دنیائے کفرسے ۱۲۵؍لڑائیاں لڑنے والے عظیم المرتبت مجاہد کا مختصرتعارف قسط نمبر۱
(Ata Ur Rehman Noori, India)
سیدنا حضرت خالد بن ولید :
اسلامی تاریخ کے اولوالعزم شمشیرآزما اور عبقری جرنیل
آپ کا نام ابوسلیمان خالدرضی اﷲ عنہ ہے۔آپ کا نسب اس طرح ہے:ولید بن مغیرہ
بن عبداﷲ بن عمر بن مخزوم بن تیفتہ بن مرۃ۔’مرۃ ‘شاہکار دست قدرت مصطفی جان
رحمتﷺ کے ساتویں داداہیں ۔اس وجہ سے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کا شجرۂ نسب
ساتویں پشت میں آپ ﷺ سے مل جاتاہے۔آپ کی والدہ کانام لبابہ صغریٰ بنت
الحارث ہے۔آپ حضرت ام المومنین بنت حارث رضی اﷲ عنہ کی ہمشیرہ ہیں ۔اس طرح
حضورﷺ حضرت خالد بن ولید کے حقیقی خالو ہیں۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے چھ
بھائی اور دو بہنیں تھیں۔آپ کے بھائیوں میں ہشام اور ولید مسلمان
ہوئے۔بہنوں میں سے ایک کی شادی حضرت صفوان بن امیہ کے ساتھ ہوئی تھی اور
دوسری کی حارث بن ہشام کے ساتھ۔آپ کے والد ولید کا شمار مکہ کے رؤسا میں
ہوتاتھا،مکہ مکرمہ سے لے کر طائف تک ان کے باغات تھے،قبیلۂ مخزوم سے تعلق
تھاجوقریش کے قبیلہ بنوہاشم کے بعد مرتبہ میں دوسرے درجہ پر تھا ، ثروت کا
عالم یہ تھاکہ ایک سال بنوہاشم مل کرغلاف کعبہ چڑھاتے اور ایک سال تنہاولید
غلاف چڑھاتے تھے۔ظہور اسلام کے وقت حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کی عمر تقریباً
سترہ سال تھی ۔ ایسے ماحول میں پرورش پائی جہاں شمشیرآرائی،نیزہ
بازی،شہسواری،جنگی داؤ پیچ اورجنگجویانہ سرگرمیوں کے علاوہ دوسرے اذکار بہت
کم تھے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ بچپن ہی سے نہایت پھرتیلے،نڈراور صاحب تدبیر
تھے۔جوان ہوکر آپ کی شجاعت کا رنگ اور نکھرااور آپ قریش کے منتخب جوانوں
میں شمار ہونے لگے۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ بھی اپنے والد کی طرح قبول اسلام
سے پہلے اسلام کے شدید مخالف تھے،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ہرکارروائی
میں آپ آگے آگے ہوتے تھے۔جنگ بدرواُحدمیں آپ کی صلاحتیں اسلام کے خلاف صرف
ہوئیں۔اُحد میں آخری مرحلے میں مسلمانوں کوجس تکلیف کاسامناکرناپڑااس کی
بڑی وجہ خالد بن ولید تھے۔
صلح حدیبیہ کے بعد آپ نے اسلام قبول کیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کااسلام قبول
کرناتھاکہ کفرپرغشی طاری ہوگئی۔آپ کے بعد عکرمہ بن ابوجہل بھی حلقہ بگوش
اسلام ہوگئے۔صلح حدیبیہ کے بعد مصطفی کریمﷺ کی زندگی کے چارسال اور اس کے
بعد حضرت ابوبکرصدیق رضی اﷲ عنہ اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے ادوارِ
حکومت میں حضرت خالد بن ولید رضی اﷲ عنہ کے کارناموں سے اسلام کی تاریخ
مہرمنیر کی مانند چمک رہی ہے ۔ مؤرخین کے مطابق حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے
چھوٹی بڑی ۱۲۵؍لڑائیاں لڑیں اور ایک بھی لڑائی میں شکست نہیں
کھائی۔(سیدناحضرت خالد بن ولیدرضی اﷲ عنہ،ص۷)عرب میں مشہور تھاجس جنگ میں
حضرت خالد رضی اﷲ عنہ ہوں گے اس میں فتح غالب ہے۔ آپ کثرت وقلت کے
اعدادوشمار سے بے نیاز تھے۔نپولین،سکندر،ہٹلر اور دنیاکے بڑے سے بڑے سے
بڑاکوئی جرنیل حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کی پرچھائیں تک بھی نہیں پہنچ سکا۔جنگ
موتہ سے لے کرایران کی سب سے بڑی لڑائی تک کون سا موقع ہے جہاں اس
اولوالعزم جرنیل کے انمٹ نقوش نے اسلامی تاریخ کوروشن نہیں کیا۔
سید امیر احمد اپنی کتاب ’’خالدبن ولید‘‘کے صفحہ ۲۴۴؍پر لکھتے ہیں:آج قومی
عصبیت کادوردورہ ہے۔دنیاکی ہرقوم اورہرملک کے تاریخ نویس اس بات پرزیادہ سے
زیادہ زور صرف کرتے ہیں کہ ان کے ہیرو کودنیاکاسب سے بڑا انسان تسلیم کر
لیا جائے۔ تاریخوں میں بے شمار ایسے نام ملیں گے جن کے ساتھ فاتح اعظم،عظیم
الشان سپاہی اور دنیا کاسب سے بڑاجرنیل وغیرہ وغیرہ القاب لکھے ہوئے ہوں گے
لیکن اگرکوئی مؤرخوں کے عطاکردہ ان اعزازات کو دلیل اور انصاف کی ترازو میں
تولنے لگے تومایوسی اور افسوس کے سواکچھ ہاتھ نہ آئے گا۔تحقیق کرنے
والادیکھے گاکہ محض قوم پرستی کے جوش میں بعض ایسے لوگوں کو بھی ان
معززخطابات سے نوازدیاگیاہے جن کے قابل نفرت کارناموں کی وجہ سے تاریخ کے
صفحات میں انہیں ادنیٰ سی پوزیشن نہیں ملنی چاہئے۔لیکن حضرت خالد رضی اﷲ
عنہ بن ولید کے حالات پڑھنے کے بعد ہرانصاف پسند اور صاف ذہن رکھنے
والاانسان محسوس کرتاہے کہ اسلام کے اس عظیم الشان سپاہی کے نام کے ساتھ
دنیاکاسب سے بڑاجرنیل بہت ادنیٰ درجے کاخطاب ہے، اس کے محیرالعقول کارنامے
دلیل بن کرقدم قدم پرمطالبہ کرتے ہیں کہ نہ صرف اسلام کی بلکہ دنیا کی
تاریخ میں اسے وہ مقام دیاجاناچاہئے جس کے قابل دنیاکے کسی فاتح، کسی جرنیل
اور کسی سپاہی کونہیں سمجھاگیا۔
یقینادوسری قوموں اور ملکوں کی تاریخوں میں بھی ایسے لوگوں کے تذکرے ملیں
گے جنہوں نے اپنی تلواروں اور تدبیر کی بدولت زمانے سے اپنا
لوہامنوایا۔جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سَر کرکے قوموں کی قسمتیں اوردنیاکانقشہ
بدل دیا۔لیکن اپنی پوری زندگیوں میں کتنی بار انہوں نے یہ کارنامے انجام
دیئے؟جن قوموں اور ملکوں کوانہوں نے شکست دی،ان کی حربی قوتیں کیاتھیں؟اور
خود ان کے جلومیں کتنی قوموں کے پھریرے تھے؟اگران سوالوں پرغورکیاجائے
تودنیاکے فاتحین کوحضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے مقابلے میں ہرگز نہیں
لایاجاسکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ قوت کے نشے میں سرشارہوکرطاقت ور قوموں
نے اپنی کمزور ہمسایہ قوموں پریلغار کی اور شہنشاہوں کے تنخواہ دارمؤرخوں
نے ظلم وزیادتی کی ان داستانوں کوشجاعت اور شہادت کاملمع چڑھاکرتاریخ کے
اوراق کی زینت بنادیا․ |
|