نام و نسب :۔ آپ کا اسم گرامی علی ، کنیت ابو الحسن ، والد ماجد
کانام عثمان بن علی یا بوعلی وطنی نسبت الجلابی الغزنوی ثم الہجویر ی ہے
جلاب اور ہجویر افغانستان کے غزنی شہر کے مضافات میں دو بستیاں ہیں ۔
سلسلہ نسب :۔ آپ حسنی سید ہیں آپ کا سلسلہ نسب آٹھ واسطوں سے حضرت علی کرم
اﷲ وجہہ تک پہنچتا ہے ۔
ولادت :۔ حضرت سید علی ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش رحمتہ اﷲ علیہ کی
ولادت کے بارے میں تذکرہ نگاروں کی روایات درج ذیل ہیں ۱۔ آپ کی ولادت
پانچویں صدی ہجری کے شروع میں ہوئی ۲۔ آپ کی ولادت 400 ھ 1010ء میں ہوئی ۔
۳ ۔ آپ400 ھ میں پیدا ہوئے ۔ ۴ ۔ آپ کی پیدائش دسویں عیسوی کے آخریا
گیارہویں صدی عیسوی کے ابتدائی عشرے میں ہوئی ۔ بقول صاحب مآثر لاہور ہاشمی
فرید آبادی ان سب کا مطلب ایک ہے یعنی آپ تقریباً400 ھ 1010ء میں پیدا ہوئے
۔
سلسلہ طریقت :۔ آپ کے مرشد حضرت ابوالفضل محمد بن حسن ختلی رحمتہ اﷲ علیہ
ہیں ان کا سلسلہ طریقت نو واسطوں سے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ؓ سے جاملتا ہے ۔
سید ہجویر ! آپ پر اﷲ تعالی کی سلامتی اور بے پایاں رحمتیں ہوں کہ بتکدہ
ہند میں شجر اسلام کی آبیاری اورنور حق کی شمع ہدایت روشن کرکے آپ نے یہاں
تبلیغ اسلام کا فریضہ انجام دینے والوں پر برتری اور اہل طریقت پر سبقت
حاصل کرلی ہے خدمت خلق اور بندگان حق کو اﷲ کی راہ پر ڈال کر اہل لاہور کے
دلوں میں بسیرا کرچکے ہیں اوراسلا م کے فکری و ثقافتی مرکز شہر لاہور کو
داتا کی نگری کا لقب دلو ا چکے ہیں۔ اس لیے میں بھی آپ کی خدمت اقدس میں
ہدیہ عقیدت اور سلام نیاز پیش کرتا ہوں اے مرشد ہند! آپ کی سبق آموز کتاب
زندگی ،پر تو اخلاق نبویﷺ کی حامل آپ کی پاکیز ہ سیرت ،دلوں میں گھر کرنے
والی آپ کی نصیحت آموز باتیں اورآپ کی زندہ جاوید تصنیف لطیف کشف المجوب پر
متقدمین و متاخرین اہل علم و دانش تحقیق و تصنیف کا کا م مدتوں سے سرانجام
دے رہے ہیں اور تا قیامت دیتے رہیں گے آپ کاتذکرہ اور آپ کی تعلیم دہرائی
بھی جائے اوراہل ایمان کے لیے رہنما کا کام دیتی رہے گی ۔ مرشد ہند آپ پر
اﷲ رب العزت کی بے حساب رحمتیں آپ کی برکات و فیوض کا سلسلہ اپنی بڑھتی
پھیلتی وسعتوں کے ساتھ ہمیشہ جاری و ساری ہے اور رہے گا۔ آپ جب بتکدہ ہند
میں تشریف فرماہوئے تھے تو سندھ و ملتا ن میں محمد بن قاسم کی فتوحات کو
قصہ ماضی بنے تین صدیاں بیت چکی تھیں بغداد کے بے جان اور بے وقار عباسی
خلیفے اپنے ہندی محروسات پر غلبہ و اقتدار کیا رکھتے وہ تو خود آل سلجوق
اورآل بویہ کے غلبہ و اقتدا ر کے اسیر تھے اوربغداد کی گلیوں میں گھومنے
پھرنے اور اپنے جیل نما محل سے باہر قدم رکھنے کیلئے بھی اجازت کے محتاج
تھے ادھر سندھ و ملتان میں ایک صدی تک قائم رہنے والے عرب مسلمانو ں کے
منصفانہ نظام حکومت اور تابعین و تبع تابعین کے پر کشش و بے مثال کردار سے
متا ثر ہوکر جو لوگ مسلمان ہوئے تھے وہ بھی شر انگیزوں کے فتنہ کے باعث
نڈھال ہوچکے تھے۔ جب کہ انہیں سلطان محمود غزنوی نے چوتھی صدی ہجری میں ان
سے نجات دلائی ۔حضرت داتا گنج بخش عرض یہ کرنا ہے کہ آپ اپنے مرشد کامل کے
حکم سے دارالکفر ہندوستان کو نور خد اسے جگمگا نے کے لیے لاہو ر میں وارد
ہوئے تھے تو یہاں کفر و باطل کے اژدھے چاروں طرف دوڑتے پھرتے تھے بت شکن
غزنوی کے ستر ہ حملوں کی مار دھاڑ نے فتح سومنات کے بعد اگر چہ مسلمانوں کی
دھاک بٹھا دی تھی اور ان کی سطوت و ہیبت کے سامنے تمام بنیا، برہمن رام رام
کرتے اوران کے پاؤں میں اپنی چٹیا رگڑتے پھرتے تھے لیکن ان کے دلوں میں
مسلمانوں کے خلاف غیظ و غضب کے لاوے ابل رہے تھے اور اسلام سے نفرت کی
آوازیں آسمانوں سے باتیں کررہیں تھی ۔ ایسے میں یہا ں اس سر زمین کفر میں
قدم رکھنا اور تبلیغ اسلام کا بیڑہ اٹھا نا آپ ایسے مرد حق آگاہ ہی کی ہمت
کا کام ہوسکتا تھا جس کا ایمان پہاڑ سے زیادہ محکم ، عز م و یقین فولاد سے
زیادہ پختہ ، جس کی زباں کی شیرینی جنت کے پاکیز ہ شہد جیسی اورنگاہ کی
تاثیر پر تو نبوت کی تصویر تھی یہ آپ کی ہی بے مثل آئینہ دار سیرت و شخصیت
تھی جس نے قلعہ کفرستان میں شگاف ڈالے اور آپ کی صدائے دلنواز پر لبیک کہتے
ہوئے بندگا ن خدا جوق در جوق اور فو ج در فوج حلقہ بگوش اسلا م ہوتے چلے
گئے آپ کے اسی کردار نے توعلامہ اقبال جیسے فرزند اسلام کو یہ کہنے پرمجبور
کر دیاکہ
پاسبان عزت ام الکتاب از نگا ہش خانہء باطل خراب
خاک پنجاب از دم او زندہ گشت صبح ما از مہر او تا بند ہ گشت
اے کاملوں کے پیر کامل ! غزنی سے نکل کر خطر ناک گزر گاہوں پر چلتے اور
دریاؤں کو عبورکرتے ہوئے لاہور کو فتح کرنے کے لیے جب آپ دروازے پر دستک د
ے رہے تھے توآپ کے ہمراہ کوئی فوج اور کوئی اسلحہ تو نہ تھا کیونکہ یہ فوج
اور اسلحہ تو اس خطے کو پہلے دوبار فتح کر چکا تھا ۔ محمد بن قاسم اور
غزنوی کی فتوحات تو کفر کے پھنکارتے ہوئے اژدھے اور غضب و نفرت کے الاؤ ہی
چھوڑ گئیں مگر اب اس فتح کی ضرورت تھی جو دائمی اور پائیدار ہو جس میں محبت
فاتح عالم اور رحمتہ للعالمین ﷺ کا اسلحہ استعمال ہو جنہوں نے ہجرت کے وقت
یثرب ہی نہیں اہل یثرب کے دل بھی فتح کرلیے اور جس نے فتح مکہ کے موقع پر
اپنی چادر رحمت کے نیچے سب کو پناہ دے دی تھی اب کی بار وہ اسلحہ درکار تھا
جس نے سیرت و کردار سے دلوں کو مسخر کرنا تھا اور غیظ و غضب اور نفرت کے
پھنکارتے ہوئے اژدھوں کو ختم کرنا تھا اب کے شجر اسلام کی یوں آبپاری ہونا
تھی جس کا علامہ اقبال نے تذکرہ کیا ہے کہ :
سید ہجو یر ؒ مخد و م ا مم مرقد او پیر سنجر را حرم
مگر اے مخدوم امم ! آپ کی اس نگری میں غیظ و غضب کے پھنکارتے ہوئے اژدھے
توآج بھی دندناتے پھر رہے ہیں حسد اور نفرت کے الاؤ تو آج پھر یہاں آسمان
کو چھورہے ہیں اب یہ الا ؤ کون ٹھنڈے کرے گا اوران اژدھوں کو کون ختم کرے
گا داتا تیری اس نگری کو آج پھر تیری ضرورت ہے۔ جھونپڑیاں تو محلوں میں
تبدیل ہو رہی ہیں مگر ان میں رہنے والے ایسے خوفناک درندے بنتے جارہے ہیں
جواپنے بھائیوں کا گلا کاٹنے اوران کا خون پینے میں لگے ہوئے ہیں عجیب
درندے ہیں اپنے ہی ہم جنس کا گلا کاٹنے اور ان کا خون پیتے ہیں ! یہ درندے
اب اس سرزمین کے تمام شہروں میں پھیلے ہوئے ہیں جسے تو نے فتح کیا تھا جہاں
آپ کے بھائی اور پیروکار حضرت گنج شکر ،حضرت بہاؤ الدین زکریا ، حضرت سچل
سرمست ، حضرت شہباز قلند ر اور حضرت بھٹائی شاہ ؒ اپنے اپنے وقت میں آپ کا
سا کام کر گئے مگر یہ درندے اوریہ اژدھے اس پاک سر زمین کے پرامن شہریوں کو
برباد کرنے اور ان کا امن تہ وبالا کرنے کی فکرمیں ہیں کوئی طاقت انہیں زیر
نہیں کر پارہی کوئی اسلحہ انہیں روک نہیں رہا انہیں روکنے کے لیے اسی طاقت
کی ضرورت ہے جو آپ کے پاس تھی انہیں اسی اسلحہ سے ہی زیر کیا جاسکتا ہے جو
آپ کے پاس تھا انہیں زیر کرنے اور روکنے کے لیے آج پھر وہی محبت فاتح عالم
اور رحمتہ للعالمینی درکار ہے جس کے آپ علمبر دار تھے ۔ میرے داتا ! یہ
درندے یہ اژدھے ظلم کے ستائے ہوئے انسان ہیں انہیں پھر وہی عدل و انصاف
درکا ر ہے جو رحمتہ للعالمینﷺ کی چادر رحمت میں تھا یہ لوگ اسی محبت فاتح
عالم کے طلبگار ہیں جو آپ اپنے ساتھ لائے تھے داتا تیری نگری آج پھر تجھے
پکارتی ہے ۔ اے نور اسلام کے علمبردار ! آپ نے کشف المجوب میں اپنے ایک
بزرگ کی نصیحت کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں تلقین کی گئی ہے کہ اپنے دل کو
خدا کی طرف سے ہٹا کر ہوا وہو س میں مشغول انسانوں کی حاجت روائی میں مت
لگانا ، مگر کیا کیا جائے کہ آج آپ کی اسی نگری میں انسانوں کے دل اپنے
خالق و مالک سے تو منہ موڑ چکے ہیں اورہوس پرستوں کی خواہشات اورنفس پرستوں
کی خود غرضی کی تسکین کے لیے وقف ہوچکے ہیں دنیا کے طلبگار سفارشوں کے ہار
اٹھائے پھرتے ہیں ہر کوئی سفارش کی تلاش میں پاگل ہوا پھر تاہے ہر ایک کا
گوہر مقصود دنیاکی طلب ہے ۔ سب کے سب مادہ پرستی کے سفینے میں چھلانگ لگا
رہے ہیں سرمایہ پرستی اور مادہ پرستی کا یہ سفینہ کبھی غرق ہوگا تو اس میں
یہ سوار ہونے والے بھی دوسروں کے لیے موقع عبرت بنیں گے ۔ اے بندگا ن حق کو
اسلام سے سرفراز فرمانے والے داتا ! آپ نے جب یہاں کے لوگوں کو نماز سکھائی
تو ساتھ یہ بھی فرمایا تھا کہ جان لو کہ نماز ایک ایسی عبادت ہے جو ابتداسے
انتہا تک مرید ین کو راہ حق کے مراحل دکھا تی ہے اور ان کے مقامات کا
انکشاف کرتی جاتی ہے چنا نچہ طہارت کو مریدین کے لیے توبہ کی حیثیت حاصل ہے
روبقبلہ ہونا مرشد پکڑنے کے مترادف ہے قیام بجائے مجاہدہ نفس ہے قرات ذکر
ودوامی کی جگہ ہے رکوع بجائے تواضع ہے سجدہ معرفت نفس کے مترادف ہے تشہد
بجائے مقام انس اور سلام پھیرنا بند مقامات سے باہر آنے کے مترادف ہے حضر ت
داتاگنج بخش۔ آپ نے تو نمازیو ں کی تعلیم فرمائی مگر لوگوں نے تو نماز کو
ایک رسم بنالیا ہے ان کے نزدیک نماز اچھا انسان اور نیک مسلمان بننے کا
وسیلہ نہیں رہی بلکہ ایک ایسا مقصد قرار پائی ہے جو مصلے سے شروع ہوکر مصلے
ہی پر ختم ہوجاتا ہے یہ چھوٹی بڑی برائی سے بچنے کا ذریعہ نہیں رہی بلکہ
چھوٹی بڑی برائیاں چھپانے کا ذریعہ قرار پا گئی ہے داتا آپ کی نگر ی کے یہ
لوگ آپ کا طریقہ نماز اب کس سے سیکھیں اور کیسے سیکھیں ؟ اے کاملوں کے
رہنما ! آپ نے تو فرمایا ہے کہ بندگان خدا کے لیے صرف خدا کافی ہے مگر اس
کا کیا علاج کہ خدا شناسی کے دعویدار ہی خدا سے بیگانہ نظرآتے ہیں تیری
نگری میں تو اب صرف بندوں کے ہر عمل پر نظر رکھنے اور ان پر نکتہ چینی کرنے
والے ٹھیکیدار ہی رہ گئے ہیں یا صرف بندوں ہی کو حاجت روا سمجھنے والے دنیا
دار رہ گئے ہیں ! فریاد ہے داتا فریاد ! اے خاک پنجاب کو زندگی دینے والے آ
پ نے تو غار حرا سے پھو ٹنے والی علم کی روشنی ، جس کا نقطہ آغاز اقراء تھا
اس کو پیش نظر رکھتے ہوئے اپنی کشف المحجوب کا پہلا باب ہی اثبات علم کے
لیے مختص فرمایا ہے اور علم کی ضرورت اوراہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے یہ ارشاد
نبوی ﷺ نقل کیا ہے کہ ( ترجمہ )یعنی جاہل عبادت گزار تو ایسا گدھا ہے جو
چکی پیستا رہتا ہے مگر آج غار حرا سے اتر کر نسخہ کیمیا کے ساتھ قوم کے پاس
آنے والے کی امت کی اکثریت علم سے بے بہرہ کیوں ہے ؟ داتا ! آپ کی اس نگری
کی اکثریت جاہل کیوں ہے ؟ اس کا علا ج کیا ہے ؟ جہالت میں ڈوبی ہوئی اس قوم
کے بے حسی پر فریاد ہے داتا ۔اے تصوف اسلام کے امام ! آپ نے تو کشف المحجوب
میں ارشاد فرمایا کہ :
پس فرائض علم چند انست کہ بداں عمل درست باشد کہ حق تعالی بداں ذم کرد
کسا نی راکہ علوم بے منفعت آموزند ورسول اﷲ زینہا رخواست و گفت
’’کہ علم وہ درکار ہے جس سے عمل درست ہو ، کیونکہ نقصان پہنچانے و الے علم
کی اﷲ تعالی نے مذمت فرمائی ہے کہ وہ لوگ ہاروت ماروت سے وہ علم سیکھتے جو
انہیں نفع دینے کے بجائے نقصان دیتا ۔ رسول اﷲ ﷺ نے بھی یہی دعا مانگی
اورفرمایا : ’’ اے اﷲ ! میں اس علم سے تیری پناہ مانگتا ہوں جو نفع نہ دے
‘‘ مگر آج تیری اس نگری میں بوٹی مافیا نے تو علم کو عذاب بنا دیا ہے کہتے
تھے کہ علم وہ دولت ہے جسے چور چرا نہیں سکتے لیکن اب تو علم بھی چرایا
جارہا ہے بلکہ یہ علم تو چور اور ڈاکو پیدا کررہا ہے ۔
|