بزنس میں ترقی اور ملازمین

 اگر آپ باس ھیں،پرائیویٹ ملازم ھیں تو کالم ضرور پڑھیں، لیکن اندازے لگا کر، بدگمانی کر کے گناہ کا مرتکب ھونے کی کوشش نہ کریں کیونکہ کالم کا مقصد معاشرے میں رائج غلط رویوں کی نشاندھی کر کے ان کی اصلاح کی کو شش کرنا ھے۔ کسی ادارے یا فرد کی عیب جوئی ھرگزمقصد نہیں ھے، اسلئے حقیقت کو قائم رکھتے ھوئے،غیبت اور عیب جوئی سے بچنے کیلئے کچھ تبدیلی کر دی گئ ھے۔

الف کا ایک مڈل کلاس فیملی سے تعلق تھا، کوشش کرتے کرتے اسے ایک ائیر لائن میں جاب مل گئ۔ ٹکٹنگ اسسٹنٹ سے کام شروع کیا۔ اپنے کام کو محنت اور لگن سے کام کرنے کے علاوہ ایک اور عادت اسے آفیسرز کی نظروں میں لے آئی وہ تھی سر جھکا کر اپنا کام ذمہ داری کے ساتھ کرنا اور آفس میں رنگ رلیوں اور بے قائدگیوں پر آنکھوں کے ساتھ زبان بھی بند رکھنا۔ کرپٹ افسروں کو ایسے ملازمین سے شکایت کا خطرہ نہیں ھوتا اسلئے اپنے خفیہ کام بھی اس کے سپرد کردئیے گئے۔ اسے چھٹی نہیں ملتی تھی کیونکہ کام اس کے اور اس جیسے دوسروں کے سپرد کر کے سینیرز کو گپ شپ لگانی ھوتی تھی۔ بلڈنگ کے چھت پر جا کر پتنگ بازی کرنی ھوتی تھی۔ اپنی منظور نظر لڑکیوں کے ساتھ کسی کونے کھدرے میں بیٹھ کر دل لگی کرنی ھوتی تھی۔ چائے کی دعوت میں شرکت کرنی ھوتی تھی۔ اگر باھر کا کوئی ایسا کام کروانا ھوتا جسے ھائی کمان کی نظروں سے خفیہ رکھنا مقصود ھوتا تو اسی کو بھیجا جاتا اور اس دن تو حد ھی ھو گئی جب 102 بخار میں اسے صرف اس وجہ سے چھٹی نہ ملی کیونکہ اگر وہ چھٹی پر جاتا تو سینیرز اور ان کے منظور نظر چھت پر جا کر بسند کیسے منا سکتے۔ الف محنتی اور شریف ضرور تھا لیکن بیوقوف نہیں تھا۔ اس سب پتہ تھا کہ کون کب ڈیٹ پر جاتا ھے۔ کون مارکیٹنگ کا کہ کر گھر پہنچ جاتا ھے اور یہاں اس کی رپورٹ کوئی دوسرا لکھ دیتا ھے۔ وہ بہت محنتی تھا لیکن اس کا دل کام سے بیزار ھو رھا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ مجھے چھٹی بھی نہیں ملتی،میں کام محنت سے کرتا ھوں لیکن گپیں لگانے والے،آفس کے اندر ھر وقت ڈیٹ پر رھنے والے،سینیر روعب الگ جماتے ھیں اور اپنے کام الگ کرواتے ھیں اور بیماری کی چھٹی تک نہیں دیتے اور پروموشن کیلئے بھی اپنے چمچوں کا نام بھیج دیا جاتا ھے۔ اس کا دل کام سے اچاٹ ھونے لگا۔ وہ کام کرتا رھا لیکن بجھے دل سے۔ ایک دن اس کے سینیرز اوپر فون پر ڈیٹ پر تھے اور وہ اکیلا معطل فلائٹ کے مسافروں سے ڈیل کر کر کے تھک گیا،واش روم جانے،پانی پینے تک کی فرصت نہ ملی۔ 9 بجے آفس بند ھونا تھا۔ الف کو شدید غصہ چڑھا اور آج اس نے کچھ عجیب کرنے کی ٹھان لی ۔اس نے گارڈ کو بتایا،9 بجے سے کچھ دیر پہلے ھی بنا۔۔ کلو زنگ۔۔ کے گھر چلا گیا اور اگلے دن اپنی ایوننگ شفٹ کے وقت آفس پہنچ گیا۔ھائی کمان تک بات جا چکی تھی چنانچہ آتے ھی پہلے اپنے انچارج سے ڈانٹ پڑی اور اسے جی ایم سیلز اینڈ مارکیٹنگ کے پاس جانے کا حکم ملا۔ الف نے اسی لئے تو ایسا کیا تھا۔ دل میں مسکراتا، خوش خوش جی ایم کے پاس حاضر ھو گیا۔ اتنا ذمہ دار سٹاف اور اتنی غیر ذمہ دارنہ حرکت۔ ایسا کیوں کیا آپ نے۔ سر مجبوری تھی،الف نے بڑے سکون سے جواب دیا۔ کیسی مجبوری؟ سر میں اکیلا تھا۔ واش روم جانا تھا،پانی پینا تھا،1 ماہ سے ایوننگ شفٹ میں آیا ھوں،ڈیلی کی یہی روٹین ھوتی ھے۔کل تھک گیا تھا اسلئے چلا گیا۔ آپ کے ساتھ دو بندے اور بھی تھے،آپ کا سینیر موجود تھا تو ان کو بتا کر جاتے ؟ سر ان کی ڈیوٹی تو اوپر کمپیوٹر سیکشن میں ھوتی ھے میں تو اکیلا ھوتا ھوں۔بس کبھی کبھی وہ چکر لگا لیتے ھیں۔ کیشیر کی ڈیوٹی بھی کمپیوٹر سیکشن میں لگا دی گئ ھے۔ الف نے بھولا سے منہ بنا کر جب اپنی بات مکمل کی تو جی ایم نے سیلز مینجر کو فون کر کے اسے اور الف کے ساتھ دوسرے کام کرنے والوں اور کیشیر کا فوری اپنے آفس میں آنے کا حکم دیا۔ جیسے ھی وہ اندر داخل ھوئے،ان پر چڑھائی شروع کر دی۔ سیلز کے بندوں کی،کیشیر کی ڈیوٹی کمپیوٹر سیکشن میں کیوں لگائی گئی ھے،یہ لڑکا سیلز کاوئنٹر پر اکیلا کیوں ھوتا ھے؟ سر سیلز والے تو سیلز ھی میں ھیں کمپیوٹر سیکشن میں ڈیوٹی نہیں لگی اور یہ اکیلا نہیں ھوتا سر۔ سیلز مینجر کی بجھی بجھی سی آواز نکلی۔ جی ایم نے الف کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا تو الف نے اپنی مسکراھٹ کو بڑی مشکل سے چھپایا اور بتایا کہ سر یہ تو اوپر ھی ھوتے ھیں،شروع میں ان کو ایک دو دفعہ بلانے گیا،گارڈ کو بھی بھیجا، انھوں نے کہا ھم بھی کام کر رھے ھیں،اگر رش ھو تو سنبھال لینا۔ سر رش میں جب بھی آیا تو سر فون پر مصروف ھوتے تھے یا چائے پی رھے ھوتے تو میں کچھ کہے بنا ھو لوٹ گیا،میں نے ڈسٹرب نہیں کیا۔ سر گارڈ سے بھی پوچھ لیں۔ گارڈ نے بھی الف کے بیان کی تصدیق کر دی ۔ فون پر ڈیٹنگ اور زیادہ دفعہ چائے پینے کی چوری پکڑی گئی اور اوپر سے نیچے تک سب کی کلاس ھوئی۔ الف کو ڈائریکٹ جی ایم کو رپورٹ کرنے کی ھدایت کر دی گئی۔ الف گھر جا کر بھی ھنستا رھا ۔ کچھ عرصے بعد ھی الف کی پروموشن ھو گئی اور اسے ائرپورٹ بھیج دیا گیا۔ الف ائیرپورٹ پہنچ گیا اور اس کی شہرت بھی۔ ائیرپورٹ کے حالات دیکھ کر الف کی سٹی گم ھو گئی۔ اندر،ظاھر کے حالات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ اندر منظم گروپ کرپشن کی جاتی تھی،شراب شباب کی مستیوں کا دور دورہ تھا۔ وہ الف سے ڈرتے رھتے کہ کہیں الف کے ذریعے ھیڈ آفس میں کوئی شکایت نہ لگ جائے اور الف ان سے ڈرتا رھتا کہ یہ پھنیسیں تو وہ بھی کسی جھوٹے چکر میں نہ پھنس جائے۔ کہنے کو ھیڈ آفس کا بڑا سخت ھولڈ تھا۔ سٹیشن مینیجر کا آفس ائیرپورٹ پر ھی تھا۔ لیکن یہ سب اپنے اپنے آفس میں بیٹھ کر اپنے تک آنے والی سب اچھا کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ھو جاتے تھے۔ سٹیشن مینیجر کبھی کبھی باھر نکلتا اور ایک چکر لگا کر اپنے آفس میں بیٹھ کر ٹن ھو جاتا۔ بہت بڑی خامی تھی کہ ھائی کمان کے چمچ نما آفیسرز اور ان کے نچلے سٹاف پر کوئی احتسابی نظام نہیں تھا۔ اوپر سے نیچے سب ایک دوسرے کے سامنے ننگے تھے، سو ایک دوسرے کا پردہ رکھتے تھے۔ الف جیسے چند لوگ سر جھکا کر مشکل سے گزارا کرتے تھے۔ ھائی کمان تحریری اعدادو شمار کی رپورٹس دیکھ کر مطمئن ھو جاتی اور براہ راست مسافروں کی حالت دیکھنے،ان کے مسائل جاننے کی کبھی کوشش ھی نہ کی گئی۔مسافر بدظن ھوتے رھے۔ آخر کار یہ ائیرلائن بند ھو گئی اور آج تک بند ھی ھے۔ ایسی کمپنیوں میں پیسوں کا حساب رکھا جاتا ھے۔ ملازمین کو کم سے کم تنخواہ دینے کا باقائدہ سسٹم بنایا جاتا ھے اور یہ سسٹم بنانے والے ایک دو بڑَے افسران کو بڑی تنخواہ،گاڑیوں اور سہولتوں سے نواز دیا جاتا ھے۔ ملازمین سے 12 گھنٹے کام لیا جاتا ھے۔ ملازمین کے اندر بے چینی پھیلتی ھے۔ نتیجتہ وہ منظم کرپشن کرتَے ھیں،اگر کرپشن نہ کر سکیں تو وقت اور کام میں ملی بھگت سے ڈنڈی مارتے ھیں جسے پکڑنا بہت مشکل ھے،نتیجتہ کام کا معیار گرتا ھے اور کمپنی کو ایسا نقصان ھوتا ھے جس کا پتہ بہت دیر بعد چلتا ھے۔ اوپر سے نیچے سب ملے ھوتے ھیں۔ آپس میں مخالفت بھی ھو تو انتظامیہ کے سامنے کبھی بھی دوسرے کا راز فاش نہیں ھونے دیتے۔ الف کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی تھی۔ لہزا اس نے بھی خاموشی میں عافیت جانی۔اس کا ائیرپورٹ کے کرتا دھرتا لوگوں سے باقائدہ ایک معاھدہ ھو گیا تھا۔ دیکھیں سر جو کچھ ھے کبھی بھی میری زبان پر نہیں آئے گا،کوئی جسطرح مرضی پوچھے پھر بھی نہیں آئے گا، لیکن سر میرے ساتھ ڈیوٹی کرنے والوں کو کہ دیں کہ جو مرضی کریں میرے ساتھ آفس میں بیٹھ کر میرے سامنے نہ کریں، باھر جا کر کریں،تا کہ اگر شکایت لگے بھی تو میرا نام نہ آئے کہ یہ بھی ساتھ بیٹھا تھا۔ الف کی تسلی کروا دی گئی کہ اسے کوئی خطرہ نہیں،اگر کوئی پھنس بھی جائے تو کچھ دن کیلئے معطل کر کے معافی دلوا دیتے ھیں اور الف کو یہ بھی بتایا گیا کہ ھمارے گھر کے اخراجات،بچوں کے اخراجات بہت ھیں،بہنوں بچوں کی شادیاں بھی کرنی ھوتی ھیں،ھم پی آئی اے کے سٹاف سے زیادہ ڈیوٹی کرتے ھیں لیکن تنخواہ ان کے نصف سے بھی نصف لیتے ھیں۔ ڈیوٹی ٹائم بھی زیادہ ھے،پی آئی اے والوں کو سہولتیں بھی ھیں ھمیں کوئی سہولت نہیں دی جاتی،تو ھم کیا کریں۔باتیں ساری ٹھیک تھیں اور دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر بھی نہیں رکھا جا سکتا۔ الف نے اپنی ایمانداری قائم رکھتے ھوئے،سب سے دوستی کر لی۔ الف کی زبان بند رکھنے کا انعام اس کی ساتھ انتہائی اخلاق سے پیش آ کر دیا جاتا اور اوپر کی کمائی کا سارا کاروبار الف کی دیوٹی کے دوران آفس سے باھر ھونے لگا۔ کرتا دھرتا کی بات ٹھیک نکلی ۔ جب بھی کوئی پکڑا جاتا کچھ دن بعد معافی لے کر دوبارہ ڈیوٹی پر آ جاتا۔ ایک انٹرنیشنل آئی ٹی کمپنی کے سربراہ اکثر ٹریول کیا کرتے تھے انھوں نے ایک دفعہ الف کو بتایا کہ کبھی وہ بھی الف کی کمپنی میں الف کی ھی طرح کام کیا کرتے تھے، انھیں سب پتہ ھے کہ یہاں کیا ھوتا ھے۔ اور میں یہ بھی جانتا ھوں کہ تم کرپشن نہیں کرتے۔ سر میرے ابو سرکاری ملازم ھیں۔ لوگ رشوت لے کر گھر تک بھی آ جاتے ھیں، لیکن میرے ابو رشوت نہیں لیتے اپنا کام ایمانداری سے کرتے ھیں۔ میں بھی اپنا کام محنت سے کرتا ھوں،حلال کھاتا ھوں،حرام سے بچتا ھوں اور ھمیشہ بچتا رھوں گا۔ الف نے ٹھوک کر جواب دیا۔

آپ چاھو تو میری کمپنی جوائن کر لو،ایمانداری سے کام کرو، ترقی ملتی جائے گی،تنخواہ بھی بڑھتی رھے گی۔ سر کب سے۔ جب چاھو۔ یہ لو کارڈ۔ الف رات تک سوچتا رھا اور اگلے دن بنا کسی کو بتائے آئی ٹی کمپنی کے آفس پہنچ گیا۔ جو کہا گیا تھا اس پر عمل کیا گیا۔ فورا جاب سٹارٹ ھو گئی۔ ایمانداری سے کام کرنے کا مکمل ماحول تھا۔ الف کے گھر والے شروع میں تھوڑا ناراض ھوئے۔ آفس میں فون کر کے انھیں جاب چھوڑنے کے اطلاع دے دی،ایک دن جا کر استعفی دے دیا اور ایک دن جا کر ایکسپیرئینس لیٹر لے لیا۔ بے ایمانی اور کرپشن کے ماحول سے نکل کر کام کرنے کا موقع ملا تو الف نے کام میں جان لڑا دی اور پرموشن اور تنخواہ میں اضافہ تو جیسے الف کے غلام بن گئے۔ ایک عام سا آفس ایگزیکٹو بھرتی ھونے والا الف،مائیکروسوفٹ کی نمائندہ کمپنی کے چیف ایگزیکٹو کا پرسنل اسسٹنٹ بن گیا،ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ بھی مل گیا، بنا کسی سفارش کے۔ یہاں پیسے گننے کے ساتھ ساتھ،کمپنی کے ھر ملازم پر پوری نظر رکھی جاتی تھی اور کسٹمرز کا بہت زیادہ خیال رکھا جاتا۔ ایک مکمل سسٹم تھا۔ ملازم کی غلطی،محنت،لاپروائی،لگن سب کا نوٹس لیا جاتا۔ ملازمین کی عزت نفس کا پورا خیال رکھا جاتا۔ ھر ماہ کی پہلی تاریخ کو تنخواہ ھر صورت ادا کر دی جاتی۔غلطی پر پہلے اصلاح کی فوری کوشش کی جاتی اور نکالنے کا فیصلہ آخر میں کیا جاتا۔ سب سے اچھی بات تھی کہ اعلی افسران کے ساتھ ساتھ چھوٹے بڑے سب ملازمین کی تنخواھیں معقول سے بڑھ کر اچھی تھیں اور معقول سہولتیں بھی مہیا تھیں۔ لہزا پیسے کمانے کیلئے آنے والے ملازمین اس کمپنی کو اپنی کمپنی سمجھ کر بڑی لگن اور محنت سے کام کرتے تھے اور اس کا نتیجہ یہ تھا کہ آئی ٹی کی فیلڈ میں پنجاب میں یہ کمپنی راج کر رھی تھی اور کمپنی کا چیف ایگزیکٹو جس کا سیاست سے دور دور تک واسطہ نہ تھا، مقتدر حلقے کی آشیرباد سے آئی ٹی منسٹر کا اعزازی عہدہ رکھتا تھا۔

الف کی پہلی کمپنی یعنی ائیرلائن کو صرف پیسے کمانے اور گننے سے غرض تھی،ملازمین کی بہتری اور کسٹمرز کی خدمت کے نام پر صرف خانہ پری کی جاتی۔ ائیرلائن بند ھو گئی۔
الف کی دوسری کمپنی کے عروج کی دو بنیادی وجوہات تھیں۔
1۔۔ ورکرز کے ساتھ پرخلوص،عملی محبت۔ جسکا اظہار تنخواہ اور سہولتوں سے ھوتا تھا۔
2۔ جیسے ھی کوئی کسٹمر کمپنی کے آفس میں قدم رکھتا، اس کی نگہداشت کا ایک عیلحدہ سسٹم حرکت میں آ جاتا اور ھمیشہ حرکت میں ھی رھتا۔ کسٹمر خوش ھو کر کمپنی کا چلتا پھرتا کامیاب اشتہار بن جاتا۔ کمپنی کا بزنس بڑھتا گیا۔
یہ کالم بطور مثال کافی ھے۔

ھر کمپنی ترقی کرنے کیلئے مزکورہ بالا 1۔2 دونوں اصولوں کی محتاج ھے۔ ھر کمپنی کا مالک اگر چاھے تو اپنے ملازمین اور کسٹمرز کی بہتری کی بہتر پلاننگ کر کے اپنے کاروبار کی فوری ترقی کر سکتا ھے۔
مشہور ھے عقلمند کیلئے اشارہ ھی کافی ھوتا ھے۔
Mohammad Owais Sherazi
About the Author: Mohammad Owais Sherazi Read More Articles by Mohammad Owais Sherazi: 52 Articles with 117111 views My Pain is My Pen and Pen works with the ink of Facts......It's me.... View More