غور طلب

پنجاب اور سندھ کے بیس اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ مکمل ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی مذکورہ دونوں صوبوں میں حکمراں جماعتوں کی جان میں جان آئی۔ اب دعوے شروع ہو گئے ہیں کہ 2013میں ہونے والے عام انتخابات میں کوئی دھاندلی نہیں کی گئی۔ بات کسی حد تک ٹھیک بھی ہے۔فافن (فیئر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک )نے بھی چند تحفظات کے ساتھ الیکشن کا عمل درست ہونے کی سرٹیفکیٹ جاری کر دیا۔پنجاب اور سندھ کے حکمرانوں کے لئے یہ سرٹیفیکیٹ قابل تسکین حد تک ایک فتویٰ کی حیثیت رکھتا ہے۔بلدیاتی انتخابات میں یہ بات ایک بار پھر ثابت ہو گئی کہ اب پاکستان میں قومی جماعت ہونے کی دعویدارکوئی پارٹی نہیں۔ مسلم لیگ (ن) نے ایک بار پھر اپنے آپ کو پنجاب کی نمائندہ جماعت ثابت کیا جبکہ پیپلز پارٹی نے خود کو سندھ کی واحد وارث بڑی جماعت ثابت کر دیا۔ اگرچہ سندھ کے شہری علاقوں خاص طور سے کراچی حیدرآباد میں صورت حال خاصی مختلف ہے اور یہاں سندھ کی وراثت کو چیلنچ کرنے والی ایک جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی شکل میں موجود ہے لیکن پیپلز پارٹی ایم کیو ایم کو اپنا حریف نہیں سمجھتی۔ اس کا اصل مقابلہ مسلم لیگ فنگشنل اور قوم پرست جماعتوں سے ہے۔ان دونوں حریفوں کے مقابلے میں پی پی پی نے اپنے آپ کو صف اول کا کھلاڑی ثابت کیا ہے۔دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ تو مسلم لیگ ن کو اس بات کا دکھ ہے کہ وہ اب ایک علاقائی پارٹی بن کر رہ گئی ہے اور نہ ہی پاکستان پیپلز پارٹی اس معاملے پر متفکر نظر آتی ہے کہ اسے اب ملک بھر کی نمائندہ جماعت ہونے کا درجہ حاصل نہیں رہا۔ خیر مسلم لیگ ن کا معاملہ تو کچھ مختلف بھی ہے لہذا اس کا اس صورت حال پر پریشان نہ ہونا سمجھ میں بھی آتا ہے کہ اسے کبھی بھی ایک قومی جماعت کا درجہ حاصل نہیں رہا، وہ ماضی میں بھی علاقائی سیاست کرتی رہی ہے۔ن لیگ کے ساتھ اس ملک کی غیر مرعی قوتیں(فرشتے ) ہوتے تھے، جو شاید اب اس طرح سے اس جماعت کے ساتھ نہیں ہیں لیکن اس کے مقابلے میں پاکستان پیپلز پارٹی کی جڑیں تو عوام میں تھیں۔ پی پی پی کی پنجاب میں شکست و ریخت اور اس پر قیادت کی طفل تسلیاں دیدنی ہیں۔اب شاید دونوں پارٹیوں نے اعلی ترین سطح پر یہ بات طے کر لی گئی ہے کہ ۔۔۔یاشیخ اپنا اپنا صوبہ د یکھ۔۔۔یہ پاکستان کے مستقبل کے لئے کوئی اچھی نوید نہیں ہے۔ کون جانے کہ کل کیا ہو گا لیکن جو سیاسی اشارے مل رہے ہیں وہ مجموعی طور پر کسی بہتری کی علامت نہیں۔ ایک طرف تو پیپلز پارٹی کی طرف پنجاب اور دوسرے صوبوں میں اپنی پوزیشن بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں ہو رہی تو دوسری طرف وفاق اور پنجاب کی حکمراں جماعت مسلم لیگ ن بھی ایسی کوئی کوشش کرتی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہ عمل اس وقت تک تو ٹھیک ہے جب تک دونوں جماعتوں کے درمیان تعلقات کار بہتر ہیں اور مفاہمت کی پالیسی جاری ہے لیکن مفاہمت کا عمل ختم ہوتے ہی سندھ کارڈ اور پنجاب کارڈ استعمال ہونے کی خطرہ بڑھ جائے گا۔ پنجاب چونکہ آبادی کے اعتبار سے اکثریتی صوبہ ہے لہذا موجودہ سیاسی صورت حال میں وفاق میں ہمیشہ حکومت بنانے کا امکان بھی پنجاب ہی کا رہے گا۔ مزاجاًپاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت یہ برداشت نہیں کر پائے گی کہ ہر بار وفاق میں پنجاب کی پارٹی ہی کی حکومت ہو۔ لیکن عددی اکثریت پنجاب کو یہ قانونی حق دے رہی ہو گی اور پھر اس بات کے امکانات بڑھ جائیں گے کہ تنازعہ خدا نخواستہ کوئی دوسری شکل اختیار کر لے۔ پھر ریفری ہی مصالحت کرائے گا اور یہ بات ریفری کے بھی دائرہ اختیار سے باہر چلی گئی تو پھر خدا ہی حافظ۔ بلدیاتی انتخابات نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ پنجاب یا سندھ میں پاکستان تحریک انصاف کی اصل پوزیشن کیا ہے۔ 2013کے انتخابات سے قبل عوام میں تیزی سے مقبولیت پانے والی یہ جماعت اب اور بھی زیادہ رفتار سے تنزل پذیر ہے۔ اگرچہ سندھ میں کبھی بھی اس جماعت کو وہ تائید و حمایت حاص نہیں ہوئی جواسے پنجاب میں ملی لیکن اب ایسا محسو س ہوتا ہے کہ لوگ عمران خان کی روز بروز بدلتی ہوئی سیاست اور کھوکھلے نعروں سے تنگ آ گئے ہیں اور وہ فرشتے جو عمران خان کو انگلی پکڑ کر سیاست کے سمندر میں تیرنا سکھا رہے تھے وہ بھی عمران کی کارکردگی سے مایوس ہو کر ایک طرف بیٹھ گئے ہیں اور کسی مناسب وقت کا انتظار کر رہے ہیں لیکن اب ان فرشتوں کو یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ وائبرنٹ میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا کے اس دور میں اب وہ کارتوس کار گر نہیں ہونگے جن کو ماضی میں بڑی آسانی سے چلا کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جاتے تھے۔حقیقت حال یہ ہے کہ اب عمران خان بھی ایک علاقائی پارٹی کا ہی نام ہے یعنی یہ پارٹی خیر پختونخوا تک ہی محدود ہے اور کون جانے کہ آنے والے برسوں میں وہ خیبر پختونخوا میں بھی اسی طاقت کے ساتھ رہیں گے یا نہیں۔پنجاب اور سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں ایک اور فیکٹر ابھر کر سامنے آیا ہے وہ ہے آزاد امیدواروں کی جیت کا۔ یہ درست ہے کہ بلدیاتی انتخابات میں محلے ، برادریاں اور رشتہ داریاں ہی سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کی موجودگی آزاد امیدواروں کی کامیابی بھی سیاسی جماعتوں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔
Riaz Aajiz
About the Author: Riaz Aajiz Read More Articles by Riaz Aajiz: 27 Articles with 19923 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.