انصاف کی فراہمی

قومی کی شکست و ریخت میں انصاف کی عدم فراہمی بنیادی اور کلیدی کردار ادا کرتی ہے، دوسری جنگ عظیم کاآغاز ہوا تو اسوقت برطانیہ کی عنان اقتدار وزیر اعظم سرونسٹن چرچل کے ہاتھوں میں تھی ،چرچل کا شمار اس وقت کے چوٹی کے دانشوروں میں ہوتا تھا ، دشمن کی چھیڑی ہوئی جنگ سے نمٹنے کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے انہوں نے اپنی کابینہ کا اجلاس بلایا اور کابینہ کے سامنے سوال رکھا کہ’’ کیا ہماری عدالتیں عوام کو انصاف فراہم کر رہی ہیں‘‘ یا یوں کہہ لیں کہ چرچل نے پوچھا کہ برطانوی عوام عدالتوں سے مطمئن ہیں‘‘ تو پوری برطانوں کابینہ نے بک زبان اور یکسوئی کے ساتھ جواب دیا کہ’’ یس مسٹر پرائم منسٹر ! ہمارے عوام اپنی عدالتوں سے مطمئن ہیں اور ہماری عدالتیں عوام کو انصاف فراہم کر رہی ہیں‘‘ اس قدر اطمینان بخش جواب سن کر سرچرچل نے کہا ’’ اب ہم برسوں جنگ لڑ سکتے ہیں‘‘یعنی چرچل کو اطمینان ہوگیا کہ اب دشمن سے لمبی اور فیصلہ کن جنگ کے لیے انہیں کسی قسم کی دشواری درپیش نہ ہوگی ۔ اس جنگ میں برطانیہ اور اس کے اتحادیوں کو فتح اور جرمنی کو شکست سے دوچار ہونا پرا تھا ……جرمنی کو برطانیہ ،امریکہ ،فرانس اور سیگر کئی ممالک ملکر بھی زیر نہ کرسکے تھے لیکن جب جرمن افواج نے روس کی جانب پیش قدمی کی تو روس بھی برطانیہ اور امریکہ کے ساتھ شامل ہوگیا تو پھر روس نے جرمن افواج کی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس جنگ کے فوائد برطانیہ کی نسبت امریکہ نے سمیٹے……

برطانوی وزیر اعطم چرچل اور انکی کابینہ کے سوال و جواب سے جو سبق حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ بیرونی دشمن جتنے بھی جدید ہتھیاروں سے لیس ہو کر حملہ آور ہو وہ شکست وریخت سے دوچار نہیں کرسکتا ،اور اسکے برعکس وہ نہتے عوام جو حکومتوں کی پالیسیوں سے بیزار اور انکی بیڈ گورنس سے نالاں ہوں ، حکومتی فیصلوں اور اقدامات سے غیر مطمئن ہوں وہ دشمن سے کہیں زیادہ نقصان پہنچا سکتے ہیں، کیونکہ دشمن مایوس اور نالاں عوام کو آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے میں کامیاب ہوسکتا ہے اس بات کے قوی امکانات موجود رہتے ہیں کہ عدالتوں کے ستائے ہوئے بے بس و مجبور عوام دشمن کی افواج کے استقبال کے لیے اپنی آنکھیں بچھا سکتے ہیں ،انہیں گلے لگانے کے لیے اپنی بانہیں کھول سکتے ہیں۔
ہم اور ہمارے حکمران ان حقیقتوں سے بے خبر نہیں، ہمیں اس کا بہت تجربہ اور مشاہدہ ہے عوام کے حقوق غضب کرنے،انہیں انصاف فراہم نہ کرنے، ان کے معاشی و اقتصادی حقوق نہ دینے اور سیاسی مطالبات کو دبائے رکھنے کے نتیجہ میں دشمن نے ان کے تعاون سے جو زخم ہماری روح اور جسم پر لگائے ان کے نشان ابھی تک ہمارے جسموں پر نقش ہیں……ہماری روحیں مشرقی پاکستان میں کھیلے گئے دشمن کے کھیل کی کہانیوں کے ذکر سے لرز اٹھتی ہیں، سولہ دسمبر1971 کا دن ہر سال ہمیں اس بات کی یقین دہانی کروانے آتا ہے کہ بیرونی دشمن سے مقابلہ کے لیے بے شک اپنی تیاری رکھیں، ایٹمی ہتھیاروں سمیت جدید سے جدید تر اسلحہ کے انبار لگا لیں مگر عوام کے حقوق دبانے کی حماقت نہ کریں کیونکہ یہ مجبور، بے بس اور لاچار عوام میں بڑی طاقت ہوتی ہے ۔

میں کہنا چاہتا ہوں کہ اس ملک کو باپ دادا کی جاگیرسمجھنے والے بیوروکریٹس، فوجی آمروں اور انکے پٹھو ابن الوقت سیاستدانوں کو سر چرچل کی دانائی اور حکمت سے بھرپور باتوں سے راہنمائی لینی چاہیئے اور اپنے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے عوام پر سستے اور فوری انصاف کے دروازے بند نہ کریں بلکہ انہیں ’’وا‘‘ رکھنے کے لیے اقدامات کیے جائیں تاکہ ایک اور ’’ سولہ دسمبر‘‘ کے رونما ہونے سے بچا جا سکا…… میں جانتا ہوں کہ میری ان باتوں کا کسی پر کوئی اثر نہیں ہوگا بلکہ الٹا میرا ہی تمسخر اڑا جائیگا……یہاں میں لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس عزت ماب جناب منظور حسین ملک نے گذشتہ دنوں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’انصاف فراہم نہ کرنے والے معاشرے تباہ ہوجاتے ہیں‘‘ بے شک انساف عدالتوں نے فراہم کرنا ہوتا ہے لیکن عوام کو انصاف دلانے کے حالات اور اقدامات تو عدالتوں نے نہیں کرنے…… یہ انتظامی امور میں آتے ہیں اور حکومت نے ہی عوام کو جان و مال کے تحفظ کی ضمانت دینی ہوتی ہے۔

کئی سالوں سے دہشتگردوں کے ہاتھوں سے موت کے منہ میں جانے والوں کے علاوہ بھی روزمرہ زندگی میں حادثات ،لرائی جھگڑوں ،زن ،زر اور زمین کی دشمنیوں کے باعث ہزاروں لوگ موت کے گھاٹ اتارے جاتے ہیں خود کشیاں کرنے والے ان سے الگ تھلگ ہیں ان مقدامات میں عدالتوں کے چکر لگاتے لگاتے لوگوں کی عمریں بیت جاتی ہیں اور بے شمار ایسے مدعیوں کی کہانیاں موجود ہیں جو انصاف طلب کرتے کرتے خود حقیقی عدالت میں جا پہنچے…… پچھلے مہینوں لاہور کی شاہراہ پر ایک نوجوان ……کو قتل کر دیا گیا……قاتل ایک خارجہ امور کے سابق و زیر مملکت صدیق خان کانجو کا فرزند ارجمند تھا،قتل کی واردات کے وقت مصطفی کانجو نشے میں چور چور تھا…… عوامی احتجاج پر پولیس نے ملزم کو گرفتار تو کرلیا مگر عدالت میں گواہان کو گواہی دینے کے لیے نہ لاسکی……درجنوں عینی شاہدین اپنے بیانات سے منحرف ہو گئے نتیجہ میں مجبورا عدالت کو ملزمان کو باعزت بری کرنا پڑا۔آپ سوچتے ہوں گے کہ وہ کیوں ؟

وہ اس لیے کہ سابق وزیر مملکت امور کارجہ اپنے لخت جگر مصطفی کانجو کو پھانسی پر جھولتا دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے سو انہوں نے اپنے فرزند ارجمند کو پھانسی گھاٹ جانے سے بچانے کے لیے اپنا اثر ورسوخ اور اپنی طاقت ،دولت استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ……اس نے سوچا کہ اگر آج میری دولت اور طاقت بیٹے کو پھانسی لگنے سے بچانے کیکام نہیں آئے گی تو کس کام آئے گی،دوسری طرف مسلم لیگ نواز کی قیادت اور حکومت صدیق خان کانجو سمیت بہت سارے بااثر شخصیات کالودھراں میں ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف کے امیدوار کی حمایت کے فیصلے سے پریشان تھے، حکومت خصوصا وزیر اعظم نواز شریف لودھراں کی نشست کھونے کا ارادہ نہیں رکھتے چنانچہ حکومتی سطح پر صدیق خان کانجو سے رابطہ کیا گیا اور گواہان اور مدعی کو خاموش کرانے کی صورت میں حکومت بھی ’’اپنے لب سی لے گی‘‘ پر اتفاق رائے ہوا چنانچہ صدیق خان کانجو اور انکے رفقائے کار نے مدعی مقدمہ اور گواہان کو بھاری پیش کش کی اور ’’ ناں‘‘ کی صورت میں نتائج بھگتنے کے لیے تیار رہنے کی ’’تڑیاں‘‘ بھی لگائی گئیں……پھر مدعی اور گواہان نے عدالت میں گواہان کو شناخت کرنے سے انکار کردیا سو عدالت نے انہیں بری کرنے کا فیصلہ سنایا…… اس سارے کھیل میں زیب روف کے قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے تک چین سے نہ سونے کے وعدے اور دعوے کرنے والے کہیں دکھائی نہیں دئیے لیکن صدیق خان کانجو ،مصطفی کانجو سمیت حکمرانوں کو بھی یاد رکھنا ہوگا کہ ایک عدالت اور بھی ہے جہاں مک مکا نہیں چلتا بس فیصلہ اور انصاف ہوتا ہے اور وہ عدالت حاکم الحاکمین کی عدالت ہے اور وہیں اس عدالت کا جج ہے ۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144554 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.