الشيخ الدكتور شيرعلي شاه المدني

الشيخ الدكتور شير علي شاه ايك تاريخي،علمي اورباكمال وبا تقوى شخصيت.وه كتني عظيم هستي تهي؟ان كا كيا مقام ومرتبه تها؟ عامة الناس كي ان سِ كس قدر محبت تهي؟ ذره ملاحظه هوحامد مير كا بيان: یہ ایک ناقابل فراموش جنازہ تھا،یہ ایک ایسے عالم کا جنازہ تھا جس نے اپنی موت کے بعد بھی اپنے جنازے کے زریعے مجھ ناچیز کے علم میں اضافہ کیا،اس جنازے میں شرکت سے مجھے اصلی حکومت کی جھلک دیکھنے کا موقع ملا، مجھے پتا چلا کہ اصلی حکمران وہ نہیں ہوتے جو اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھ کر حکم جاری کرتے ہیں،اصلی حکمران تو وہ ہوتے ہیں جو لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں اور مجھے ایک ایسے ہی بے مثال انسان کے جنازے میں شرکت کی سعادت حاصل ہوئی جو تمام عمر اقتدار کے ایوانوں سے دور رہالیکن وہ لوگوں کے دلوں پر حکومت کرتا تھا،میری گنہگار آنکھوں نے مختلف سیاسی رہنماؤں کے جنازوں میں بڑے بڑے ہجوم دیکھے ہیں لیکن میں نے اور آپ نے کسی ایسے درویش کے جنازے میں اتنے انسان نہیں دیکھے ہوں گے جس کی موت کی خبر نہ کسی ٹی وی چینل کے لئے بریکنگ نیوز تھی اور نہ ہی کسی بڑے اخبار کے صفحہ اول کی زینت بن سکی، مجھے بھی یہ خبر ایک دوست کے ایس ایم ایس کے زریعے ملی اگلے روز میں جنازے کے مقام پہنچا تو آنکھوں پر یقین نہیں آیا ،یہ انسانوں کا ایک سمندر تھا جو ٹھا ٹھیں مارنے کے بجائے غم اور افسردگی کی تصویر بنا ہوا تھا،انسانوں کا سمندر دیکھ کر مجھے علم ہوا کہ میڈیا کی طاقت کے دعوے سوائے فریب کے کچھ نہیں،طاقتور لوگوں سے خوفزدہ رہنے والا میڈیا عمران خان اور ریحام خان کی طلاق کو مصالحے دار چاٹ بنا کر بیچتا رہااور بلدیاتی انتخابات میں ہونی والی قتل و غارت پر بھی گلے پھاڑ پھاڑ کر چیخ و پکار کرتا رہا، اس میڈیا نے اپنے عہد کے ایک جید عالم دین ،ایک قلندر اور ایک محسن قوم کی موت کی خبر کو چند سکینڈ کے لئے بھی اہمیت دی اور نہ جنازے کا وقت بتایا لیکن جنازے میں انسانوں کے سمندر کی موجودگی دراصل خلق خدا کی طرف سے میڈیا کی طاقت سے انکار کا اعلان تھا،اصل طاقت ان لوگوں کے پاس نہیں جو میڈیا پر نظر آتے ہیں ،اصل طاقت ان لوگوں کے پاس ہے جو طاقت حاصل کرنے کی خواہش سے آزاد رہ کر لوگون کے دلوں پر حکومت کرتے ہیں،ایسے ہی ایک عظیم انسان کا نام مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ تھا جو 29 اکتوبر 2015 کو بعد از نماز جمعہ اکوڑہ خٹک میں انتقال کر گئے،ڈاکٹر صاحب نے تمام عمر علم کی روشنی پھیلائی اور ان کاجنازہ بھی یہ روشنی پھیلا رہا تھا، انہوں نے تمام زندگی ایک عام انسان کی طرح گزاری لیکن جنازے پر پتا چلا کہ وہ تو اپنے وقت کے بہت بڑے حاکم تھے،جو لاکھوں کروڑوں دلوں پر حکومت کرتے تھےلوگ اپنے اس حکمران سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے،
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے جنازے میں کوئی وی آئی پی شریک نہ تھا،کوئی وزیر یا مشیر بھی نظر نہیں آیا لیکن عام لوگ دور دور سے آئے تھے،کراچی اور کوئٹہ کے علاوہ افغانستان کے دور دراز علاقوں سے لوگوں کی بڑی تعداد 30 اکتوبر کی صبح گیارہ بجے جنازے میں شرکت کے لئے اکوڑہ خٹک پہنچ چکی تھی،کئی لوگ مرحوم کی مغفرت کے ساتھ ساتھ اپنے آپ کو بھی بخشوانے آئے تھے،لوگوں کا خیال تھا کہ مولانا شیر علی شاہ صاحب صرف ایک عالم ہی نہیں بلکہ ولی اللہ تھے اور ولی اللہ کے جنازے میں شرکت سے ان کے گناہ بخشے جائیںگے،سینئر صحافی جناب رحیم اللہ یوسف زئی اس جنازے میں شرکت کے لئے پشاور سے نکلے تو جی ٹی روڈ پر انسانوں کا جم غفیر تھا،بڑی مشکل سے اوکاڑہ خٹک پہنچے تو مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے لئے لوگوں کی عقیدت اور وارفتگی دیکھ کر حیران رہ گئے،جنازے کی طرف رواں دواں ایک شخص سے پوچھا کے تم کہاں سے آئے ہو؟اس نے کہا کہ وہ افغانستاں سے آیا ہے،پوچھا کیا تم ڈاکٹر شاہ صاحب کے شاگرد ہو؟اس نے جواب نفی میں دیا،پوچھا کیا تم زندگی میں کبھی ان سے ملے تھے؟اس کا جواب نفی میں تھا،پوچھا تم اتنی دور سے کیوں آئے ہو؟اس افغان نے جواب میں کہا کہ ڈاکٹر صاحب ایک ولی اللہ تھے،ان کے جنازے میں شریک ہو کر ثواب کما نا چاہتا ہوں،رحیم اللہ یوسف زئی کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں بہت بڑے بڑے جنازے دیکھے ہیں لیکن مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کا جنازہ سب سے بڑا تھا،مولانا سمیع الحق کو دارالعلوم حقانیہ سے کچھ ہی دور واقع میدان میں جنازے کے لئے پہنچنا تھا لیکن یہ چند سو گز طے کرنا ان کے لئے بہت مشکل ہوگیا تھا،وہ جناز گاہ میں پہنچے اور چاروں طرف نظر دوڑائی تو بے اختیار کہنے لگے کہ یہ جنازہ جنرل ضیاءالحق کے جنازے سے بہت بڑا ہے،مولانا شیر علی شاہ صاحب کے جنازے کی عظمت کو بیان کر کے مولانا سمیع الحق کو کوئی دنیاوی فائدہ حاصل نہیں ہو سکتا بلکہ خدشہ ہے کہ کچھ لوگ ناراض ہو سکتے ہیں لیکن اس کے باوجود مولانا سمیع الحق نے درجنوں علماء کی موجودگی میں جو کہا وہ ان کی حق گوئی اور خدا خوفی تھی،ایک اصلی حکمران کی شان و شوکت کا اعتراف تھا،
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب دارالعوم حقانیہ ا کوڑہ خٹک کے شیخ الحدیث تھے،انہوں نے مولانا عبدالحق کے ساتھ مل کر اس مدرسے میں پڑھانا شروع کیا اور بعد ازاں اعلیٰ تعلیم کے لئے مدینہ یونیورسٹی چلے گئے،مدینہ یونیورسٹی میں انہوں نے حسن بصری کی تفسیری روایات پر پی ایچ ڈی کی،یہ پی ایچ ڈی ان کے لئے مشکل نہ تھی کیونکہ وہ اردو اور پشتو کے علاوہ عربی،فارسی اور انگریزی پر بھی خوب دسترس رکھتے تھے لیکن انہوں نے اس پی ایچ ڈی پر ضرورت سے زیادہ سال لگا دئے،وجہ صرف یہ تھی کہ وہ مدینہ کی محبت میں گرفتار تھے ،مدینہ سے واپسی پر کراچی اور میران شاہ کے مدارس میں کچھ عرصہ پڑھانے کے بعد واپس دارالعلوم حقانیہ ا کوڑہ خٹک آگئے اور مرتے دم تک اس ادارے سے وابستہ رہے،ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ سیرت و کردار میں ایک حقیقی استاد تھے ،مولانا سمیع الحق کی سیاست سے دور رہتے لیکن دارالعلوم حقانیہ کی علمی و تدریسی سرگرمیوں میں آگے آگے رہتے،موت سے چند لمحے پہلے انہوں نے اہل خانہ کے علاوہ ایک خط مولانا سمیع الحق کو بھی لکھا اور ان کے مدرسے کے لئے نیک تمناؤں کا اظہار کیا،
مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے ساتھ میری ذاتی نیاز مندی بہت پرانی تھی،کئی سال قبل راولا کوٹ میں ایک کشمیر کانفرنس میں مجھے ان کے ہمراہ خطاب کا موقع ملا تو میں ان کی علمیت کا پرستار بن گیا،وہ مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ کی بہت مثالیں دیا کرتے تھے،ڈاکٹر صاحب بتایاکرتے تھے کہ پاکستان کے قیام کے وقت ان کی عمر سترہ برس تھی اور وہ پاکستان کے حق میں نارے لگایا کرتے تھے،پاکستان ان کے ایمان کا حصہ تھا اور وہ پاکستان کے خلاف اندرونی و بیرونی سازشں کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتے تھے،2007ء میں لال مسجد آپریشن کے بعد دینی طبقے میں عسکریت اور تشدد نے زور پکڑا تو مولانا شیر علی شاہ صاحب سے پاکستان کے اندر عسکریت کا راستہ روکنے کے لئے بڑے بڑے خطرات مول لئے،انہوں نے قبائلی علاقوں میں جا کر عسکریت پسندوں کو پیار سے بھی سمجھایا اور ان کی ڈانٹ ڈپٹ بھی کی،پولیو کے قطرے پلانے والوں پر حملے شروع ہوئے تو ڈاکٹر صاحب نے پولیو کے قطرے پلانے کے حق میں اردو اور پشتو میں بیان رکارڈ کرا کر نشر کروایا،ان کے جنازے پر مولانا فضل الرحمان خلیل نے درست کہا کہ اگر آج پاکستان میں تشدد اور بم دھماکے کم ہوگئے ہیں تو اس میں ضرب عضب آپریشن کے علاوہ مولانا ڈاکٹرشیر علی شاہ صاحب کی ان کاوشوں کا بھی دخل ہے جن کا میڈیا پر کبھی ذکر نہیں ہوا،کچھ علما ڈاکٹر صاحب کی پاکستان نوازی سے اختلاف کرتے تھے لیکن انہیں بھی ڈاکٹر صاحب کے خلوص و نیت پر شک نہیں تھا اور یہ علما بھی مولانا ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب کے جنازے میں شرکت کے لئے آئے،وہ ایک صوفی بھی تھے اور مجاہد بھی تھے،مشکل سے مشکل حالات میں سچ بولنے سے باز نہ آتے،آخری دنوں میں ان کا جسم بیمار لیکن سوچ نوجوانوں سے زیادہ صحت مند تھی،ڈاکٹر صاحب کی موت نے انہیں ایک نئی زندگی عطا کی،وہ ہماری یادوں میں ہمیشہ زندہ رہیں گے۔
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 817439 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More