انسان نہیں، انسانیت کا قتل
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
ہندوستان؛ جس کی تہذیب پر فخر
کیا جاتا تھا، آج اسے فرقہ پرستوں نے دہشت گردی کی ایسی بھٹی میں جھونک
دیا کہ اس کی اصل صورت اس طور مسخ ہو گئی کہ اس کی شناخت کرنا بھی مشکل ہو
گیا ہے۔ اقتصادی بحران، مہنگائی، بے روزگاری اور سماج میں پَنپ رہے جرائم
جیسے ان گِنت مسائل سے ملک کے عوام کو الگ رکھنے کے لیے یہ حکمتِ عملی
اپنائی گئی ہے کہ موقع بہ موقع ایسے اندوہ ناک حادثات انجام دیے جاتے رہیں،
جس میں الجھ کر عوام اصل مسائل پر توجہ ہی مرکوز نہ کر سکے اور ان فرقہ
پرستوں نے ملک کو برباد کرنے کا جو منصوبہ بنایا ہے، وہ اس میں کامیاب ہو
جائیں، یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہے۔صدیوں پرانا بھائی چارہ ، اپنا پن اور
پیار و محبت، سب ہی کچھ بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے۔بابری سے دادری تک جو
کچھ زخم دیے جا رہے ہیں ایسا نہیں کہ ہم اس کا مطلب نہیں سمجھتے۔ گذشتہ سال
مظفر نگر میں جو کچھ ہوا، وہ بھی ایک ایسا واقعہ تھا کہ وہاں کے باسیوں نے
اس سے پہلے ایسا کوئی حادثہ اپنی نگاہوں سے نہیں دیکھا تھا اور اس گاؤں کے
بڑے بوڑھوں نے اپنی پوری زندگی میں ہندو مسلم میں ایسی منافرت کبھی نہ
دیکھی تھی اور اب یہ دادری سانحہ بھی ایسا ہی ہے، جس کے متعلق وہاں کے بڑے
بزرگوں کا ایسا ہی کہناہے، دراصل مذہبی منافرت کو یوں ہوا دینا ہی تو ان
فرقہ پرستوں کا مقصد ہے اور وہ اس میں ایک حد تک کامیاب بھی ہو گئے ہیں۔ ہم
نے اپنی مختصر سی زندگی کے جو چند مدارج طے کیے ہیں، اس میں اس سے قبل کبھی
یوں وطنِ عزیز میں رہنے والے لوگوں کو یوں آپس میں خون کا پیاسا نہیں
دیکھا کہ کسی جانورے کے خون کی افواہ پر کسی انسان کے خون کو اتنا سستا
سمجھا گیا ہو۔یہ محض ایک انسان کا نہیں بلکہ انسانیت کا قتل ہے اوراخلاق کا
نہیں اخلاقِ انسانیت کا قتل ہے، جس پر کسی بھی امن پسند انسان کا خاموش
بیٹھے رہنا تعجب خیز ہے۔ جو لوگ پیڑ پودوں اور جانوروں کے حقوق کے لیے
سڑکوں پر اتر آتے ہیں، اس وقت سب کے سب خاموش کیوں ہیں؟ ہمیں سمجھ میں
نہیں آتا۔ کیوں جمہوری نظام کے تحت ایسا لائحۂ عمل تجویز نہیں دیا جاتا،
جس سے ان حادثات کی روک تھام ہو؟
28ستمبر کو اترپردیش میں دادری کے بسیہڑہ علاقے میں گائے کے گوشت کی
موجودگی کی افواہ پھیلنے کے بعد ایک ہجوم کے ہاتھوں محمد اخلاق نامی ایک
شخص کو پیٹ پیٹ کر مار ڈالا گیا، جس پر چو طرفہ شور بھی مچا لیکن اب تک
ایسی کوئی تجویز سامنے نہیں آئی ، جس سے مستقبل میں ایسے اندوہ ناک حادثات
کا قلع قمع ہو سکے، اس بہیمانہ قتل پر ایسی سرد مہری اور سَستی سیاست دیکھ
کر تو شیطان بھی آدھا رہ گیا لیکن انسانوں کی آنکھ میں شرم کا پانی نظر
نہیں آیا۔ مسئلے کا صحیح حل تلاش کرنے کے بجائے اس واقعے کو لے کر جو
اوچھی سیاست جاری ہے، اس کے بعد کچھ لکھنے کی ہمت ہی کہاں ہے، ہم تو
’اخلاق‘ کر مرنے پر جینے والوں کے اخلاق کا ماتم بنا رہے ہیں۔ایسے میں صرف
بارگاہِ ربِ ذوالجلال میں رونے کو جی چاہتا ہے کہ ہائے ہماری شومیِ اعمال
کہ ایک شخص کو دن دہاڑے سرِ عام بے بنیاد الزام میں پیٹ پیٹ کر مار ڈالا
گیا اور اب اس کے مر جانے کے بعد بھی کرسی کی سیاست کے لیے اس کی روح کو
تکلیف پہنچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
خبروں کے مطابق واقعہ یہ ہے کہ بسیہڑا گاؤں میں رہنے والے اخلاق پر تقریبا
دو سو لوگوں کی بھیڑ نے اس وقت حملہ کر دیا،جب پاس کے ایک مندر سے عوامی
اعلان میں کہا گیا کہ اس خاندان نے گزشتہ رات کو گئو ونش ذبح کر اس کے گوشت
کا استعمال کیا ہے۔اس حملے کے بعد اخلاق کی موت ہو گئی اور حملے کے دوران
شدید طور پر زخمی ہونے والے اس کے بیٹے دانش کا نوئیڈا کے کیلاش اسپتال میں
علاج جاری ہے۔جب کہ گاؤں کے اس مہاشیو مندر کا پجاری اب تک فرار ہے جس پر
لاؤڈاسپیکر کے ذریعے گوشت کی موجودگی سے متعلق افواہ پھیلانے کا الزام
ہے،پولس رتن نامی اس پجاری کو اب تک تلاش نہیں کرپائی ہے ، جب کہ گاؤں
والوں کا کہنا ہے کہ رتن واقعے کے دو، تین دن بعد تک مندر میں ہی تھا، اس
کے بعد فرار ہوگیا اور اب گاؤں میں رہنے والا کوئی شخص یہ بتانے کو تیار
نہیں کہ مندر سے اس طرح کا کوئی اعلان کیا بھی گیا تھا یا نہیں،ان کا کہنا
ہے کہ اس وقت گاؤں میں افراتفری کا ماحول بن گیا تھا، اس لیے انھیں یہ یاد
ہی نہیں کہ مندر میں اس طرح کا کوئی اعلان کیا گیا تھا۔گاؤں کے ایک بزرگ
سردار سنگھ کا کہنا ہے کہ وہ ستّر سال کے ہوچکے ہیں لیکن انھوں نے اس سے
پہلے گاؤں میں کبھی اس طرح کا واقعہ دیکھا نہ سنا، گاؤں کی تاریخ میں
پہلی بار ہونے والی اس واردات سے دہشت کا ماحول بن گیا ہے اور سیاسی اور
مذہبی لیڈروں کے آنے سے گاؤں کا فرقہ وارانہ ماحول مزید بگڑنے کا خطرہ ہے
۔اس معمر شخص کا کہنا بھی صحیح ہے، یہی تو چاہا جا رہا ہے البتہ ادیبوں،
صحافیوں اور دانشوروں کی جانب سے اس طرح کے معاملات میں سخت ردِ عمل دیکھنے
میں آیا ہے اور یہ جو کہ اس رونگٹے کھڑے کر دینے والے حادثے کے مناسب ہے۔
اس سانحے کو لے کر بیان بازی کا سلسلہ بھی زور پکڑ چکا ہے اور ہر ذمہ دار و
غیر ذمہ دار شخص اپنا منہ کھو ل رہا ہے، جب کہ ’پردھان سیوک‘ کے لب بہت دیر
سے کھلے ہیں۔ صدر پرنب مکھرجی کے حوالے سے بیان آیا کہ ’’ہم ہندوستان کی
تہذیب کے اصل اقدار کو یوں ہی ختم نہیں ہونے دے سکتے‘‘ ویسے یہ انھوں نے
بھی واضح نہیں کیا کہ اس کے لیے کیا اقدام کیے جانے والے ہیں۔ مرکزی وزیرِ
داخلہ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’’ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو خراب
کرنے کی کوشش کرنے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘‘ جب کہ بیف سے
جڑے سوال پر بی جے پی ایم پی ساکشی مہاراج نے منگل کو کہا کہ’’اگر ہماری
ماں(گائے) کو مارا گیا تو ہم مرنے اور مارنے، دونوں کے لیے تیار ہیں‘‘،
تاہم بعد میں پلٹی مارتے ہوئے بیان اس طرح بدل دیا کہ’’ ہم جمہوری طریقے سے
لڑنے کی بات کہہ رہے تھے‘‘۔ان کا کہنا ہے کہ’’ اگر ہماری ماں کو قتل کرنے
کی کوشش کی گئی تو ہم خاموش نہیں بیٹھیںگے، ہم مرنے کے لیے بھی تیار ہیں
اور مارنے کے لیے بھی‘‘۔وہیں سماج وادی پارٹی کے ترجمان راجندر چودھری نے
بی جے پی اور آر ایس ایس پر نشانہ لگایا کہ ’’بی جے پی اور آر ایس ایس
دونوں سماجی ہم آہنگی کو بگاڑنا ہی اپنا ایجنڈا مان بیٹھے ہیں‘‘۔ سماج
وادی پارٹی کے قومی صدر ملائم سنگھ یادو نے جمعرات کو اپنے بیان میں دادری
سانحے کو ایک سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ’’ دادری سانحے میں ایک مخصوص
پارٹی کے تین افراد کا اہم کردار ہے، قصور واروں کے خلاف سخت کارروائی کی
جائے گی، خواہ اس کے لیے سماج وادی پارٹی کی حکومت قربان ہی کیوں نہ ہو
جائے لیکن ہم فرقہ پرست طاقتوں کو سختی سے کُچل دیں گے‘‘۔ اتر پردیش کے
اقلیتی بہبود کے وزیر اور سماج وادی پارٹی کے لیڈر محمد اعظم خاں نے بابری
کے بعد دادری کے واقعہ کو ایک بڑی سازش قرار دیتے ہوئےکہا کہ وہ اس معاملے
کو اقوامِ متحدہ لے جائیں گے،اس لیے کہ اس طرح ہندوستان کو ہندو راشٹر
بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
گائے کو ہندو مذہب کے مطابق قابلِ احترام قرار دیتے ہوئے اس کا استعمال
اوچھی سیاست کے لیے کیا جا رہا ہے، جب کہ ویدوں اور دیگر ہندو مذہبی کتابوں
کے حوالے سے اس طرح کی پوسٹ بھی سوش نیٹ ورکنگ سائٹوں پر نظر آرہی ہیں جن
میں گائے کی اس خود ساختہ حیثیت سے نقاب کُشائی ہو جاتی ہے۔ ہندوؤں کی
جانب سے اس مدّے پر انیسویں صدی کے اواخر سے لے دے جاری ہے اور تاریخ کے
اوراق شاہد ہیں کہ انگریزوں کے زمانے میں بھی مندروں میں گؤ مانس اور
مسجدوں میں سُور کا گوشت پھینک کر ہندو مسلم فسادات کروانے کی کوششیں کی
جاتی رہی ہیں۔ایسے حالات میں تمام امن پسند جماعتوں کا میدانِ عمل میں آنا
ناگذیر ہے، خواہ ان کا تعلق کسی مذہب و فرقے سے ہو اور ہر ذمہ دار شہری کو
تحفظ ، اعتماد اور محبت کے جذبے کو بحال رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے
،یاد رکھیے اس وقت ملک کا جمہوری نظام کانٹے پر ہے، ہر بات کا ذمہ دار ملک
کی دوسری سب سے بڑی اکثریت کو ٹھہرانا کسی طور مناسب نہیں،اگر واقعی ملک
میں امن و امان چاہتے ہیں تو سب سے پہلے اس بات کو گانٹھ باندھ لیجیے کہ
مسلمان برادرانِ وطن کے جذبات کا ہمیشہ احترام کرتے ہیں، ہندو برادرانِ وطن
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہ کریں اور ہر امن پسند اپنے اخلاق کا مظاہر ہ
کرے، ان حالات میں صرف کسی کو کوستے رہنے یا سیاسی لیڈروں کی محض بیان
بازیوں سے مسئلے کا حل نکلنے والا نہیں، اس کے لیے ہر شہری کو وسیع ظرفی
اور پورے ہوش سے کام لینا ہوگا، ویسے بھی یہ صرف گوشت کا مسئلہ نہیں بلکہ
بیف کے نام پر ملک کی دوسری سب سے بڑی اکثریت میں خوف و ہراس پیدا کرنے کی
کوشش ہے، جو ایک ناپاک مقصد کے تحت کی جا رہی ہے۔ |
|