ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
میں بہت بڑا رائیٹر تو نہیں مگر علامہ محمد اقبال کی حیات کے بارے میں کچھ
سرسری سا لکھ رہا ہوں ۔مفکر اسلام ، شاعر مشرق، حکیم الامت ، مصور پاکستان
ڈاکٹر علامہ محمد اقبال 9 نومبر 1877 ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 9
نومبر کو اقبال ڈے کے نام سے جانا جاتا ہے۔ آپ کے والد ماجد کا نام شیخ نور
محمد تھا ۔ آپ کا آبائی وطن کشمیر تھا آپ کے آباؤ اجداد کشمیری پنڈتوں ’’سپرو‘‘
گوتھ سے تعلق رکھتے تھے۔ علامہ محمد اقبال کے والد ماجد نیک سیرت پاک باز
اور صوفی منش انسان تھے۔ اس خاندان کو اسلامی تعلیمات اور تصوف سے گہرا
لگاؤ تھا۔ علامہ محمد اقبال کا تعلیم سے گہرا لگاؤ تھا ابتدائی تعلیم
سیالکوٹ سے حاصل کی اور بی ۔اے کا امتحان لاہور سے پاس کیا ۔فلسفہ میں
ایم۔اے کیا جہاں آپ کو پروفیسر ٹامس آرنلڈ جیسے استاد ملے۔ جنہوں نے آپ کی
صلاحیتوں کو بھانپ لیا اور آپ پر خصوصی توجہ دینا شروع کی۔ آپ گورنمنٹ کالج
لاہور میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر فائز رہے ۔مگر آپ میں آگے بڑھنے اور
کچھ کر دکھانے کا ولولہ تھا۔ آپ1905 ء میں انگلستان چلے گئے ۔کیمبرج یونی
ورسٹی سے فلسفہ اخلاق میں ڈگری حاصل کی ۔ صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ
میونخ یونی ورسٹی سے پی ۔ایچ ۔ ڈی کی اعلیٰ ڈگری لے کر تعلیم کو اوج کمال
تک پہنچا دیا۔یورپ سے قانون کا مطالعہ کیا اور بیرسٹری کی ڈگری بھی حاصل کی
اسکے علاوہ لندن سکول آف پولیٹیکل سائنسز سے بھی یہی سند حاصل کی اور1908 ء
میں کامیاب و کامران ہو کر ہندوستان واپس لوٹے۔آپ نے واپس آ کر دوبارہ اپنی
پروفیسری سے طالبعلموں کو فیضیاب کیا اور پھر آپ نے وکالت شروع کر دی ۔تھوڑے
ہی عرصے بعد آپ نے شاعری سے بہت زیادہ شہرت حاصل کر لی اور آپ کی شاعری
پورے ہندو ستان میں پھیل گئی۔ آپ مسلمانوں کی بیداری اور اخوت کے لئے شاعری
کرتے ۔ علامہ محمد اقبال فرماتے ہیں۔
اخوت اس کو کہتے ہیں چبھے کانٹاجو کابل میں
تو ہندوستاں کا ہر پیر و جواں بے تاب ہو جائے
علامہ محمد اقبال وہ مرد درویش تھے جن کے اشعار مشرق و مغرب دونوں میں
انقلابات کی تمہید ثابت ہوئے۔ انقلاب ایران کا موقع ہو یا افغانستان میں
سویت یونین کی شرمناک حرکات موجودہ جہاد کشمیر کی تحریک ہو یا عالم اسلام
میں پیدا بیداری کی لہر ان سب میں کلام اقبال کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اور
امت مسلمہ کی رہنمائی کے لئے ہمیشہ رہے گا۔ انہوں نے اپنے اشعار و افکار سے
امت مسلمہ کو خواب غفلت سے بیدار کیا ۔ علامہ محمد اقبال 1930 ء کے بعد
بیمار رہنا شروع ہو گئے اور 21 اپریل 1938 ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔
اقبال مسلمانوں کی یکجہتی پر کچھی یوں فرماتے ہیں :
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لے کر تابہ خاک کاشغر
اقبال ظالمانہ نظام حکومت کے خلاف کچھ یوں فرماتے ہیں:
اٹھو مری دنیا کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے درو دیوار گرا دو
علامہ محمد اقبال کے قریبی خادم بتاتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک ملتان کے صوفی
علامہ محمد اقبال سے ملنے آئے ۔علامہ محمد اقبال سے ملنے کے بعد انہوں نے
کہا کہ آج خواب میں مجھے حضرت محمد ﷺ نے پوچھا کہ آج عشاء کی جماعت میں
اقبال نہیں آیا ۔ واقعی اس دن علامہ محمد اقبال نے عشاء کی نماز چھوڑی تھی
۔اس واقعہ کے بعد علامہ محمد اقبال نے خوشی سے سارا دن ڈھول بجایا اور اس
کی تاپ پر ناچتے رہے کہ میرا نام بھی حضور ﷺ کی لسٹ میں موجود ہے ۔
اقبال ایک سچے عاشق رسول بھی تھے ۔عشق رسول ﷺ میں کہا گیا شعر
کی محمد ﷺ سے وفا تونے کہ ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح وقلم تیرے ہیں
علامہ محمد اقبال کی شخصیت کے ہر پہلو کو یہاں بیان کرنا نا ممکن ہے اور
مجھ جیسے کم علم کے لئے بہت مشکل ہے ۔ بس ضرورت اس امر کی ہے کہ یوم اقبال
کے موقع پر اہل وطن عزیز اپنی قومی و ملی شاعر کے افکار کو سمجھیں اور اپنے
لئے مشعل راہ بنائیں ۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں فیڈرل حکومت نے اقبال ڈے کی عام تعطیل ختم کر کے سارے
اداروں کو اپنے کام جاری رکھنے کا حکم دیا کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ اچھا
اقدام ہے مگر مجھے اس اعلان کو سنتے ہوئے مایوسی ہوئی ۔آیا ہمارے قومی ہیرو
علامہ محمد اقبال جو مسلمان کی بیداری کی نظمیں اور اشعار لکھتے جنہوں نے
مسلمانوں اور پاکستانیوں کی رہنمائی اپنی شاعر ی کے ذریعے کی ۔کیا ہمارے
پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ ہم ان کی ولادت کے دن انہیں یاد کر سکیں؟ ان کے
فلسفے کو دہرا سکیں ۔ ان کی شاعری پر نظر دوڑائیں ہمارے بہت سارے نوجوان
ایسے ہیں جنہیں اقبال کی حیات حتی کہ اقبال کی ولادت کے دن کا بھی صحیح علم
نہیں ۔ یہی ایک عام تعطیل ہی ذریعہ تھا کہ جس کے ذریعے ہم اپنی آنے والی
نسل اور نوجوانوں کو اقبال کی پیدائش اور فلسفہ کی یاداشت ہر سال کرواتے
رہیں ۔ مگر حکومت اس عام تعطیل کو بھی ختم کر دے تو ہمارے نوجوان اقبال اور
اس کے فلسفہ سے نا شناس ہو جائیں گے۔میں عمران خان اور خیبر پختونخواہ
حکومت کے عام تعطیل کے فیصلہ کو سراہتا ہوں ۔فیڈرل گورنمنٹ کا یہ فیصلہ خوش
آئن نہیں۔ اس بار تو جو بھی ہوا سو ہوا برائے مہربانی آئندہ سالوں میں ان
چیزوں کو مد نظر رکھیں اور اپنے قومی ہیرو کو یاد رکھیں ۔ یہ وہی اقبال ہیں
جنہوں نے اپنے مشہور خطبہ الہ آباد میں دو قومی نظریہ پیش کیا اور ہندوؤں
اور مسلمانوں کو دو علیحدہ قومیں قرار دیا ۔ ایسے ہیرو تا حیات لوگوں کے
دلوں میں گھر کر جاتے ہیں ۔مگر اقبال ڈے کی چھٹی ختم کرنیکا فیصلہ اچھا
نہیں ۔ہمارا بھی فرض بنتا ہے کہ اپنے ہیرو کو یاد رکھیں اور ان کے فلسفہ کو
دہرائیں اور استفادہ حاصل کریں۔ میں علامہ محمد اقبال کے شعر پر ہی اختتام
کرتا ہوں :
انداز بیاں اگرچہ کچھ شوخ نہیں ہے
شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات
|