سوکھی روٹی کے ٹکڑے کھانے وا لا بڑا شخص

اسلام آباد کی گرم شاموں میں اب سردی اتر رہی ہے سیاسی موسم بھی بتدریج ٹھنڈا ہو رہا ہے۔ این اے 122 کے معرکے کے بعد سیاسی گرمی اب جاتی دکھائی دے رہی ہے۔ اس بدلتے موسم میں بھی بابائے خود مختار کشمیر جناب امان اﷲ خان کا سیاسی عزم سرد نہیں ہو سکا۔ نظریہ خود مختار کشمیر کے لیے نصف صدی کی جدوجہد کو امان اللہ خان نے " جہد مسلسل" میں بیان کر دیا ہے ۔ بدلتے موسم کی ایک شام جناب امان اﷲ خان مہمان خاص بن کر ہمارے درمیان موجود تھے ۔ جناب رفیق ڈار انہیں سہارا دے کر لے آئے تھے۔ پیرانہ سالی کی وجہ سے چلنے پھرنے اور بولنے سے قاصر امان اﷲ خان کا اپنی قوم اور اپنے نظریے کے لیے اب بھی جذبہ توانا اور مضبوط ہے۔خود مختار کشمیر کی حامی تنظیم جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے سرخیل جناب امان اللہ خان ہی ہیں ۔ نظریہ خودمختار کشمیر کی آبیاری کے لیے امان اللہ خان کی نصف صدی کی جدوجہد عزم و ہمت کی بے مثال کہانی ہے ۔ ایک ماہ قبل ہی جناب امان اللہ خان نے تنازعہ کشمیر کے حل کے لیے اپنے فارمولے کو پھر سے دھرایا تھا ، پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم سمیت اہم شخصیات کے نام خط میں منقسم ریاست جموں و کشمیر کودوبارہ متحد کرکے ایک خودمختار مملکت بنانے کی تجویز دی تھی ۔ ان کی تجویز ہے کہ دوسرے مرحلے میں پندرہ سال بعد اقوام متحدہ کے زیر نگرانی ایک آزادنہ اور شفاف استصواب رائے کروایا جائے جس میں کشمیری عوام یہ فیصلہ کریں کہ آیا وہ آزاد و خودمختار رہنا چاہتے ہیں ، ہندوستان یا پاکستان کا حصہ بننا چاہتے ہیں یا وہ یہ چاہتے ہیں کہ مسلے کا کوئی اور حل نکالا جائے۔ ان کا دعوی ہے کہ کشمیر کے مسلے کا واحد حل خود مختار کشمیر ہی ہے اور ان کا پیش کیا گیا فارمولہ ہی کشمیر کے تنازعے کا مستقل،قابل عمل، منصفانہ اور آبرومندانہ حل فراہم کرتا ہے۔ بوڑھے مگر جوان جذبوں کی علامت سمجھے جانے والے امان اﷲ خان15 اکتوبر 2015 کی شام نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے آڈیٹوریم میں ایک منفرد تقریب کے مہمان خاص تھے ۔آزاد کشمیر کے وزیر اطلاعات جناب عابد حسین عابد بھی مظفر اباد سے بطور خاص اس محفل میں شرکت کے لیے آئے تھے ۔ آزاد کشمیر کے اخبار روزنامہ صدائے چنار نے اپنی سالگرہ تقریب میں جناب امان اﷲ خان کو مدعو کیا تھا۔ ادارہ صدائے چنار اب سات سال کا ہو گیا ہے ۔ آزاد اور غیر جانبدار ابلاغی ادارے انفرادی حقوق اور آزادیوں کے نگران ہوتے ہیں ۔دوسروں کے حقوق اور شہرت کا تحفظ کرتے ہیں، ملکی سلامتی کو مقدم رکھتے ہیں ،عوامی نظم و نسق اور اخلاقیات پر توجہ دیتے ہیں ۔ یہ نہیں ہوتا کہ کوئی کسی کی شہرت خراب کرنے کا اعلان کر دے ۔ یہ بھی نہیں ہوتا کہ اچھے ادارے معاشرتی مسائل ، معاشرتی بیماریوں پر انکھیں بند کر لیں بلکہ وہ ان پر نظر رکھتے ہیں اور اس بارے حکومت کے اراکین کو عوام کے سامنے جواب دہ بناتے ہیں ۔ بد قسمتی سے ا یسے مثالی ادارے قائم کرنا ، انہیں چلانا، اب ممکن نہیں رہا ۔ اس لیے ہمارے معاشرے میں ایسی مثالیں نہیں ملتیں۔ اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کرنے والوں کے علاوہ معاشرے کا ہر شخص اداروں سے شاکی ہے۔ صدائے چنار کسی بڑے ابلاغی ادارے کا نام نہیں جہاں لاکھوں روپے ماہوار تنخواہ لینے والے کام کرتے ہیں بلکہ یہ ایک چھوٹے سائز کا متوازن اور اچھی پالیسی کا حامل بڑا اخبار ہے ۔ ان سات سالوں میں اس ادارے نے غیر جانبداری اور اخلاقیات کے اصول کو آگے بڑھایا۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ ترقی کے لیے مروجہ ناجائز ہتھکنڈے ہی استعمال کیے جائیں، متعین کردہ اصولوں اور پالیسی پر عملدرآمد کرنا،ادب و احترام کیساتھ اپنی ساکھ بنانا بھی تو ترقی ہی ہے ۔ یہی ساکھ صدائے چنار کی کامیابی ہے۔ صدائے چنار کے سربراہ جناب امجد چوہدری صرف اخباری مالک ہی نہیں مذہبی،سماجی کارکن بھی ہیں۔آزاد کشمیر بھر کے صحافیوں کے سرکاری ادارے پریس فائونڈیشن کے وائس چیئرمین بھی ہیں۔ اس ادارے کے ذریعے وہ آزاد کشمیر بھر کے صحافیوں کے مسائل حل کر تے نظر آتے ہیں۔ جناب امجد چوہدری ہر سال مجھے فون کرکے سالانہ تقریب میں مدعو کر نا نہیں بھولتے ۔ اپنے دوستوں اور احباب کو بھی بلاتے ہیں ۔ ان کی اس دعوت کی خاص بات یہ ہے کہ وہ تقریریں سنواتے ہیں اور نہ اپنی مجلس کو سیاسی اجتماع بناتے ہیں ۔ صدائے چنار کی ساتویں سالگرہ کی تقریب میں کوئی مہمان خصوصی،کوئی مقرر خاص نہ تھا لمبی اور تھکا دینے والی تقریریں ہوئیں اور نہ سیاسی کارکنوں کی مارا ماری نظر آئی جو وہ ہر تقریب میں اپنے مخالفین کے لیے تیار رکھتے ہیں۔ اس دفعہ تقریب میں جناب امان اللہ خان کو بطور خاص بلا کر انہیں عزت واحترام دیا گیا۔ ان کی کشمیر کاز کے لیے نصف صدی کی جدوجہد کا اعتراف کیا گیا۔امان اللہ خان کی اپنے نظریے کے لیے بے مثال جدوجہد ہے۔ ان کے نظریاتی مخالفین بھی ان کی جہد مسلسل کو تسلیم کرتے ہیں۔ راولپنڈی میں قیام کے باعث اسلام آباد راولپنڈی میں کشمیریوں کی ہر اہم تقریب میں انہیں رونق بننے پر مجبور کیا جاتا ہے نظریہ الحاق پاکستان کی سیاست کرنے والے بھی امان اللہ کواپنے بیچ دیکھ کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ بدلتے موسم کی خوشی میں،، امان اللہ خان کو دیکھ کر میری خوشی میں بھی اضافہ ہوگیا تھا ۔ان کے نظریات کچھ بھی ہوں ،ان کی جدوجہد اور سچائی ہر ایک پر آشکار ہے ۔ آج کی دنیا میں کشمیر کاز ایک کاروبار ہے ۔ اس کاروبار سے جڑے لوگ بڑی کوٹھیوں اور بڑی گاڑیوں کے ما لک ہیں مگر امان اللہ اس بڑھاپے میں بھی راولپنڈی میں کرائے کے مکان میں ر ہتے ہیں ۔ جناب بشیر عثمانی بتاتے ہیں ایک صبح میں ان سے ملنے گیا تو دیکھا سوکھی روٹی کے ٹکڑے چائے میں بھگو کر کھا رہے تھے ۔سوکھی روٹی کے ٹکڑے ہی ان ناشتہ ہوتا ہے ۔ سوکھی روٹی سے ناشتہ کرنے والے کے ساتھ چند لمحے گزار کر مجھے سکون ملا کہ آج کے دور میں بھی اتنی سادہ زندگی والے پرعزم لوگ ہماری رہنمائی کے لیے موجود ہیں ۔ سکون کے ان چند لمحوں کے لیے میں جناب امجد چوہدری کا شکرگزار ہوں۔اداروں کی پالیسیاں ان کے مالکان بناتے ہیں وسائل بھی مہیا کرتے ہیں، تاہم ادارے چلانے والے کارکن ہوتے ہیں۔ ہماری یہ روایت ہے کہ اداروں کی تقریبات میں کارکن غائب ہوتے ہیں ،سیاسی مہمان چھائے ہوتے ہیں۔ جن کی محنت لگن اور جدوجہد سے ادارے چلتے ہیں وہ نظر انداز کر دیئے جاتے ہیں مگر اس تقریب میں کارکن چھائے ہوئے نظر آئے۔ جناب اعجاز عباسی نے جناب طاہر مسعود کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنایا کہ ادارے نے کام اور کارکردگی کی بنیاد پر کارکنوں کی حوصلہ افزائی کی ہے۔ ان کو ترقی دی ہے طاہر مسعود ڈپٹی ایڈیٹر بننے کی مبارکبادیں وصول کر رہے تھے۔ساجد چوہدری،شاہد راٹھور اور شمریز خان مہمانوں کی تواضح میں لگے ہوئے تھے ۔ ماجد افسر ، سجاد اعوان، وقار عباسی ، عامر خان بھی ادارے کے سٹار ہیں۔ راجہ افسر خاں نے بھی ادارے کے لیے خدمات سر انجام دی ہیں ۔ کارکنوں اور مہمانوں کے گلدستے میں سجی یہ منفرد قسم کی تقریب تھی،تقریب سادہ ضرور تھی مگر اس کے اندر انفرادیت اور وقارتھا۔ کارکنوں کی محنت کا اعتراف بھی تھا۔
Sardar Ashiq Hussain
About the Author: Sardar Ashiq Hussain Read More Articles by Sardar Ashiq Hussain: 58 Articles with 51070 views
The writer is a Journalist based in Islamabad. Email : [email protected]
سردار عاشق حسین اسلام آباد میں مقیم صحافی ہیں..
.. View More