شہدائے کربلا ؓ کا پیغام
(Ghulam Abbas Siddiqui, Lahore)
صدیاں بیت گئیں واقعہ
کربلا ہوئے مسلمانوں کے ایمان و دل اس کی افادیت سے لبریز سے لبریز تر ہوتے
جارہے ہیں گرد زمانہ اس کے نقش مدہم نہ کر سکا کیونکہ اس کی بنیادوں میں
للٰہیت ،اخلاص،تقویٰ،جرأت وبہادری،انسانیت نوازی،صبر واستقامت تحفظ اسلام
کا عنصر اعلٰی درجے میں موجود تھا۔ہر آنے والا وقت تقویت ایمان کا باعث بنا
اہل ایمان کے لئے یہ عظیم سانحہ ۔۔۔۔انسانیت کو انسانی کے زینوں ،اصول
وضوابط، نصب العین وقوانین کے مطابق زیست مستعار گزارنے کیلئے یہ ایک نسخہ
ٔ کیمیاہے جس سے انسانیت کوناقابل فراموش فخرحیات جادواں نصیب ہوتی ہے۔
دنیا کے انسان قیامت تک شہدائے کربلاؓ سے صبر وتحمل ،جرات وبہادری کا درس
حاصل کرتے رہیں گے انسانیت صبر حسینؓ کو دیکھ کر ورطۂ حیرت میں مبتلا ہے کہ
ایک انسان کے گھر میں دو سے تین افراد انتقال کر جائیں تو اس کے اوسان خطا
ہوجاتے ہیں مگر ادھر دیکھئے امام عالی مقامؓ ایک،دو،دس یا بیس نہیں بہتر
اہل بیت عظام ؓکے لاشے اٹھااٹھا کر خیموں میں رکھتے جاتے ہیں مگر صبر
واستقامت میں فرق نہیں آتا ،صبر واستقامت کے یہ کوہ گراںؓ خانوادہ ٔ رسولؓ
کی خواتین مطہرہ ،مقدسہ کو بھی شریعت کا درس دیتے نظر آتے ہیں کہ صبر کا
دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں ہم دین متین کی حفاظت کیلئے قربانیاں پیش کررہے ہیں
اﷲ رب العزت انھیں قبول فرمالیں تو ہماری کامیابی یقیناً مسلمہ ہو گی،امام
عالی مقامؓ میدان جنگ میں جانے سے قبل بھی ہدایات دیتے ہیں کہ نوحہ کناں ،بال
نوچنا،ماتم کرنا ،اپنے اوپر تشدد کرنا میرے نانا محمد عربی کی شریعت میں
نہیں ہے ،شریعت کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹنے پائے ۔چشم فلک نے پھر وہ نظارہ
بھی دیکھا کہ اہل بیت ؓ کی خواتین نیصبر عظیم کا اس قدر مظاہرہ کیا کہ
اسلام،شریعت مطہرہ پر آنچ نہ آنے دی۔ذرا غور کا مقام ہے کہ یہ صبر عظیم
امام حسینؓ اور خانوادۂ رسولؓ نے کہاں سے حاصل کیا؟ حصول صبر کی درس گاہیں
بھی ان عظیم ہستیوں کی طرح عظیم ترین ہی تھیں اپنے نانا محمد عربی ﷺ ،ماں
حضرت فاطمہ ؓ،باباحضرت علی شیر خداؓ،سیدنا ابوبکر صدیق،سیدنا
عمرفاروقؓ،مظلوم مدینہ سیدناعثمان ذوالنورینؓ سے صبر کا درس حاصل کرنے والے
آج بے صبر کیسے ہو سکتے تھے ؟شریعت جن کے گھر سے نمودار ہو وہ شریعت پیغمبرﷺ
سے لمحہ بھر کیلئے روگردانی کس طرح کرتے ؟آج کائنات کا ہر فرد صبر حسینؓ کو
سلام پیش کررہا ہے ،قیامت تک یہ سلسلہ جاری وساری رہیگا ۔اس میں تعطل کا
آنا ناممکن ہے اس خون کا تقدیس وتعظیم یہ ہے کہ انسانیت آج بھی نام حسینؓ
سن کربا ادب کھڑی ہو جاتی ہے ۔
اے اہل ایمان! ذرا سوچیں وہ کتناعظیم کاز ،مقصد،مشن ہوگا جس کیلئے قدرت نے
عظیم ترین ہستیوں کو قربان کیا۔۔۔۔ہاں ہاں ،جی ہاں ۔۔۔۔۔قانون فطرت
اوردستور زمانہ بھی یہی ہے کہ قیمتی سے قیمتی کاز کیلئے اہم ترین شخصیات کو
قربانی دینا پڑھتی ہے ،اے مسلمانان عالم ! کیا آپ نے کبھی سوچا کہ وہ کونسا
کاز،مشن ،منزل تھی؟ جس کی خاطر امام عالی مقام سیدنا امام حسین ؓ نے
خانوادہ ؓکے ہمراہ لازوال قربانی پیش کی جسے آج کے وعظین ،مقررین ،دانشور،فلاسفر
،قلم کار رزم حق وباطل ،جآ الحق ،نشاۃ ثانیہ اسلام ۔۔۔۔ جیسی اصطلاحات سے
بیان کرتے، لکھتے ،پڑھتے ہیں ۔ان لازوال قربانیوں کا حتمی مقصد کیا ہے؟ جس
کی خاطر خانوادہ رسولؓ تاریخ انسانی کی سب سے بڑی قربانی پیش کرکے قیامت تک
آنے والے انسانوں کو راہ منزل دے گیا۔پیغام شہدائے کربلا ؓدرحقیقت ہے
کیا؟دنیا کے بڑے بڑے دانشوروں نے اس عنوان پر بہت کچھ کہا اور لکھا ہے ،
قیامت تک قافلہ ٔ حسینیؓ کی عظمت،جرأت وبہادری کو اہل ایمان سلام عقید ت
پیش کرتے رہیں گے ۔
لیکن اے اہل ایمان !آج آپ کی خدمت میں شہدائے کربلاؓ کی حقیقی منزل ،مقصد
آسان،عام فہم الفاظ میں ذکر کرنا مقصود ہے ۔ ارباب علم ودانش کی بیان کردہ
اصطلاحات اور واقعہ کربلا ؓپر غور خوض کے بعد قرآن وسنت کومدنظر رکھتے ہوئے
یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ سیدنا امام حسین ؓ نے اہل بیت عظامؓ کے ہمراہ میدان
کربلا میں عظیم قربانی حصول اقتدار کیلئے نہیں دی بلکہ فمن یکفر باطاغوت (البقرہ)
کی عملی تشریح کرتے ہوئے نظام اسلام (خلافت) کا قبلہ درست رکھنے کیلئے
دی۔یاد رہے کہ یہ کوئی خاندانی لڑائی نہیں تھی بلکہ حق وباطل کا معرکہ تھا
اس کا عنوان تھاکہ اﷲ کا نظام خلافت حق جبکہ بندوں کا خود ساختہ ہر نظام
طاغوت ،باطل،شرک،کفر۔۔۔۔۔جب سیدنا امیرمعاویہ ؓ کی وفات کے بعدیزید بدل گیا
اور امت کے سامنے اس کی خرافات ظاہر ہونے لگیں تونواسہ ٔ رسول امام حسینؓ
اور نواسۂ سیدنا صدیق اکبرؓ حضرت عبداﷲ ابن زبیرؓ نے یزید کو خلافت کا اہل
نہ سمجھا تواسلام کے قصر خلافت کو بچانے کیلئے میدان عمل میں اتر پڑے ،جب
اﷲ کے نظام کی شکل وصورت انسان اﷲ کی بجائے اپنی منشاء کے مطابق تبدیل
کردیں توایسے وقت میں اﷲ کے نظام کیلئے جانیں قربان کرناشہدائے کربلاؓ کی
طرف سے امت کو پیغام ہے۔(واضح رہے کہ یزید کی آڑ میں خلیفہ ششم ،کاتب وحی
سیدنا امیر معاویہ ؓ کی توہین وتنقیص کرنا ذلالت وگمراہی،کفرونفاق ہے۔اہل
ایمان پر فرض ہے کہ وہ یزید کی مذمت اور سیدنا امیر معاویہ ؓ کا دفاع کر یں
۔تفصیل کے لئے راقم کی مختصر کتاب شہدائے کربلا ؓکا مطالعہ کریں)
پھر دنیا نے دیکھا کہ امام عالی مقام ؓ اﷲ کے نظام خلافت کو اصلی شکل میں
برقرار رکھنے کیلئے اہل بیت عظام ؓ کے 72 نفوس مقدسہ ؓکے ہمراہ اسلام
پرقربان ہونے کیلئے تیار ہوگئے لیکن رحمان کے مقابل باطل،طاغوتی،انسان
ساختہ نظام کو لمحہ بھر کیلئے قبول نہیں کیا ۔جب ایک اہل ایمان اس سانحہ
عظیم پرغور کرتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انبیاء کرامؑ ،صحابہ
کرامؓاور نواسہ ٔ رسول،خانوادہ اہل بیتؓ کی زندگیوں کا مقصد تو اﷲ کی زمین
پر اﷲ کا نظام خلافت قائم کرنا، اسے دوام بخشنا تھا جس میں وہ کامیاب
ہوئے۔فکر حسینؓ،پیغام شہدائے کربلا ؓ اہل ایمان نے ہمیشہ اپنے سینوں میں
بسائے رکھا اس کا اظہار علم وعمل سے ہمیشہ ہوتا رہا ،مسلمان امارت وخلافت
کو قائم ودائم رکھنے اس کی اہمیت سے کبھی بھی بے خبر نہیں ہوئے 1924 کو جب
مسلمانوں کی خلافت وامارت،مرکز خلافت عثمانیہ کو کفر نے ختم کیا تو مسلمان
خاموش نہیں بیٹھے بلکہ فکر حسین ؓ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے تحریک خلافت
شروع کی ،علی برادارن ودیگر قائدین کا مثالی کردار ہمارے لئے مشعل راہ ہے ۔آج
کے جدید ترقی یافتہ دور میں بھی مرد مجاہد ملا محمد عمرمجاہدؒ نے فکر حسینیؓ
کو افغانستان کے پہاڑوں میں زندہ کیاتو دنیا اس مثالی حکومت کو دیکھ کر عش
عش کر اٹھی اور کہنے پر مجبور ہوگئی کہ ایسا نظام حکومت تو ہمارے ملکوں میں
بھی ہونا چاہیے جس میں جرم نام کی کوئی چیز نہیں۔انسانی حقوق عوام کو ان کی
دہلیز پر ملے ہیں ،عالم کفر کو کو یہ برداشت نہ ہوا ،اپنوں کی حماقتوں
غیروں کی سازشوں کے باعث فیض امام عالی مقامؓ کو ہم سنبھال نہ سکے ۔لیکن آج
بھی لوگ کرہ ارض پر فلسفہ وفکر حسینیؓ کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرگرم عمل
ہیں ۔ مگر آج کاا نسانوں اور مسلمانوں کا ایک طبقہ اپنی زندگی کے حقیقی
مقصد کو فراموش کرکے ضمنی معاملات کی طرف رواں دواں ہے اور دور حاضر کا ایک
بہت بڑا دینی طبقہ نظام باطل کو قبول کرکے نفاذ اسلام کی امید لگائے بیٹھا
ہے جوفکر حسینیؓ سے 180درجے الٹ ہے یہ امید بے سود ہی نہیں بلکہ نقصان دہ
بھی ثابت ہو رہی ہے۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ فکر حسینی ؓ کو
اپنے اندر زندہ کرے ،جس مشن پر ان مقدس ہستیوں نے قربانیاں دیں اس کی اشاعت
وتبلیغ اورتکمیل کیلئے عملی اقدام کئے جائیں ،یہ بنیادی کام ہر مسلمان پر
فرض ہے قرض ہے جس کے بارے میں لوگوں کو آگاہ کرنے میں کوتاہی ہوئی۔نتیجتاً
مسلمان اپنے حقیقی مقصد حیات سے نا آشنا ہیں ۔فکر حسینیؓ کی اصل رمک ان کے
وجدان میں نہیں ہے ۔اے مسلمانان عالم! آئیے فکر حسینی ؓکو زندہ کرکے مظلوم
انسانیت کو بندوں کی غلامی (انسان ساختہ نظاموں) سے نجات دلانے کا عزم صمیم
کریں۔ ٭٭٭ |
|