بہار فرقہ پرستوں کے نشانہ پر
(nazish huma qasmi, mumbai)
صوبہ بہار کا الیکشن ختم ہوگیا …نتیش کمار تیسری مدت کیلئے پھر سے بہار کے وزیر اعظم بن چکے ہیں…دوران الیکشن جس طرح کی زبانیں استعمال کی گئی تھی وہ کسی بھی طرح کسی مہذب معاشرے کی ترجمانی نہیں کرسکتا ہے…لیکن اہل بہار نے گندی سیاست اور فرقہ پرستی کے خوگر افراد کو بہار میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا…انہیں دوبارہ اسی جگہ بٹھا دیا جہاں وہ پہلے سے بیٹھے تھے…لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہار میں نتیش کے آنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے…؟ کیا یہاں بھی وہی عمل دوہرانے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے جو اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں اپنایا جا چکا ہے۔ آئے دن نت نئی حرکتیں اقلیتوں کی ساتھ کی جانے لگی ہیں… الیکشن کے بعد بہار میں اب تک کئی فساد ہوچکے ہیں…معمولی سے معمولی بات کو فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں، دو افراد کے باہمی جھگڑے دو مذہبی جماعتوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں…دربھنگہ، مظفر پور، مغربی چمپارن اور پٹنہ جیسے شہروں میں اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں…پولس کی مستعدی اور دیگر ذمہ دار حضرات کی بہترین حکمت عملی کے ذریعہ اگرچہ اسے بروقت سنبھال لیا گیا ہے اور کوئی بڑا جانی و مالی نقصان منظر عام پر نہیں آیا ہے…لیکن یہ باتیں اب تک صوبہ بہار میں نہیں پائی جاتی تھی…، یہاں لوگ ایک دوسرے سے مل کر زندگی گزارنے کے عادی رہے ہیں…ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی بن کر ہمیشہ کھڑے ہوئے ہیں …پھر اب کیا وجہ ہے کہ معمولی سے معمولی بات کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے… اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بہار میں بھگوائی اپنی ہار کی ہزیمت میں وہاں کا ماحول پراگندہ کرناچاہ رہے ہیں اور نتیش حکومت کوعوام کے ذہن میں بدنام کرنا چاہ رہے ہیں۔ |
|
صوبہ بہار کا الیکشن ختم ہوگیا …نتیش کمار
تیسری مدت کیلئے پھر سے بہار کے وزیر اعظم بن چکے ہیں…دوران الیکشن جس طرح
کی زبانیں استعمال کی گئی تھی وہ کسی بھی طرح کسی مہذب معاشرے کی ترجمانی
نہیں کرسکتا ہے…لیکن اہل بہار نے گندی سیاست اور فرقہ پرستی کے خوگر افراد
کو بہار میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا…انہیں دوبارہ اسی جگہ بٹھا دیا
جہاں وہ پہلے سے بیٹھے تھے…لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہار میں نتیش
کے آنے کے بعد سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہوگیا ہے…؟ کیا یہاں بھی وہی عمل دوہرانے
کی کوشش نہیں کی جارہی ہے جو اتر پردیش اور دیگر ریاستوں میں اپنایا جا چکا
ہے۔ آئے دن نت نئی حرکتیں اقلیتوں کی ساتھ کی جانے لگی ہیں… الیکشن کے بعد
بہار میں اب تک کئی فساد ہوچکے ہیں…معمولی سے معمولی بات کو فرقہ وارانہ
رنگ دینے کی کوششیں کی جارہی ہیں، دو افراد کے باہمی جھگڑے دو مذہبی
جماعتوں کی شکل میں ظاہر ہورہے ہیں…دربھنگہ، مظفر پور، مغربی چمپارن اور
پٹنہ جیسے شہروں میں اس طرح کے واقعات پیش آچکے ہیں…پولس کی مستعدی اور
دیگر ذمہ دار حضرات کی بہترین حکمت عملی کے ذریعہ اگرچہ اسے بروقت سنبھال
لیا گیا ہے اور کوئی بڑا جانی و مالی نقصان منظر عام پر نہیں آیا ہے…لیکن
یہ باتیں اب تک صوبہ بہار میں نہیں پائی جاتی تھی…، یہاں لوگ ایک دوسرے سے
مل کر زندگی گزارنے کے عادی رہے ہیں…ایک دوسرے کے سکھ دکھ کے ساتھی بن کر
ہمیشہ کھڑے ہوئے ہیں …پھر اب کیا وجہ ہے کہ معمولی سے معمولی بات کو بھی
فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے… اس کی وجہ صاف ظاہر ہے کہ بہار
میں بھگوائی اپنی ہار کی ہزیمت میں وہاں کا ماحول پراگندہ کرناچاہ رہے ہیں
اور نتیش حکومت کوعوام کے ذہن میں بدنام کرنا چاہ رہے ہیں۔ وہ حکومت کی
مستعدی اور پولس افسران کی ہمت وحوصلہ کی داد دینی چاہئے جو فرقہ پرستوں کے
تخم کو اُکھاڑ پھینک رہے ہیں انہیں پنپنے کا موقع نہیں دے رہیں۔ اگر ان
پولس افسران اور سیکولر مزاج لیڈروں کی یہی روش رہی تو ہمیں بہار سرکار اور
یہاں کے معتدل مزاج برادران وطن سے پوری امید ہے کہ ان شاء اللہ یہاں کوئی
مظفر نگر نہیں بنے گا اور نہ یہاں گجرات کا عمل دوہرایا جاسکے گا … نہ بیف
کا بہانہ بنا کر کسی کو اخلاق بنایاجائے گا۔لیکن جس طرح بہار میں فرقہ
پرستی اپنے قدم جمانے کی کوشش کررہی ہے اور اس کے کارندے شہر شہر گاؤں
گاؤں نفرت کی بیج بونے میں مصروف ہیں، سیدھے سادے عوام کے ذہنوں کو
پراگندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے، چھوٹے چھوٹے بچوں کی ذہن سازی کی جارہی
ہے اور جوانوں میں مسلم مخالف مواد بھرے جارہے ہیں اگران فرقہ پرستوں پر
سخت کارروائی نہیں کی گئی اور ان ملک مخالف عناصر پر لگام نہیں کسی گئی تو
نتیجہ بہت لرزہ خیز ظاہر ہوگا۔ آج بہار کے نوجوانوں کو جس ڈگر پر چلانے کی
کوشش کی جارہی ہے وہاں تباہی و بربادی کے سوا اور کچھ ہاتھ نہیں آنے والا
ہے، سرزمین بہار ابتداء سے ہی صوفی و سنتوں کا منبع رہا ہے، گاندھی جی نے
اپنی آزادی کی لڑائی اسی سرزمین بہار سے شروع کی تھی، یہاں کے عوام کے
باہمی تعلقات دوسروں کیلئے مشعل راہ رہے ہیں… یہاں کی مٹی میں امن و آشتی
کا خمیر ملا ہوا ہے، یہاں کی محبت ضرب المثل ہے، یہاں گاندھی و آزاد کے
لگائے ہوئے چمن کے پھول چہار جانب مہکتے ہیں، گنگا جمنی تہذیب کا سر چشمہ
ہے، یہ گوتم بدھ اور یحیی منیری کا مسکن ہے، یہ اشوکا کے کارناموں کی گواہ
ہے، اس نے آزادی کے بعد سے اب تک ہمیشہ ہندوستانی جمہوریت کی حفاظت کی ہے،
اور آج بھی یہاں کے عوام اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ ہندوستان کی شان
گنگا جمنی تہذیب میں ہے… اور وہاں کے عوام گاہے بگاہے فرقہ پرستوں کو یہ
عندیہ بھی دے رہے ہیں کہ سیتا کی اس سرزمین پر نتھو رام گوڈ سے کے پجاریوں
کیلئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ لیکن یہ بات بھی مسلم ہے کہ اگر تالاب کی ایک
مچھلی خراب ہوجائے تو وہ پورے تالاب کو پراگندہ کردیتی ہے۔ اگر گھر کی چھت
سے پانی رسنا شروع ہوجائے تو بروقت اس کی مرمت ضروری ہے …ورنہ وہ پورا گھر
برباد کردیگا …ٹھیک یہی صورتحال بہار کو در پیش ہے …یہاں بھی کچھ ملک مخالف
عناصر سر ابھار رہے ہیں…کچھ زخم ہے جن کا اگر بروقت آپریشن نہیں کیا گیا
تو وہ ناسور کی شکل اختیار کرلیں گے…بے لگام ہورہے ان بدکتے گھوڑوں کو لگام
کسنا ضروری ہے۔ ان تمام باتوں کے پیش نظر ہم حکومت بہار سے درخواست کرتے
ہیں کہ نظم و نسق کو بہترین سے بہترین بنائے، ماضی کی طرح حال اور مستقبل
بھی پر امن رہے تاکہ جس تیزی سے بہار ترقی کررہا ہے اور یہاں کے لوگوں میں
جو خود اعتمادی آپ کے تئیں پائی جارہی ہے وہ اپنی حالت پر برقرار رہے اور
بہار جس طرح اپنی یکتائی اور جمہوریت کیلئے پورے ملک میں ایک مثال ہے ترقی
و خوشحالی اور تعلیم و تعلم میں بھی اپنی مثال آپ ہو۔ اور یہ چیزیں اسی
صورت میں ممکن ہے جب حالات پرامن ہو، ماحول سازگار ہو، یوں تو پورے بہار
میں ہورہے یکے بعد دیگرے واقعات پر نظر رکھنا ضروری ہے لیکن خصوصا ًمغربی
چمپارن ، دربھنگہ وغیرہ جہاں آئے دن بلا وجہ ماحول خراب کرنے کی کوشش کی
جارہی ہے، اور ایک خاص فرقہ کے افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے، پولس والوں
کی یقین دہانی کے باوجود ماحول پرخطر بن گیا ہے، پولیس کی موجودگی میں فرقہ
پرست قانون سے کھلواڑ کررہے ہیں۔ اقلیتی فرقہ وہاں اپنے آپ کو غیر محفوظ
سمجھ رہا ہے، حکومت بہار اس جانب توجہ دے اور ان فرقہ پرستوں کو لگام کسے
تاکہ بہار کا ہر فرد خوشی وفرحت محسوس کرے۔ اور اسی شان سے جئے جس طرح سے
جیتا چلا آرہا تھا… نہ یہاں فساد کی بادم سموم پیدا ہو اور نہ ہی گجرات
جیسے جلتے ہوئے لاوے اُبلے اور نہ ہی کوئی مظلوم محض افواہ کی بناء پر
دنگائیوں کی بھینٹ چڑھے۔ |
|