اربوں روپے کے پیکیج۔۔ لوگ شکوک کا شکار کیوں؟
(Ghulam Murtaza Bajwa, Lahore)
بلدیاتی الیکشن کے ساتھ
ساتھ ملک وقوم کی تقدیر بدل کیلئے وزیر اعظم میاں نوازشریف سرگرم ہیں۔اور
وزیر اعظم میاں نوازشریف کا کہناہے کہ قومی خزانہ امانت ہے، امانت میں
خیانت کرنا گناہ کبیرہ ہے، میری سیاست ووٹ کیلئے نہیں بلکہ خدمت کیلئے ہے،
بے ایمان اور کرپٹ حکومتوں نے ملک کو نقصان پہنچایا، ہم نے کسی سے رشوت
نہیں لی اور نہ ہی کمیشن مانگا ہے اس لئے بیرون ممالک نے کرپٹ حکومتوں کو
100 روپے میں بیچنے والی مشینیں ہمیں60 روپے میں دی ہیں، نیت ٹھیک ہو تو اﷲ
تعالیٰ پھل دیتا ہے، دلوں کو ملانے والے منصوبے پورے پاکستان میں شروع کر
دیئے گئے ہیں، بجلی بحران کے خاتمے کیلئے خصوصی توجہ دے رہا ہوں، انشاء اﷲ
بجلی ضرور آئے گی اور تیزی کے ساتھ آئے گی، خطے کی خوشحالی اور ترقی کیلئے
کام کرتے رہیں گے۔
میاں صاحب یہ بھی کہاہے کہ سیاست ذاتیات پر مبنی نہیں اسی لئے وہ اقتدار کے
بجائے اقدار کی سیاست کر رہے ہیں، ہمدردی نعروں یا بیانات سے نہیں ہوتی،
ہمدردی کچھ کر گزرنے سے ہوتی ہے، کسان پیکج ایسا ہونا چاہئے کہ کاشت کاروں
کو حکومتی امداد پر اطمینان ہو، یہ پہلی حکومت ہے جو کسانوں کو 341 ارب
روپے کا پیکیج دے رہی ہے۔ کسان پیکیج صرف پنجاب کے لئے نہیں بلکہ یہ پورے
ملک کے لئے ہے۔ کسانوں سے ہمدردی کے دعویداروں نے اس پیکیج پر پابندی لگوا
دی۔ ہم نے اپنی سیاست کو خدمت میں بدل دیا۔ کمیشن نہ بنانے کی وجہ سے
بیرونی حکومتیں بھی مہربان ہوئیں، چاہتے تو بلوچستان اور خیبر پی کے میں
حکومت بنا سکتے تھے مگر ہم نے ذاتی حکومتوں کا نہیں پاکستان اور قوم کا
سوچا، اڑھائی برس میں مکمل طور پر لوڈشیڈنگ ختم کر دینگے، پٹرولیم مصنوعات
کی جب بھی قیمتیں کم ہوئیں، ہم فائدہ عوام کو دینگے۔
سندھ، خیبر پی کے میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نہیں بنی، ہم نے انکی حکومت
بننے دی جن کو مینڈیٹ ملا اور ساتھ چلایا، بلوچستان کی دوسری پارٹیوں کو
کہا حکومت بناؤ ہم نے ذاتی حکومتوں کا نہیں پاکستان اور قوم کا سوچنا ہے۔
اقتدار کی سیاست کرینگے تو خدمت نہیں کرسکتے، یہ سارا کام صرف پنجاب نہیں
ہر جگہ ہو رہا ہے۔ 50 لاکھ ایکڑ سے زائد کے کاشتکار متاثر ہوئے ہیں اور
حکومت انہیں چیک دے رہی ہے۔ 12 لاکھ 70 ہزار لوگ ہیں جنہیں امداد دے رہے
ہیں امید ہے کہ ان کی مشکلات کم ہونگی۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ بھی کم ہوئی ہے۔
2018ء تک مکمل طور پر لوڈشیڈنگ کو ختم کر دینگے ہم سمجھتے ہیں کہ بجلی کی
قیمت بھی کم ہونی چاہئے۔ بجلی کے کارخانے تیزی سے لگ رہے ہیں۔
باہر کے لوگوں نے دیکھا کہ کمیشن اور کک بیکس نہیں مانگ رہے، ہم نے کک بیکس
اور کمیشن کا خاتمہ کر دیا۔ کسانوں کیلئے سولر ٹیوب ویل لگائیں پھر بجلی
اور ڈیزل کا خرچہ نہیں ہوگا اس پر بلا سود قرضے دینگے۔
معذرت کے ساتھ میاں صاحب کو پارٹی رہنماؤں کی پالیسیوں باہمی ضداور مقابلے
بازیوں پر بھی غور کر ناچاہیے ۔ بتایاجاتاہے کہ چوہدری نثار علی خان کے
بیان کے بعد مسلم لیگ (ن) کے بعض حلقوں کی جانب سے اس بیان کی خوب پذیرائی
کی گئی اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اس بیان سے چوہدری نثار علی خان نے
مخالفین کے ان ارادوں کو نیست و نابود کر دیا ہے کہ فوج اور سول حکومت میں
خلیج حائل ہو جائے۔ حالانکہ ضرب عضب کی صورت میں فوج اپنا کام مستعدی سے کر
رہی ہے اور حکومت سے تقاضہ کر رہی ہے کہ وہ بھی قومی ایکشن پلان کے تحت
اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور انتہا پسندی کو کنٹرول کرنے کے لئے جن امور
پر اتفاق رائے ہو چکا ہے ان پر عمل کرنے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ کور
کمانڈرز کانفرنس کے بعد اس حوالے سے سامنے آنے والے بیان پر پارلیمنٹ میں
بھی لے دے ہوئی اور حکومت نے بھی یہ واضح کرنا ضروری سمجھا کہ تمام اداروں
کو اپنی حدود میں رہ کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حالانکہ کور کمانڈرز کانفرنس
میں جنرل راحیل شریف کی باتوں کا مفہوم بھی یہی نکلتا ہے کہ فوج اپنا کام
مستعدی اور فرض شناسی سے کر رہی ہے۔ سیاسی قیادت بھی اپنے حصے کا کام خود
ہی کرے۔ اس بیان پر حکومت اور اس کے حامی سیاستدانوں کی برافروختگی بھی
دراصل لوگوں کو شبہ میں مبتلا کرتی ہے۔
ناروے کے آن لائن اخبار کاروان کے مطابق جس میں کہاگیاہے کہ ’’نواز شریف
صاحب معاف کیجئے آپ کی تازہ ترین تقریر سے اکتوبر 1999 کی یاد تازہ ہو گئی
ہے۔ آپ تب بھی ایسی ہی باتیں کرتے تھے۔ لیکن آپ کا عمل آپ کے دعوؤں کا عکاس
نہیں تھا۔ اب بھی صورتحال تبدیل نہیں ہوئی۔ پھر لوگ شکوک کا شکار تو رہیں
گے۔‘‘
ماہرین اور مبصرین کاکہناہے کہ ضرورت اس امرکی ہے کہ وعدوں سے کام نہیں
چلاتا بلکہ میاں صاحب کو ہزاروں ان مقدمات پر بھی عمل
درآمدکرواناہوگا۔جوصرف سیاسی دشمنی کی وجہ سے قائم ہیں۔گھرسے کام کیلئے
جانے والے مزدوروں کو کوئی علم نہیں کہ وہ کس شخص یا محکمے سیاست سے زندگی
کی بازی ہارجائیں گئے۔ان خاندانوں کوپیکیج یا تقریروں کی ضرورت نہیں بلکہ
تخفظ کی ضرورت ہے۔جو ہرپاکستانی کو اس کا حق پاکستان آئین اور قانون نے
دیاہے۔ |
|