شاباش عامر خان۔ مگر؟

جتنا چلات ہے اتنا چٹان تھوڑے ہے۔
پچھلے دنوں ایک انٹر ویو میں جس طرح سے مشہور فلم اداکار عامر خان نے حکومت کو آئینہ دکھایا ہے وہ قابل ستائش ہے، تقریبا دو مہینوں سے ’’عدم برداشت اور احساس عدم تحفظ ‘‘کے تحت ملک بھر میں گرم گرم بحث چل رہی تھی۔ لیکن بہار الیکشن کے ختم ہونے کے بعد اس میں کافی حد تک کمی واقع ہو گئی تھی۔ لیکن عامر خان مسٹر پرفیکٹ نے جس طرح سے ملک کے دوسرے سب سے بڑے طاقتور لیڈر ’’ارون جیٹلی ۔وزیر خزانہ‘‘ کے سامنے اپنیبے باکی کا مظاہرہ کیا دنیا اس پر حیران ہے۔ عامر خان کا یہ انٹر نہ صرف ہندستان بلکہ پوری دنیا میں پل بھر میں پھیل گیا اور دنیا نے ہندستان سے سوال پوچھا کہ آخر حکومت والے کیا کر رہے ہیں کہ ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کرنے والے ایسے ہنر مندوں کو ایسے احساس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ہمیں ایسے مسلم جرات مند اداکاروں کے حوصلے کو سلام کرنا چاہئے کہ جب جب ضرورت پڑی ہے مسلمانوں کی آواز اٹھانے کیلئے کھڑے ہوئے ہیں۔ بشمول شاہ رخ خان کہ جب دنیا مسلمانوں کو دہشت گرد بتاتے ہوئے نہیں شرماتی تھی اس وقت کہا کہ ’’ مائی نیم از خان۔ آئی ایم ناٹ اے ٹیررسٹ‘‘۔

عوام اور تجزیہ کار پوری طرح سے عامر صاحب کی باتوں سے اتفاق نہیں رکھتے ۔ میں بھی تقریبا اس معاملے میں کشمکش کا شکار ہوں کہ آخر پچھلے دنوں جس طرح سے ملک میں نرسمہار ہوئے ، ہر آئے دن بہن اور بیٹیوں کی عصمت کے ساتھ کھلواڑ ہوتا ہے۔ ان تمام باتوں پر آج تک کسی کو غیر محفوظ محسوس نہیں ہوا آج ایسا کیوں ہے۔ مجھے اس کے پیچھے چند وجوہات نظر آتے ہیں۔ ورنہ اس بات سے کسی شخص کو بھی انکار نہیں کہ ہندستان جیسا ملک دنیا کے دوسرے حصے میں کہیں نہیں ملتا ۔ یہاں پر اپنے اپنے مذہب کے تشہیر اور فرائض کی انجام دہی کے لئے کسی طرح کا کوئی پابندی عائد نہیں ہے۔ گائے کے گوشت کی پابندی ضرور عائد کر دی گئی ہے لیکن پانچ ایسے چوپائے ہیں جن کے گوشت سے گائے کے گوشت کی کمی کو پورہ کیا جا سکتا ہے۔ ہاں بے چینی حکومت کے کچھ چہیتوں کے عمل کے بعد ضرور ہوجاتی ہے جب بلا سر پیر کے شرپسند لوگ کبھی بھی کہیں بھی توڑ پھوڑ ۔ متشدد احتجاج کرتے ہیں ۔ جیسے کل عامر خان کے گھر کے سامنے کچھ ہندو شدت پسندوں نے کیا ۔اگر حکومت ان پر کنٹرول کرے تو بہتر ہوگا۔
کیونکہ ۔۔۔کسی بھی شہر کے غنڈے بڑے نہیں ہوتے۔۔ دلار کرکے حکومت بگاڑ دیتی ہے۔۔

غیر تحفظاتی احساس کے پیچھے چند ایک وجوہات کا ہونا لازم مانا جا سکتا ہے۔ حکومت این ڈی اے کے آنے سے قبل ۔جیسے ہی تمام سرمایہ داروں کو محسوس ہوا کہ این ڈی اے اقتدار میں آنے کے بعد ’’بلیک منی ‘‘ پر کام کرنے والی ہے ، سرمایہ داروں نے اپنے پیسے روک لئے۔ ان میں سے عامر خان بھی ہیں جو ہر سال کسی ایسی فلم کو نمائش کیلئے پیش کرتے تھے جسے سیکڑوں کروڑ وں روپئے کی لاگت سے بنایا جاتا تھا۔

یہ معاملہ عام لوگوں کیلئے تقریبا شینا بوہرہ مرڈر کیس کی طرح پیچیدہ ہے جس میں کئی سابق شوہر وں کی شمولیت اور کئی ایک کھرب پتیوں کے ملوث ہونے سے انجام پایا۔ اسی طرح اس معاملے میں عرب پتیوں اور کھرپ پتیوں کو جس طرح کا احساس ہو رہا ہے عام لوگوں کو تقریبا ایسا محسوس نہیں ہوتا۔ ٹی وی پر مباحثہ کرنے والوں میں سے جو سیاسی افراد ہیں وہ یا تو حمایت کرتے ہیں یا اس کے مخالف کھڑے نظر آتے ہیں۔ لیکن اگر صحافی برادران یا سماجی کارکن ہیں توان باتوں کا سرے سے انکار کرتے ہیں کیونکہ مشہور شاعر جناب رفیق سعدانی کا ایک شعر تھا کہ۔۔۔
جتنا چلات ہے اتنا چٹان تھوڑے ہے۔
Mutiur Rahman Aziz Azizur Rahman Salafi
About the Author: Mutiur Rahman Aziz Azizur Rahman Salafi Read More Articles by Mutiur Rahman Aziz Azizur Rahman Salafi: 7 Articles with 6497 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.