بہار کے انتخابات نے کئی سیاسی
نظریات کی نہ صرف قلعی کھول دی ہے بلکہ کئی کو ہمیشہ کے لئے دفن ہونے پر
مجبور کر دیا ہے ۔اس انتخاب سے لیفٹسٹ تقریباّ غائب ہیں ۔ کہاں ہیں انکے
لیڈر اور کیڈر ؟62 فیصد یادو 44فیصد مسلمان کے دم پر MY نظریہ کے حامی
مسلمان تو اب بھی اپنی جگہ کھڑے دکھنے کی تگ ودو میں مصروف ہیں مگر کہاں
گئے یادو؟اعلی ذات ہندو اور مسلمان اور دلتوں کی پسند کانگریس خاندانی ووٹر
کہاں اور کیوں بھٹک گئے ہیں؟
ان سب کے کیڈر نے اپنی اپنی ڈور کو تھام لیا ہے مگر صرف مسلمان ہی ہیں جنکو
اپنی شناخت کے ساتھ سیاست میں قدم جمانے کی کوششوں کی مسلسل مخالفت ہو رہی
ہے اور ووٹروں کی پُر زور حوصلہ شکنی کی جا رہی ہے ،خوف دلا کر ،منفی
پروپیگنڈہ کر کے مسلمانوں کو خالصتاّ اپنی لیڈر شپ کی رہنمائی سے محروم
کرنے میں بھارت کی تمام نامی گرامی پارٹیاں باہم ایک ہی ایجنڈے پر کام کر
رہی ہیں۔۔مسلمان سیاست میں طاقتور متبادل یا پاور بارگینر(power bargainer)
نہ بن سکیں۔
کتنی عجیب بات ہے 80کی دہائی میں صرف دو لوگ اٹل بہاری باجپئی اور لال کرشن
اڈوانی BJPکے پرچم بردار تھے اور انلوگوں نے خالصتّا ہندو مذہب کی چھتری کے
نیچے سیاست کی مذہب کو ہتھیار بنایا ملک کے باہم شیر و شکر سماج کو فرقہ
وارانہ بنیادوں پر تقسیم کیا اور دیش بھکت کہلائے آج 282 سیٹوں کے ساتھ
ناقابل تسخیر زعم میں مبتلا اس پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں کو دیکھئے ان
میں آپکو وہی کانگریسیے وہی یادو وہی برہمن وہی دلت چہرے کثیر تعداد میں
دکھ جائیں گے جو کل تک سیکولر ی کا کاسہء گدائی لئے آپ کے مسیحا بنے پھر
رہے تھے ۔یہ وہی لوگ ہیں جو آپ کو بیوقوف بنا کر اپنی سیڑھیاں طئے کر رہے
تھے ۔یہی لوگ طئے کریں گے کہ مسلمان ہوکر مسلمان کا ساتھ دینا کمیونل ہونا
کہلاتا ہے؟چاہے وہ آسام کے بدرالدین اجمل ہوں یا حیدرآباد کے اویسی اسکی
کیا گارنٹی ہے کہ جب بھی کوئی مسلم قیادت اُبھرے گی اس پر الزام نہیں لگائے
جائیں گے؟ بات وہی ہو گئی تم کرو تو ڈسکو ہم کریں تو مجرہ؟
رام بلاس پاسوان نے گجرات فساد کے احتجاج میں وزارت سے استعفیٰ دیا اور
ہیرو بن گئے نتیش کمار ریلوے کے وزیر تھے انکا قد بڑھ رہا تھا اور اتنا
بڑھا کہ بی جے پی کو بہار کے اقتدار کا مزہ بہم پہنچایا۔بہار کے گلی کوچوں
میں آر ایس ایس کی شاکھا کھلوانے اور شراب کو ہر غریب کی دسترس تک پہنچانے
کا سہرا بھی انہی کے سر ہے۔چراغ پاسوان اور انکے چچا نے اس گُر کی گانٹھ
باندھ لی اور 2014میں ہیرو صاحب بھی امت شاہ کی انگلی پکڑ کر بھاگوت کی گود
میں بیٹھ گئے اس سے یہی ثابت ہوا کہ وہ استعفی حبّ علی نہیں بغض معاویہ
تھا۔جس نظرئے کے خلاف ان لوگوں نے سیاست میں اپنا الّو سیدھا کیا اسی نظریے
کے حامی بن کر وزیر اعلی کی کرسی کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔کانگریس کے ریاستی
صدر محبوب علی قیصر انکا جھولا اٹھا ئے پھر رہے ہیں ۔رام کرپال یادو آج دُم
دبائے نند کشور یادو کے پچھلگو ا بن کر فخر محسوس کر رہے ہیں ۔شاہنواز حسین
،مختار نقوی ،نجمہ ہپتاﷲ ایم جے اکبر ،ظفر شریش والا اور اندریش کمار کی
قیادت میں چلنے والے مسلم راشٹریہ منچ کے مسلمان پرچم دھاری ۔
بات اگر مختلف پارٹیوں میں مسلمان سیاستدانوں کی کریں تو آپ کو سب کے سب
بنا ریڑھ والے سانپ جیسے نظر آیئں گے ۔انکی اوقات نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں
کے قتل عام یا ان پر مغلّضات کی کیچڑ اُچھالنے والے
توگڑیوں،سنگھلوں،سادھویوں،ساکشیوں آدتیوں،رام دیووں ، شو سینکوں،بجرنگیوں
اور ان جیسے بھیڑیوں کے خلاف ایک لفظ بھی کہہیں انکو کیا بولنا ہے یہ بھی
ناگ پور میں طے ہوتا ہے۔انکی اوقات نہیں کے یہ مل کر پارلیامنٹ میں التوا
میں پڑے انسداد فرقہ وارنہ بل کو پاس کروانے کے لئے کوئی آواز بلند کریں یہ
سب کے سب گونگے بہرے بن کر اپنے قصر تعمیر کرنے میں لگے ہیں اور پارٹی
لائین سے بندھے رہنے کی دہائی دیتے ہیں ۔اگر یہ سیا ستدان مخلص ہوتے تو
پارٹی میں رہ کر ہی اپنی بات رکھتے مگر جن کو امّت سے زیادہ اپنی اور اپنے
خاندان کی فکر ہو ان سے کیا شکایت کریں ۔
دراصل 68سال سے ایک مفروضے کی آبیاری کی ہے کانگریس نے ـ"مسلمانوں سے
ہمدردی مطلب ہندووں سے غدّاریـ" اس ایک جملے نے ہندو مہا سبھا کو مسلم لیگ
کے مدّمقابل کھڑا کیا اور برہمو سماج نے اسکو ایسی ہوا دی جسنے آزادی کے
فوراً بعد مہاتما گاندھی کی جان لے لی اور ان آوازوں کی ہمیشہ حوصلہ شکنی
کی جو مسلمانوں کی ہمدرد ی میں بلند ہوئیں ہمیشہ کانگریس نے خود کو سامنے
رکھ کر درپردہ بی جے پی کو طاقت دی ۔ملک آزاد ہوا تواسکی شکل 1000سال پہلے
والے جن پد کی سی نہ ہو جائے ہندو راشٹر اعلان کرنے سے پرہیز کیا اور ایک
ایسی ڈیموکریسی کی بنیاد رکھی جہاں ایک اپوزیشن تو ہو مگر ہمنوا بھی
ہو۔نقاب لگا کر ملک کے مسلمانوں کا اسطرح سے استحصال کیا کہ انکو پتہ ہی
نہیں چلا کہ وہ سیاسی طور پر اتنے کمزور کئے جا چکے ہیں کہ خود اپنے سائے
سے ڈرنے لگے ہیں ۔آبادی کے تناسب سے کم سے کم 57ممبر پارلیامنٹ ہونے چاہیے
مگر 20-21ہی رہ گئے ہیں اور اس تعداد کے کم سے کم ہونے کے تمام دروازے اور
کھڑکیاں کھلی ہیں۔
تمام مقبول عام پارٹیوں میں مسلمانوں کے ہمدرد اور مسلم ووٹوں کے دم پر جیت
کر آنے والے ممبران اسمبلی اور ممبر پارلیامنٹ کی تعداد اچھی خاصی ہے ۔مگر
مسلمانوں سے متعلق کوئی معاملہ ہو تو انکی دُم کٹ کر چھپکلی کی طرح الگ کٹ
کر تڑپتی تو ہے مگر دھڑ بچا لے جا تی ہے،ورنہ کسی فساد کے مجرم کی مجال تھی
کہ وہ صاف بچ نکلتا ۔
جب ساری ذاتوں نے اپنے اپنے دیوتا منتخب کر کے انکے پیچھے چلنا شروع کر دیا
ہے حتیٰ کے جیتن رام بھی اب ایک مہا دلت قوم کو قیادت دے کر بی جے پی جیسی
کٹر ہندووادی پارٹی سے اپنے ٹرم پر گٹھبندھں کر کے خم ٹھوک رہے ہیں تو ہم
کس کربلا کا انتظار کر رہے ہیں ؟ کس طرح سے مسلمانوں کے مہنہ میں سیکیولرزم
کا چھچھوندر پھنسا دیا گیا ہے کہ نگلے تو اندھا اُگلے تو کوڑھی۔
جو لوگ آج اپنے نظرئیے کو درکنار کرکے ہندو کٹر واد کے ساتھ کھڑے ہیں ان سے
آپ کو کس بات کی توقع ہے؟وہ سب کے سب ہندو ہندو بھائی بھائی کی لالی پاپ
لئے مگن ہیں اور آپ اشرافیہ اور ارزالیہ ۔۔۔دیوندی بریلوی شیعہ سنی
۔۔۔۔کالا گورا ۔۔۔عربی عجمی کی گردان میں الجھے ہیں۔
کچھ کمیونسٹ پارٹی کے کیڈر جو شدت پسند گروپ کے ایریا کمانڈر تھے آج
بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک عام کارکن ہیں اور پارٹی کے اصولوں پر چلنے کا
کام بھی کر رہے ہیں۔
جیب پر سفید کمل کے پھول کا نشان. ٹھیک اسی طرح لگا کر گھوم رہے ہیں جس طرح
وزیر اعظم اور بی جے پی کے بڑے لیڈر لگاتے ہیں۔
بہار کے لینن گراڈ کے نام سے شناخت بنانے والے بیگو سرائے میں یہ پود آپ کو
بآسانی دکھ جائے گی۔
بائیں سے دائیں کے ان کا سفر بھی بڑا حیران کرنے والا ہے۔ انکے خیالات کی
اس طوفانی تبدیلی کی وجہ ؟
بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کے لوگوں اور رہنماؤں کا رویہ؟ وہ کہتے ہیں انھیں
کیا صلہ ملا؟ سی پی آئی کے کیڈروں اور رہنماؤں نے انکے ساتھ اچھا سلوک نہیں
کیا،انہیں پتہ تھا کہ م وہ ماؤنواز ہیں۔مگر تھے تو بائیں نظریات کا حامل۔
ان لوگوں نے انکے خاندان، بیوی، بچوں کو تنگ کرنا شروع کر دیا۔پولیس کی
مخبری کرنے لگے. بہت پریشان کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ انہیں واپس ایک عام زندگی گزارنے میں بی جے پی اور آر ایس
ایس کے لوگوں نے مدد کی، اسی لئے وہ سنگھ کے نظریات سے متاثر ہوئے۔
بیگو سرائے بھارت کی کمیونسٹ پارٹی کا گڑھ رہا ہے اور ا یک وقت ایسا بھی
تھا جب یہاں کی تمام سات اسمبلی سیٹوں پر اسی پارٹی کا قبضہ رہا۔مگر گزشتہ
الیکشن میں میں سی پی آئی نے صرف ایک ہی نشست جیتی تھی۔ یعنی سرمایہ داری
کااس قدر غلبہ ہو گیا ہے انکے نوجوان اسی نظریے کی طرف متوجہ ہونے لگے ہیں
جہاں انکا فائدہ ہو۔یہی وجہ ہے کہ بیگوسرائے، اور خاص طور پربیہٹ میں بھی
کہا جانے لگا ہے کہ اب ان کے نظریات ردّ ہونے کے دہانے پر ہیں۔ لوگ اس بات
کو مان رہے ہیں کہ بائیں نظریات سے جڑنے کا مطلب ہے مزدوروں اور مظلوم کی
لڑائی لڑنا اور وہ بھی اپنی جیب سے، بھوکے رہ کر۔
وہ کہتے ہیں،آج کا نوجوان جن چیزوں کی طرف متوجہ ہو رہا ہے وہ سب ہم دے
نہیں سکتے ،ان کا کہنا ہے کہ جس طرح کے خواب دکھا کر 'سرمایہ دارانہ'
پارٹیاں نوجوانوں کو اپنی طرف متوجہ کرنا چاہ رہی ہیں، ان کی حقیقت جلد ہی
سامنے آ جائے گی اور ایک بار پھر وہ لوٹ آئیں گے۔ ہمارے نوجوانوں کے بیچ
بھی MRM مسلم راشٹریہ منچ آر ایس ایس کے زیر انتظام ڈاکٹر اندریش کمار کی
سربراہی میں سرگرم ہے ۔ دادری میں محمد اخلاق کو ایک جنونی بھیڑ نے پتھروں
سے کوٹ کوٹ کر مار ڈالا اور دانش کو ادھ مرا کر دیا تو چھتّیس گڈھ کے رائے
پور میں سرگرم MRM کے ریاستی صدر ڈاکٹر حنیف چودھری نے مارے شرم کے خود کشی
کر لی لوگوں نے انکو کافر کہہ کر پکارا ۔ جن کی وجہ سے یہ دونوں واقعات
ہوئے یہ وہی لوگ تو تھے جنہوں نے ساتھ بیٹھ کر بقرعید پر انکے گھر دعوت
اڑائی تھی اور برسوں سے ساتھ عید بھی منائی اور دیوالی بھی ۔مگر کیا ہم کہہ
سکتے ہیں کے جانے والے لوٹ آئیں گے؟
شاید نہیں کیونکہ ہم کردار ،گفتار اور دستار دوسروں کے ہاتھوں رہن رکھ کر
سر بچا لے جانے پر خوش ہیں ۔ کب تک رہیں گے آج تو سر پہ بھی بن آئی ہے۔ ایک
کربلا سامنے ہے ۔ صدائے بزگشت ہے ۔۔۔ھل من ناصر ینصرنا ۔۔ھل من ناصر
ینصرنا۔
|