17 نومبر کو کراچی سے عزیزی محمد زاہر نور
البشر کا یہ میسج جسم و روح پر بجلی بن کر گرا کہ ’’بچوں کے ادب کے بین
الاقوامی شہرت یافتہ ادیب اور مجاہد ختم نبوت جناب اشتیاق احمد اب ہم میں
نہیں رہے۔‘‘ مت پوچھ کہ دل پر کیا گزری؟ مرحوم جناح انٹرنیشنل ایئر پورٹ
(کراچی) پر حرکت قلب بند ہونے کے سبب راہی ملک عدم ہوئے۔ وہ 71 سال کے تھے۔
18 نومبر کو جھنگ صدر میں ان کی تدفین عمل میں آئی۔ مرحوم ایک خود دار اور
سادہ مزاج آدمی تھے۔ ان کے اندر بے حد عاجزی و انکساری پائی جاتی تھی۔ عجیب
اتفاق ہے کہ معروف برطانوی شاعر اور ڈرامہ نگار ولیم شکسپیئر اور مرحوم
اشتیاق احمد میں کئی ایک مماثلتیں ہیں۔ مثلاً دونوں میٹرک پاس، دونوں کی
تحریروں نے اپنے اپنے معاشرے پر گہرے نقوش ثبت کیے، معاشی طور پر دونوں نے
شروع میں نہایت غربت کی زندگی گزاری لیکن ہمت نہ ہاری، دونوں نے بین
الاقوامی شہرت پائی، دونوں نے اپنے بے شمار پرستار پیدا کیے، دونوں کی وفات
پر ادبی خلاء پیدا ہوا۔
اشتیاق احمد مرحوم روزنامہ اسلام کے معروف میگزین ’’بچوں کا اسلام‘‘ کے
مدیر تھے۔ یاد رہے کہ بچوں کا ادب تخلیق کرنا نہایت جاں گسل کام ہے۔ یہ ہر
کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ وہ یہاں تقریباً 13 سال تک اپنی خداداد
صلاحیت کے جوہر بکھیرتے رہے جس کے اثرات صدیوں تک قائم رہیں گے۔ یہ وہ
میگزین ہے جس کے مطالعہ سے اشتیاق صاحب کی ہفت پہلو شخصیت قاری پر آشکار
ہوتی ہے۔ انہوں نے سیکڑوں ناول اور کتابیں تصنیف کیں۔ اِس لحاظ سے اُن کا
نام ’’گینز بک آف دی ورلڈ‘‘ میں آنا چاہیے۔ اُن کی ہر کتاب کو ادبی حلقوں
میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اُنہیں تحفظ ختم نبوت سے جنون کی حد تک
محبت و عقیدت تھی۔ اُن کے ناول ’’جابانی فتنہ، باطل قیامت اور وادیٔ مرجان‘‘
حیرت انگیز طور پر قادیانیت کے خفیہ گوشوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ تھالی کے
بینگن نامی کتاب پڑھنے کے لائق ہے۔ جس سے قادیانیت کے بارے میں بے حد
معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ ’’بچوں کا اسلام‘‘ کا ختم نبوت نمبر ایک شاہکار
کارنامہ ہے جس پر وہ قومی ایوارڈ کے مستحق ہیں۔ اِس نمبر کی ہر تحریر پڑھنے
سے تعلق رکھتی ہے۔ اِس موضوع کا انتخاب اُن کی محبت رسولﷺ کا منہ بولتا
ثبوت ہے۔
گذشتہ سال لاہور میں اُن سے ایک یادگار ملاقات ہوئی جس کی حلاوت شائد میں
عمر بھر نہ بھلا سکوں۔ اِس ملاقات میں فتنہ قادیانیت سے متعلق بڑی سیر حاصل
گفتگو ہوئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے کتب بینی کا شوق بچپن میں آپ کے
جاسوسی ناول پڑھنے سے ہوا۔ آپ کی تحریروں میں اِس قدر تجسس، کشش اور سسپنس
ہوتا ہے کہ جب تک پورا ناول ختم نہ کر لیا جائے، چین نہیں آتا۔ اُن کی بہت
بڑی دلی خواہش تھی کہ تمام جدید ذرائع استعمال کرتے ہوئے نوجوانوں بالخصوص
طالب علموں کو فتنہ قادیانیت اور تحفظ ختم نبوت کے بارے میں زیادہ سے زیادہ
معلومات بہم پہنچائی جائیں تاکہ اُن کا ایمان محفوظ رہے۔ میں نے اُنہیں
اپنی کتابوں کا سیٹ پیش کیا جس پر اُن کی خوشی دیدنی تھی۔ انہوں نے احقر کی
بے حد پذیرائی اور حوصلہ افزائی کی۔ بالخصوص ’’ثبوت حاضر ہیں‘‘ دیکھ کر
فرمانے لگے کہ ’’یہ کتاب آپ کی اُخروی نجات کے لیے کافی ہے‘‘۔ میرے لیے یہ
الفاظ ایک اعزاز سے کم نہیں۔
جناب اشتیاق احمد مرحوم کا شمار اسلام اور پاکستانی کی نظریاتی سرحدوں کے
محافظین میں ہوتا ہے۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا۔ اِس کا نام
اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے۔ اِس کا ڈھانچہ اسلامی اصولوں پر استوار کیا گیا
ہے۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ’’اسلام ہماری
زندگی اور ہمارے وجود کا بنیادی سرچشمہ ہے۔ ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین
کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ
حاصل کرنا چاہتے تھے جہاں اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔ (اسلامیہ کالج،
پشاور، 13 جنوری 1948ء) لطیفہ یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف اپنے
سابقہ دورِ حکومت میں ’’خلیفہ المسلمین‘‘ بننا چاہتے تھے اور اب حال ہی میں
پاکستان کو لبرل بنانے کا اظہار کر چکے ہیں۔ اِسے کہتے ہیں ’’ماروں گھٹنا
پھوٹے آنکھ‘‘۔ لبرل پاکستان بنانے کی ناپاک سوچوں کا خمیازہ ہم سب بھگت رہے
ہیں۔ ہماری نوجوان نسل تیزی سے تباہ و برباد ہو رہی ہے۔ حال ہی میں سپریم
کورٹ آف پاکستان کے جسٹس امیر ہانی مسلم نے فیس بک پر لڑکیوں کو بلیک میل
کرنے والے ملزم کی ضمانت خارج کرتے ہوئے کہا کہ ’’فیس بک نے نئی نسل اور
معاشرے کو خراب کر دیا ہے، گرل فرینڈ کا کلچر ہمارا نہیں۔‘‘ ایسے واقعات کی
روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ تعلیمی اداروں میں نوجوان نسل کو اشتیاق احمد
مرحوم کے ناول پڑھائے جائیں تاکہ عقائد کے درستگی کے ساتھ ساتھ اُن کی
کردار سازی بھی ہو سکے۔ عجیب بات ہے کہ ہمارے ہاں ہر سال 23 مارچ کو
اداکاروں، گلوکاروں، سیکولر، بے دین اور اسلام مخالف شخصیات کو قومی
ایوارڈز سے نوازا جاتا ہے جبکہ اسلام اور پاکستان سے محبت رکھنے والوں کی
حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔
روزنامہ اسلام اپنے اداریہ میں اشتیاق احمد مرحوم کو خراج تحسین پیش کرتے
ہوئے لکھتا ہے۔ ’’اشتیاق احمد کا شمار ادبی دنیا کی اُن گنی چنی شخصیات میں
ہوتا تھا جن کے نام اور کام سے ملک کا بچہ بچہ واقف ہے اور جن کو بچوں کے
ادب کے معماروں میں شامل سمجھا جاتا ہے۔ اشتیاق احمد نے ایک ہزار سے زائد
ناول تحریر کیے جو بجائے خود ایک تاریخ ساز کارنامہ ہے۔ ان کے ناولوں سے
قوم کی دو تین نسلیں متاثر ہوئیں اور انہیں متعدد قومی اعزازات سے بھی
نوازا گیا تاہم ملک کے دینی حلقوں کے لیے اشتیاق احمد کی شناخت ’’بچوں کا
اسلام‘‘ کے مدیر اور تحفظ ختم نبوت مشن کے ایک سپاہی کی حیثیت سے زیادہ
قابل توجہ و قابل تکریم رہی۔ اشتیاق احمد کے زیر ادارت ’’بچوں کا اسلام‘‘
نے انتہائی کم وقت میں نہایت شاندار ترقی کی اور نونہالان قوم کو اسلامی
تعلیمات پر مبنی صاف ستھرے ادبی مواد کی فراہمی کو پوری دنیائے اُردو میں
زبردست پذیرائی ملی۔ اشتیاق احمد نے گزشتہ 13 برسوں کے دوران ’’بچوں کا
اسلام‘‘ کے ذریعے پوری ایک نسل کی تربیت کا فریضہ سرانجام دیا جو یقینا ان
کے لیے سرمایہ آخرت ہوگا۔‘‘ (18نومبر 2015ء)
جناب اشتیاق احمد کی رحلت کو ایک بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ بچوں کی
تعلیم و تربیت اور کردار سازی کے میدان میں اُن کی وفات سے جو زبردست خلاء
پیدا ہوا ہے، اس کا نعم البدل ملنا بہت مشکل ہے۔ دُعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ اُن
کے حسنات کو قبولیت کا شرف بخشتے ہوئے جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا
فرمائے۔
پیدا کہاں ہے ایسے پراگندہ طبع لوگ؟ |