داعش....استعماری فتنہ

پچھلے چندہفتوں سے جس طرح مسلمانوں کی مغربی ممالک میں غیرقانونی طریقے سے ہجرت کے جومناظردکھائے جارہے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ ان کودیکھ کرہرذی شعودکاسرشرم سے جھک جاتاہے اوربالخصوص ایک شامی بچے کی ترکی کے سمندرکے ساحل پرپڑی لاش نے تو ساری دنیا میں ایک شدید اضطراب پیداکردیاجس کے بعدیورپ کے امیرترین ممالک نے مجبوراً اپنی سرحدوں کوان کیلئے کھول دیالیکن جن مسلمان ممالک نے ان افرادکواپنے ہاں رہنے کی اجازت دی اس کاایک مخصوص متعصب میڈیاگروپ نے آج تک ذکر نہیں کیا۔سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ڈیڑھ لاکھ سے زائدافرادکوصرف سعودی عرب نے پناہ دی ہے۔ ان تمام مجبوروبیکس افرادکواپنے گھروں سے نکلنے کیلئے جہاں ان ملکوں کی حکومتوں کی غلط حکمت عملی نمایاں ہے وہاں دنیاکے سب سے بڑے استعمار نے اپنے حواریوں کی مدد سے عالم اسلام کی تباہی ،انتشاراوراپنے مخصوص اہداف کی تکمیل کیلئے''داعش '' نامی گروپ کواس میدان میں اتاراہے جواب اپنی بے مہار کاروائیوں کی بناء پراپنے آقاؤں کیلئے بھی ایک دردِ سربن گیاہے۔ سننے میں یہ آرہاہے کہ اب مشرقِ وسطیٰ سے نکل کر''داعش''کاوجود اب افغانستان میں بھی سامنے آرہاہے جس سے یقیناً خطے میں اس نئی آفت کا مقابلہ کرنے کیلئے مقامی حکومتیں سرگرم عمل ہیں۔

عین اس وقت جب افغانستان میں اندرونی خانی جنگی کاسلسہ چل رہاہے، داعش اپنے پاؤں افغانستان کے ان حصوں میں پھیلاتی جارہی ہے جوانتہائی بدامنی کا شکارہیں اورجہاں حکومت کی عملداری نہ ہونے کے برابرہے۔وہ بظاہران علاقوں میں اپناتسلط قائم کرکے خطے میں اسلامی خلافت کے قیام کاایک اہم سنگ میل عبورکرنے کی کوشش میں ہے ۔ امریکی استعماراب داعش کے افغانستان میں پھیلاؤ پرمشوش خاطرہے۔اب یہ راز کسی ڈھکاچھپانہیں رہاکہ یہی استعمار شام میں داعش کے پھلنے پھولنے کاذمہ دارہے ۔ استعمار گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے میں سب سے آگے ہے ۔ سچی بات یہ ہے کہ اب اسے داعش کی جانب سے جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں کہ وہ اب ان کے ایجنڈے کو فراموش کرکے خود مختارپالیسی پر عمل پیراہے۔اس صور تحال کااظہاراس نے دیگراستعماری ''معاونین ''سے بھی کیاہے۔

افغانستان میں داعش کی سرگرمیوں کاسراغ ایک سال پہلے ملاتھا۔سب سے پہلے یہ میڈیامیں پھیلنے والی ایک افواہ ہی لگتی تھی ،کسی کے پاس اس کا حتمی ثبوت نہیں تھاکہ داعش افغان سرزمین پرقدم رکھ چکی ہے ۔اس وقت کہا گیاکہ داعش کیلئے افغانستان''ہنوزدلی دوراست''کے مصداق ہے۔بہت سے تجزیہ کاروں کی رائے تھی کہ داعش اس سمت آنے کی حماقت نہیں کرے گی کیونکہ اس خطے کے ملک نہ توشام ہیں اورنہ ہی عراق اورپھراس جنگ زدہ پہاڑی علاقے میں کسی بھی گروہ،چاہے داعش ہی کیوں نہ ہو،کیلئے بیرونی دنیاسے آ کر غلبہ حاصل کرناناممکنات میں سے ہے ۔وقت گزرتارہا،یہاں تک کہ ۲۰۱۵ء کاپہلاچوتھا حصہ تمام ہوا۔افغانستان میں داعش کی موجودگی کی اطلاع''ہے، نہیں ہے '' کے الجھاؤکے درمیان معلق رہی۔

افغان معاملات کے بعض ماہرین نے جودنیاکے اس حصے کے متعلق اپنی معلومات پرفخرکرتے ہیں،بارہااپنی آراء کایہ اظہارکیاکہ یہاں پرداعش دراصل طالبان سے منحرف ہوکر اپنی راہیں الگ کرنے والے جنگجودستے ہیں۔وہ خود کو علامتی طورپرداعش کے ساتھ منسلک کرکے شام اور عراق میں موجود ایک فاصلاتی دارلحکومت سے اپناتعلق جوڑتے ہوئے''روحانی تقویت''کے خواہاں ہیں۔پھرموسم گرماکاآغازہوا،فضامیں تمازت بڑھنے لگی،زمین نرم گرم اور ہوا خشک ترہوئی توطالبان کے بڑھتے ہوئے حملوں کے درمیان داعش کی موجودگی کاارتعاش محسوس کیا جانے لگا۔ ہوا یوں کہ داعش،طالبان کے ساتھ ٹکراتی دکھائی دی،بعض ماہرین کاخیال تھاکہ نظریاتی ہم آہنگی،طالبان اورداعش کوایک صفحے پر لے آئے گی لیکن خونی جھڑپوں نے الائنس کے تمام امکانات ختم کردیئے۔اس کے بعدطالبان کے گڑھ ہلمندسے توجہ ہٹ کر ننگرہارپر مرکوز ہو گئی،یہاں مشہورپہاڑی سلسلہ تورابورا واقع ہے،اس پہاڑی مقام کو القاعدہ اوربن لادن کی وجہ سے عالمی شہرت ملی تھی۔امریکی بمباری سے بچنے کیلئے اسامہ نے یہاں پناہ لی تھی اورامریکی اسے یہاں نشانہ بنانے میں ناکام رہے تھے۔

چاہے اس کی وجہ میڈیاکی غیرمعمولی توجہ تھی یاافغان اشرافیہ کے مخصوص حلقوں کی طرف سے خوفناک خبریں پھیلانے کی پالیسی،اس گروپ نے ننگرہارمیں اپنی موجودگی ظاہرکرناشروع کردی۔کہاگیاکہ اب یہ یہاں نوزائیدہ گروہ نہیں بلکہ تواناہوتاہواایک فعال گروہ ہے۔امریکی ڈرون طیاروں کے سائے میں افغان سیکورٹی فورسزنے علاقے میں کاروائی کی اورداعش میں شامل ہونے والے درجنوں جنگجوؤں کوہلاک کر دیا ۔ اس کے بعدافغان انٹیلی جنس نے ریکروٹس بھرتی کرنے والوں کابھی صفایاکرناشروع کیا۔ حکومت نے اپنے عہدیداروں کوشورش زدہ علاقوں میں بھجوا کریہ تاثرگہرا کرناشروع کردیاکہ افغان سرزمین پراس کامکمل کنٹرول ہے اوریہ کہ اس پراب کسی انتہاپسندگروہ کاسر اٹھانا ممکن نہیں۔ شاید حکومت کاسب سے مثبت کام مقامی سرداروں کواعتمادمیں لے کرداعش سے خبرداررہنے کی مہم تھی۔

یہ حکمت عملی کارگرثابت ہوئی اورافغانستان میں داعش کانمودارہونے والاسر کاٹ دیاگیا۔اس کے کارکنوں کی تعداد نہ ہونے کے برابررہ گئی ۔ شایدملاعمرکی وفات کے بعدطالبان کی صفوں میں پیداہونے والے قیادت کے بحران سے بددل ہوکربھی بعض طالبان دھڑے داعش کی طرف راغب ہوئے تھے لیکن پھریہاں سے بھی ''مثبت پیش رفت'' دکھائی دی جب تمام طالبان اور حقانی نیٹ ورک نے ملامحمداخترمنصورکی قیادت پراتفاق کرلیاچنانچہ داعش کی طرف جانے والوں کی حوصلہ شکنی ہوئی اوریقین کیاجانے لگاکہ داعش کاخطرہ ٹل چکاہے تاہم یہ امیدکے شگوفے وقتی دلاسے ہی ثابت ہوئے۔ یہ ہے کہ جہاں بھی ہو،اس کاپھن آسانی سے نہیں کچلاجاسکتابلکہ اس میں زندگی کی رمق پائی جاتی ہے اوریہ بہت جلداپنے پاؤں پھیلانے کافن جانتی ہے۔حالیہ ہفتوں کے دوران داعش نے اپنی منتشرصفوں کواکٹھاکیا، پہنچنے والے نقصان کاجائزہ لیااورپھر نہائت اطمینان سے ننگرہارمیں ان قبائلی عمائدین کوانتہائی سفاکی سے ذبح کردیا، جن پرانہیں شبہ تھاکہ انہوں نے ان کی نشاندہی کی تھی یاجنہیں افغان حکومت نے داعش پرنظررجھنے کیلئے آمادہ کیا تھااس کے بعد ان کے افغان طالبان کے ساتھ ٹکراؤ کی خبریں بھی آئیں ،بعض خاندانوں کو خواتین سمیت قیدی بنائے جانے کی خبربھی پھیلی۔اس وقت افغان سیکورٹی فورسزجوابی کاروائی کررہی ہیں لیکن ان کی قوت مرتکز نہیں۔ایک توانہیں امریکی فضائیہ کاتعاون حاصل نہیں ،دوسرے ملک کے مختلف حصوں میں طالبان کے ساتھ ہونے والے تصادم کی وجہ سے ان کی اپنی قوت بکھری ہوئی ہے۔گزشتہ چندہفتوں سے طالبان نے قندوزاوردیگرعلاقوں میں دباؤ بڑھادیاہے جس کی وجہ سے افغان سیکورٹی فورسزکوداعش پرپوری توجہ مرتکز کرنے میں دشواری پیش آرہی
ہے۔فی الحال ابھی اس بات کا

تعین کرنامحال ہے کہ آیاحالیہ کاروائیوں سے داعش کے اپنے قدم مضبوط کرنے کاتاثرملتاہے یایہ وقتی ابال ہے؟دراصل افغانستان داعش کیلئے''قدرتی بھرتی''کاآپشن نہیں کیونکہ یہ علاقے پہلے ہی جنگجوگروہوں میں''خودکفیل''ہے،یہاں کسی درآمدشدہ گروہ کی گنجائش مشکل ہی سے نکلتی ہے۔القاعدہ کی بات اورتھی کیونکہ اس تنظیم نے یہاں ایک طویل عرصے تک سرمایہ کاری کی تھی،اب داعش کوتوصرف ایسے ہی افرادملیں گے جوموجود دھڑوں سے بدظن ہوجائیں یاداعش انہیں زیادہ رنگین خواب دکھانے میں کامیاب رہے۔

خدشہ یہ ہے کہ طالبان سے الگ ہونے والے افرادداعش کی طرف مائل ہو سکتے ہیں ،کچھ طالبان دھڑے مذاکرات کے خلاف ہوسکتے ہیں توکسی کو ملا اخترمنصورپراعتراض ہوسکتاہے ۔دراصل اب یہ ایک پیچیدہ ترسیاسی مسئلہ بن چکاہے کہ داعش کی موجودگی کے دباؤ کی وجہ سے افغان جنگجو یا حکومت اپنی پالیسی کس طرح بنائیں،دونوں کے سرپرخطرے کی تلوارلٹکتی رہے گی کہ ان کی کسی بھی پالیسی سے کوئی بھی ناراض ہوکرداعش کی صفوں میں شامل ہوجائے گا،یہی وجہ ہے کہ افغان عمل کیلئے داعش کوکنٹرول کرناازحد ضروری ہے۔

اگراس گروہ کوپھیلنے سے روکناہے توایک مربوط اوروسیع تر حکمت عملی وضع کرناہوگی۔افغان سیکورٹی فورسزاوران کے عالمی پارٹنرکویقین کرنا ہو گاکہ کیاداعش واقعی اس بات پر سنجیدگی سے یقین رکھتی ہے کہ اس کی فیصلہ کن حتمی جنگ افغانستان کی سرزمین پرلڑی جانی ہے؟کیایہ گروہ افغانستان کواہمیت دیتاہے یاپھراس کی نظرکہیں اورہے اوریہ صرف موقع کی تلاش میں ہے؟جوبھی ہو،افغان حکومت کیلئے ضروری ہے کہ وہ داعش کو کمزورکرنے کی ہرممکن کوشش کرے،اس سے پھیلی ہوئی دہشت اوراس کے پروپیگنڈے کاتوڑکرناہوگا۔دراصل پھیلائی جانے والی دہشت ، داعش کے پاس ایک قوی ہتھیارہے ،اس کی وجہ سے بہت کم گروہ اس کے سامنے کھڑے ہونے کی جرأت کرتے ہیں ۔داعش کو شکست دینے کیلئے اس کی نظریاتی جہت پرکڑی ضرب لگاناہوگی کیونکہ اسے بھرتی کیلئے نوجوان ملتے رہے تو اسے ختم کرناممکن نہیں ہوگا۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ عراق اورشام میں رونماہونے والے واقعات کو افغانستان میں نہ دہرایاجائے۔اس کے ٹھکانوں پرکی جانے والی فضائی بمباری اورسیکورٹی فورسزکی کاروائی کے علاوہ مقامی افرادکوبھی اس کے ہتھکنڈوں سے خبردارکیاجائے۔سب سے اہم بات یہ ہے کہ عوام کوبھی اعتماد ہو۔وقت آگیاہے کہ شام کی گئی غلطیوں کاافغانستان میں اعادہ نہ ہوبلکہ تلافی کی جائے ۔افغانستان میں داعش کے سراٹھانے پراوباما انتظاامیہ سرنیہواڑے امریکی حکمرانوں کے غیریقینی مستقبل پرپریشان ہے ۔ذرائع کے مطابق اس شکست وریخت ،پژمردگی اورسبکی کااظہار اوبامانے اپنے اتحادیوں کے پاکستان کے حکمرانوں سے بھی کیاہے۔وزیراعظم نوازشریف کوایک طرف طالبان کومذاکرات پرآمادہ کرنے کی ''درخواست''کی گئی ہے تودوسری طرف ان کے مخصوص گروہوں کی سرکوبی کاحکم بھی صادرکیاگیاہے۔ داعش بھی نہ صرف اتحادیوں بلکہ پاکستان ایسے''تابع فرمان'' عناصر سے گفتگومیں خاصی موضوع بنی ہے۔لگتاہے اپنے ہی لگائے ہوئے ''داعش''پودے کے متوقع برگ وبار استعمارکیلئے اعصاب شکن محسوس ہونے لگے ہیں۔یقینا وہ سمجھ گئے ہیں کہ داعش استعماری دادودہش کاسامان ہرگزنہ ہوگی۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390373 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.