بلدیاتی انتخابات اور پاکستانی قوم
(Aqeel Ahmed Khan Lodhi, )
دوسرے مرحلہ میں 19نومبر کو ہونے
والے انتخابات کے سلسلہ میں مختلف شہروں سیاسی سرگرمیاں تیز ہوگئی ہیں
امیدواروں کے ڈیروں پر خوب ہلا گلا ہوتا ہے ۔ عوام کوتو جیسے نومبر کی سرد
شامیں اور راتیں مل بیٹھ کر گزارنے کا ایک بہانہ مل گیا ہے اور اوپر سے مفت
میں کہیں فاسٹ فوڈز تو کہیں جلیبیاں اور ڈرائی فروٹ اڑانے کاتو اپنا ہی مزہ
ہے۔۔۔۔۔سیاسی ڈیروں پر رات گئے تک خوب رش رہتا ہے۔ بلدیاتی انتخابات میں
حصہ لینے والے امیدواروں اور حمایتیوں کی طرف سے سیاسی ڈیروں پر بھائی چارے
کی فضاء سے آپس میں پیار محبت کی فضا پروان چڑھ رہی ہے (کہیں نئے جھگڑے بھی
جنم لے رہے ہیں)۔بعض بزرگ تو یہ کہتے دکھائی دیتے ہیں کہ بلدیاتی انتخابات
نے ان دنوں کی یادیں تازہ کردی ہیں جب کسی دیہات میں شام کے وقت سبھی لوگ
ایک جگہ اکٹھے ہو کر اپنا دکھ درد بانٹتے تھے اوراپنا بوجھ ہلکا کرلیا کرتے
تھے۔ بلدیاتی انتخابات کی ہی مہربانی ہے کہ وہ لوگ جو دروازوں پر آنے والے
سائلین کیلئے گھر سے نکلنا بھی گوارہ نہیں کرتے تھے اور سائلین کو ٹرخانے
کیلئے بچوں کو دروازوں پر بٹھا کرجھوٹ کا سہارا لیا کرتے تھے ۔۔۔ بلدیاتی
انتخابات ان دنوں علاقوں کے معززین (امیدواران) رات گئے پہلی دستک سے بھی
قبل باہر آکر دروازے پر آنے والوں کی خیریت یوں دریافت کرتے ہیں کہ جیسے وہ
ان کی راہ میں ہی آنکھیں بچھا کر بیٹھے ہوں۔۔۔اور شاعر کے ساتھ پیشگی معذرت
دروازوں پر بلاتاخیر،بلا تامل آنے والے امیدوارکچھ اس طرح کی مثال بنے نظر
آتے ہیں کہ جیسے اظہار کررہے ہوں’’ تیری راہوں میں کھڑے ہیں دل تھام کے،
فقط ہم ہی تو بندے ہیں تیرے کام کے‘‘مختلف ڈیروں پرشام ہوتے ہی دیگیں چڑھا
لی جاتی ہیں۔۔۔کھٹ کھٹ چمچ دیگ میں کھڑکتا ہے تو دل کے تار بج اٹھتے ہیں
مختلف مصالے دار پکوانوں کی دور دور تک خوشبو جاتی ہے تو دوسرے تیسرے محلے
کے حمایتی بھی خودی سیاسی ڈیروں پر کھچے چلے آتے ہیں۔ ووٹر تو ووٹر رہے
بلدیاتی انتخابات کی اس صورتحال سے سب سے زیادہ لطف اٹھا رہے ہیں بچے اور
وہ نوعمر جوان جن کے ابھی شناختی کارڈ بھی نہیں بنے گو حق رائے دہی استعمال
نہ کرسکنے والایہ طبقہ بلدیاتی امیدواروں کے ڈیروں سے ضیافتیں اڑانے میں سب
سے آگے آگے ہے مگر کھایا پیا ہضم کیا والا مقولہ یہاں درست دکھائی نہیں
دیتا کہ یہ بچے ان ضیافتوں کے عوض امیدواروں کے حق میں گلا پھاڑ نعرے بلند
کرتے اور نعروں میں مخالفین کی ایسی تیسی کردیتے ہیں ایسے میں ان بچوں کو
جمہوریت کا بھی کوئی سبق یاد نہیں رہتا اور ان کے اپنے ایجاد کردہ نعرے
مخالفوں کی سماعتوں سے جب ٹکراتے ہیں تو ان کا خون کھول اٹھتا ہے۔ کانٹوں
کی طرح سماعتوں کو چبھتے ان نعروں کا مخالفین کی طرف سے نعروں کی صورت میں
جواب بھی دیا جاتا ہے تو کہیں شکایات اور گلہ کے علاوہ بات لڑائی جھگڑا پر
بھی پہنچ جاتی ہے اور اکثر خطرناک دھمکیوں کا سلسلہ چلتا دکھائی دیتا
ہے۔دوسری طرف امیدواروں کے سپورٹران میں ایسے کرداربھی شامل ہوتے ہیں جو
لگائی بجھائی سے کام لیکر اپنا الوسیدھا کرتے ہیں اور ایک امیدوار کے ڈیرے
سے اٹھنے کے بعد نظر بچا کر دوسرے امیدوار کے پاس جا بیٹھتے ہیں اورپھر ہر
امیدوار کوایسے کردارکی طرف سے یونہی باور کروایا جاتا ہے کہ جومعلومات اس
کے پاس ہیں فقط انہی کے سہارے مخالف امیدوار الیکشن ہار جائے گا اوراس کے
قائل کرنے پر لوگ جوق در جوق ووٹ کاسٹ کرنے آئیں گے۔ ایسے کرداران دنوں
اپنے تئیں لوٹ مار کی سیل لگائے بیٹھے ہیں 500،ہزار ، دوہزار فی چکر کسی
بہانے اینٹھتے اور گھر کو چلے بنتے ہیں سمجھتے ہیں کہ امیدوار بڑا بھولا ہے
اور وہ ان کے فریب کو نہیں جانتا امیدوار اپنے طور پر انہیں کرایے کا ایک
ووٹ سمجھ کر درگزر سے کام لے رہا ہوتا ہے۔دوسری جانب وہ لوگ جنہیں اپنی
تشہیر کازندگی بھرکوئی موقعہ میسر آنے کی امید نہ تھی ان دنوں وہ بھی زندگی
کے مصروف ترین ایام اپنے مشن کی تکمیل میں گزارتے ہوئے نہال دکھائی دیتے
ہیں امیدواروں کی تصاویر کیساتھ اپنی مختلف انداز میں بنوائی گئی سٹائلش
تصویروں لگوا کر اپنے جذبات کو بھرپور تسکین پہنچا رہے ہیں اپنی ہی
تصاویروں پر پھر ان تصاویروں میں آزمائے گئے پوزوں پر گھنٹوں بحث ہوتی ہے
ایک امیدوار پوسٹر لگا کرجاتا ہے تو دوسرے کا حمایتی آنکھ بچا کر پھاڑ بھی
جاتاہے پوسٹروں کی تنصیب کا عالم یہ ہے کہ جیسے کھوے سے کھوا چھل رہا ہو۔
اس طرح ان دنوں لوگوں کی زندگیوں کے دن انتہائی مصروفیت میں گزر رہے
ہیں۔امیدوار وں کی بات کی جائے تو وہ ووٹروں کے دل جیتنے کے ساتھ چودھراہٹ
ثابت کرنے کا بھی ہر ہر جتن کررہے ہیں کہیں درخواست تو کہیں تاکید سے کام
لیا جارہا ہے گھر گھرجا کر دستک دیکر ووٹروں کو باپ دادا کے وقت کے تعلق
جتا کر کام چلایا جارہا ہے بیشتر کے پاس کوئی انتخابی منشور نہیں سوائے اس
کے کہ وہ تھانہ کچہری کے کسی کیس میں ماضی میں مدد کی یاد دلوا کرآئندہ بھی
تھانہ کچہری سے بچانے کی نوید سنا کرجاتے ہیں۔ انتخابی ڈیروں پر آنے والے
ووٹروں اور سپورٹروں کی خوب تواضع بھی کی جارہی ہے اور ڈیرے پر حامیوں کی
تعداد دیکھ کر امیدوار آنکھ میں جیت کے خواب سجائے بیٹھے ہیں۔کہیں جلسوں کا
انعقاد ہوتا ہے تواپنے آپ کو فرشتہ صفت، انسان دوست ثابت کرنے میں کوئی کسر
باقی نہیں رکھی جاتی اورمخالف امیدواروں کے خلاف وہ زہر اگلا جاتا ہے کہ ہر
لفظ دوسرے کی اخلاقی موت کا سامان لئے پھرتا ہے۔ کل تک ہر برے کام کے ساتھی
آج مخالفت میں ایک دوسرے پر وہ کیچڑ اچھال رہے ہیں کہ خدا کی پناہ!!!۔امیدواروں
کی ایسے خیالات جان کر لگتا ہے کہ ہمارے ہاں جمہوریت ایک دوسرے کو گالی
گلوچ ،لڑائی جھگڑاکرنے اور بلاوجہ،بلاجھجک اخلاقیات کی حدیں پار کرنے کا
دوسرا نام ہے ہمارے ووٹر بھی صرف اس بات پر خوش ہیں کہ کل تک علاقہ کا جو
غنڈہ یا بدمعاش چوہدری اسے منہ نہیں لگاتا تھا آج وہ چوہدری یا بدمعاش(
اپنے کسی بیٹے بھائی یا ذاتی سیاسی کمپین کی خاطر) اسے پاس بٹھانے لگ گیا
ہے بھائی جی چاچا جی ماما جی کے القاب ان چوہدریوں اور غنڈوں کے منہ سے سن
کر یقیناجو روحانی خوشی ہمارے ایسے نادان ووٹرز کو ہوتی ہوگی بلاشبہ میں اس
کا ادراک نہیں کرسکتا اور ایسے میں ملکی حالات کی بہتری کی بھی کوئی توقع
نہیں رکھتا کہ جو آج انتخابات جیتنے میں لاکھوں کروڑوں روپے بہارہا ہے وہ
نام نہاد عوامی خادم کل کس طرح کرپشن سے پاک رہ سکتا ہے مگرتعلیم، صحت، عزت،
امن وامان، روزگار سے عاری اس معاشرہ بالخصوص دیہی علاقوں میں کھڑا گندہ
پانی ، ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، پینے کے صاف پانی کی قلت جیسے مزیدبنیادی مسائل
کی موجودگی میں ووٹروں سپورٹروں اور امیدواروں کی آنیاں جانیاں اور کسی ایک
مقام پر گھل مل کر خوش ہونے والی ، ایک دوسرے سے معلومات شیئر کرنے والی
روایتی اقدار کی بحالی (عارضی ہی سہی) سے میں ضرور خوشی محسوس کرتا ہوں۔اﷲ
تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور یہ ملک کسی طرح ترقی کی راہ پرچل نکلے آمین
ثم آمین! |
|