اسکول یونیفارم

اچھا نظر آنا ہر انسان کی فطری سی خواہش ہوتی ہے اس لئے جو بھی انسان ہوش و حواس اور اور تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھتا ہے وہ گھر میں اور خاص طور پہ گھر سے نکلتے وقت سر سے پاؤں تک خود کو خوبصورت یا کم از کم بہتر نظر آنے کا اہتمام ضرور کرتا ہے.جگہ اور موقع کی مناسبت سے لباس کااستعمال ہر غریب امیر اپنی حیثیت اور اوقات کے مطابق کرتا ہے. اسی طرح مختلف اداروں میں جو مخصوص مقاصد کے لئے بنائے جاتے ہیں وہ اپنی شناخت , ڈسپلن , ضرورت , چاک و چوبند رہنے , ایک جیسے نظر آنے کے لئے , یونیفارم کو لاگو کرتے ہیں. جس طرح ہماری بری , بحری اور فضائی افواج کے ایک سپاہی سے لے کر چیف تک ایک مخصوص لباس ( یونیفارم ) میں نظر آتے ہیں.

تعلیمی اداروں میں صدیوں سے یونیفارم کا رواج ہے. مختلف اسکول و کالجز میں کسی نہ کسی رنگ و ڈیزائن کی یونیفارم لاگو ہے. طلباء اور طالبات کی مخصوص پہچان انکی خوبصورت یونیفارم ہی نمایاں کرتی ہے.پاکستان میں ایک عرصہ سے بنکوں اور مالیاتی اداروں، پیٹرول پمپس , ہوٹل اور ریستوران تک میں مخصوص لباس ( ڈریس کوڈ ) یا یونیفارم کا رواج چل رہا ہے. اسکول کالج میں جہاں کسی زمانے میں شلوار قمیض کا رواج تھا , ملیشیا یا رنگدار شلوار سوٹ کی جگہ اب پینٹ شرط لاگو ہے خاص طور پر صوبہ پنجاب میں دیہات تک کے گورنمنٹ کے سکولز بھی بچوں کے لئے پتلون اور شرٹ یونیفارم کا حصہ ہے. اسکول کی حد تک خاص طور پر رورل ایریا میں یونیفارم یوں بھی بہت ضروری ہے کہ یہاں غریب طبقہ اکثریت میں ہوتا ہے. غریب بچے عام لباس کی ورائٹی اور مقابلہ کا حصہ نہیں بن سکتے اسلئے ایک جیسی یونیفارم انھیں کسی احساس کمتری کا شکار ہونے سے بچا لیتی ہے.

ایک زمانہ تھا جب اساتذہ بھی اسکول کے اوقات میں اپنے لباس کو بہت اہمیت دیتے تھے. شیروانی , واسکٹ , کوٹ یا مکمل سوٹ , ٹائی کا استعمال کیا جاتا تھا. اب بھی کچھ اساتذہ لباس کو اہمیت دیتے ہیں. اور مدبرانہ پہناوے میں ہی اسکول و کالج میں اپنی خدمات دیتے ہیں. تعلیمی اداروں خاص طور پر پرائمری اور مڈل کی سطح پر اساتذہ کے لباس کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ اس سطح کے بچے استاد کی ہر ہر بات , ہر ہر حرکت بغور دیکھتے ہیں بلکہ متاثر ہوتے ہیں. بچوں کی تربیت و رہنمائی میں جہاں استاد کا طریقہ تعلیم اہم ہے وہاں استاد کا لباس اور ظاہری حلیہ بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے. ہمارے ہاں اصول و قوانین تو ہوتے ہیں لیکن ان پر عمل درامد بہت مشکل سے نظر آتا ہے. میری معلومات کے مطابق , اسکول اساتذہ کے لئے قانون کے مطابق " ڈریس کوڈ " موجود ہے. لیکن رورل ایریا میں اس پہ عمل درآمد بہت کم نظر آتا ہے. استاد ہمیشہ ایک رول ماڈل کا کردار ادا کرتا ہے اسلئے میری نظر میں یہ مسئلہ انتہائی اہم ہے. اس میں حرج نہیں کہ پنجاب گورنمنٹ پرائمری اور مڈل کی سطح پر اساتذہ کے لئے بھی یونیفارم لاگو کردے یا کم از کم ایک مخصوص ڈریس کوڈ پہ عمل درآمد کو یقینی بنائے.

بدقسمتی سے ہمارے ہاں زندگی کے ہر شعبہ میں " شہر اور دیہات " میں بہت فرق پایا جاتا ہے. آگاہی کے سارے پروگرام ترقی اور ڈویلپمنٹ کے سارے سیمینارز صرف شہروں کی زینت بنتے ہیں. اسی لئے دیہات کے بچوں میں آگاہی کے ساتھ ساتھ خود اعتمادی کی بھی کمی رہ جاتی ہے. دیہات کے اسکول میں انگریزی اردو نہیں بلکہ لوکل زبان کے استمعال کی وجہ سے پرائمری اور مڈل سے نکلنے والا بچہ ہائی حصہ اور کالج میں پہنچ کر مشکلات کا شکار ہوتا ہے. یونیفارم کے متعلقہ , اساتذہ کے ڈریس کوڈ کا خیال بہت سے گورنمنٹ کے اسکول دیکھنے کے دوران آیا لیکن آج کی " اقبال ڈے " کی کچھ تصاویر دیکھ کر اس خیال کو لکھنے کی ضرورت بھی پیش آ گئی. ڈسٹرکٹ کے تعلیمی سربراہان اور پنجاب گورنمنٹ کو اس مسلے پہ غور ضرور کرنا چائیے.

گورنمنٹ سکولز میں اس وقت غریب کا بچہ پڑھ رہا ہے. جسے پڑھنے کی اپنے پاؤں پہ کھڑا ہونے کی اور اپنے خاندان کی کفالت کی سب سے زیادہ ضرورت ہے. سرکاری سکولوں کے بچوں کی تعلیم و تربیت , بہتر رہنمائی , انکی خود اعتمادی اور انکی شخصیت کو بنانے کی بہت زیادہ ضرورت ہے. سستی تعلیم عام بچوں کی تعلیم اور تعلیم سے محروم بچوں اور انکے والدین کو تعلیم کی طرف راغب کرنے کے لئے " گورنمنٹ سکولز "کو اسی سطح و معیار پہ لانا ہوگا جہاں آج سے پچیس تیس سال پہلے تھے.
Amjad Malik
About the Author: Amjad Malik Read More Articles by Amjad Malik: 2 Articles with 1936 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.