی عمر میں آپ شہید ہوگئے ۔آپ اکثر یہ دعا فرمایاکرتے تھے: اﷲم ارزقنِی شہاد فِی سبِیلِک واجعل موتِی فِی بلدِ رسولِک صلی اﷲ علیہِ وسلم ( الہی !تو مجھے اپنی راہ میں شہادت کی موت عطا فرما اور اپنے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم کے شہر مدینے میں مرنانصیب فرما۔)

آپ نے وصیت کرتے ہوئے فرمایا: جب مجھے قبر میں رکھ دو تو میرا گال زمین سے یوں ملا دینا کہ اس کے اور زمین کے درمیان کوئی چیز حائل نہ رہے ۔آپ کو بیری کے پتوں سے پانی گرم کرکے غسل دیا گیااور دوچادروں اور جو قمیص پہن رکھی تھی اس میں کفنایا گیا۔وصیت کے مطابق آپ کی نمازِ جنازہ حضرت صہیب رضی اﷲ عنہ نے چارتکبیروں کے ساتھ پڑھائی اوریکم محرم الحرام کوروض رسول میں دفن ہونے کی سعادت پائی(اسد الغابہ،طبقات کبریٰ)

ہر ذی روح کو پیام اجل کو لبیک کہنا ہے اورہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھناہے ویسے تو دنیا سے لاکھوں لوگ رخصت ہوئے، حضرت عمرفاروق رضی اﷲ عنہ نے دنیا سے پردہ فرمایا تو کیا سماں تھا ؟صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے تاثرات کیا تھے؟ملاحظہ کیجئے:
آپ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو مہاجرین وانصار نے کہا:اﷲ تعالیٰ ہماری عمریں بھی آپ کو لگادے۔حضرت علی المرتضی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے آپ کے چہرے سے کفن کا کپڑا ہٹا کر کہا:اﷲ تعالی آپ رحم فرمائے ،حضورنبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد آپ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہیں۔حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں:اﷲ کی قسم !میرے گمان میں خاردار درخت بھی آپ کے وصال پر غمزدہ ہیں(طبقات کبریٰ)
 

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 307950 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More