وزیراعظم سے توقع : دورۂ امریکہ میں اوفا معاہدے جیسی غلطی کا اعادہ نہیں کرینگے

بیرونی میڈیا اور سفارتی ذرائع کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نوازشریف‘ اوباما ملاقات میں پاکستان کے جوہری ہتھیار محدود کرنے کا معاہدہ طے پانے کا امکان ہے تو اس پر قوم کو بجا طور پر تشویش لاحق ہو رہی ہے کیونکہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس نے اب تک بھارت کو پاکستان پر پہلے جیسی باقاعدہ جنگ مسلط کرنے سے روکا ہوا ہے۔ اگر پاکستان کی اس صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر ہندو انتہاء پسندی کے مظاہرے کرنیوالی مودی حکومت کے راستے میں پاکستان کی سلامتی پر وار کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی جبکہ اس بھارتی جنونیت کے ردعمل میں پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بروئے کار لانے پر مجبور ہوگا تو لازمی طور پر اس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی سالمیت بھی خطرات کی زد میں آجائیگی۔
امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونیوالی ایک خبر میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان عنقریب چھوٹے
ٹیکٹیکل جوہری ہتھیار تنصیب کرنیوالا ہے جس پر امریکی انتظامیہ کو پریشانی ہے کہ ان جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کرنا زیادہ مشکل ہے۔ متذکرہ اخبار کی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ پاکستان لمبی رینج کے میزائل بھی نصب کررہا ہے جو بھارت سے بھی دور مار کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اسی بنیاد پر امریکی انتظامیہ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو محدود کرنے کیلئے معاہدہ کرنا چاہتی ہے جس میں جوہری ہتھیاروں تک رسائی کی شرائط میں کمی بھی شامل ہے۔

وزیراعظم میاں نوازشریف کے دورۂ امریکہ پر اس وقت عالمی قیادتوں اور عالمی میڈیا سمیت پوری دنیا کی نگاہیں جمعی ہوئی ہیں کیونکہ بھارتی حکومت کی جانب سے پاکستان دشمنی پر مبنی ایجنڈا کی بنیاد پر پاکستان بھارت سرحدی کشیدگی کو انتہاء تک پہنچا کر جنگی جنونیت کو فروغ دے رہا ہے. بھارت کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دے کر کشمیری عوام پر بھی مظالم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے جبکہ مودی سرکار ہندو انتہاء پسندی کو فروغ دے کر بھارت کے سیکولر چہرے کو بھی داغدار کررہی ہے اور پاکستان میں دہشت گردی کے ذریعے اسکی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں میں بھی مصروف ہے اس لئے اصولی طور پر تو میاں نوازشریف کے دورۂ امریکہ کے دوران بھارتی جنون کو روکنے کی حکمت عملی طے کی جانی چاہیے اور دیرینہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے یواین قراردادوں کو عملی جامہ پہنانے کا سوچا جانا چاہیے جس کے حوالے سے امریکی صدر اوباما خود گزشتہ ماہ نیویارک میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے ملاقات کے دوران انہیں باور کراچکے ہیں کہ کشمیر بھارت کا حصہ نہیں بلکہ متنازعہ علاقہ ہے۔

گزشتہ گزشتہ یواین جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں وزیراعظم نوازشریف نے کشمیر پر جاندار موقف پیش کیا نوازشریف کے دورۂ امریکہ کے حوالے سے بیرونی میڈیا اور سفارتی ذرائع کی جانب سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ نوازشریف‘ اوباما ملاقات میں پاکستان کے جوہری ہتھیار محدود کرنے کا معاہدہ طے پانے کا امکان ہے تو اس پر قوم کو بجا طور پر تشویش لاحق ہو رہی ہے کیونکہ ہمارا ایٹمی پروگرام ہی وہ واحد ہتھیار ہے جس نے اب تک بھارت کو پاکستان پر پہلے جیسی باقاعدہ جنگ مسلط کرنے سے روکا ہوا ہے۔ اگر پاکستان کی اس صلاحیت کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر ہندو انتہاء پسندی کے مظاہرے کرنیوالی مودی حکومت کے راستے میں پاکستان کی سلامتی پر وار کیلئے کوئی رکاوٹ نہیں رہے گی جبکہ اس بھارتی جنونیت کے ردعمل میں پاکستان اپنے جوہری ہتھیار بروئے کار لانے پر مجبور ہوگا تو لازمی طور پر اس سے علاقائی ہی نہیں‘ عالمی سالمیت بھی خطرات کی زد میں آجائیگی۔

نیویارک ٹائمز کی رپورٹ اور وائٹ ہائوس کے ترجمان کے مطابق اوباما سے ملاقات میں پاکستان کے جوہری ہتھیار محدود کرنے کی بات کی جاتی ہے تو اس سے وزیراعظم نوازشریف کے دورۂ امریکہ کیخلاف سرگرم بھارتی لابی کی سازشیں کامیاب ہونے کا ہی عندیہ ملے گا۔ گزشتہ روز وزیراعظم میاں نوازشریف کی زیر صدارت منعقد ہونیوالے اعلیٰ سطح کے اجلاس میں‘ جو انکے دورۂ امریکہ کے ایجنڈے کے حوالے سے ہی طلب کیا گیا تھا جس میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے بھی شرکت کی‘ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بیرونی میڈیا کے ذریعے پھیلنے والی افواہوں کی بنیاد پر ہی یہ طے کیا گیا کہ دورۂ امریکہ میں امریکی قیادت کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے اصولی موقف سے آگاہ کیا جائیگا۔ اس اجلاس میں امریکی صدر کو پاکستان کے اندر بھارتی مداخلت کے ٹھوس ثبوت فراہم کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا اس لئے امید کی جانی چاہیے کہ وزیراعظم نوازشریف دورۂ امریکہ کے دوران مسئلہ کشمیر اور بھارتی جارحیت کے حوالے سے یواین جنرل اسمبلی کی تقریر والا اپنا مضبوط موقف اور دبائو بھی برقرار رکھیں گے اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر بھی دوٹوک بات کرینگے۔ وزیراعظم نوازشریف سے بھی قوم یہی توقع کریگی کہ وہ دورۂ امریکہ میں اوفا معاہدے جیسی کسی غلطی کا اعادہ نہیں کرینگے۔
Mian Khalid Jamil {Official}
About the Author: Mian Khalid Jamil {Official} Read More Articles by Mian Khalid Jamil {Official}: 361 Articles with 300074 views Professional columnist/ Political & Defence analyst / Researcher/ Script writer/ Economy expert/ Pak Army & ISI defender/ Electronic, Print, Social me.. View More