معرکہ لودھراں فتح کا تاج کس کے سر سجے گا
(abdulrazzaq choudhri, lahore)
آموں کی سرزمین لودھراں میں الیکشن کی آمد
آمد ہے ۔ حریف سیاسی جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف یہ
سیاسی معرکہ فتح کرنے کی دعویدار بھی ہیں اور پر عزم بھی۔یہ سیاسی مقابلہ
نتائج کے اعتبار سے بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ جو جماعت بھی اس الیکشن میں
کامیاب ٹھہری اس کے موقف کی بھی جیت ہو گی۔کیونکہ یہ حلقہ این اے ایک سو
چون ان حلقوں میں سے ایک ہے جہاں تحریک انصاف نے دھاندلی کی نشاندھی کی تھی
اور عدالتی فیصلے کی روشنی میں اس حلقہ میں دوبارہ الیکشن کا انعقاد ہو رہا
ہے ۔تحریک انصاف کے جہانگیر ترین اور مسلم لیگ نون کے صدیق بلوچ کے مابین
سجنے والا یہ سیاسی دنگل کیا رخ اختیار کرے گا یہ تو الیکشن ڈے ہی طے کرے
گا لیکن قیاس آرائیوں کا سلسلہ اپنے عروج کو چھو رہا ہے ۔ سیاسی تجزیہ کار
اپنی اپنی دانست میں تبصرہ کرنے میں مگن ہیں اور یہ سلسلہ تب تک میڈیا کی
زینت بنتا رہے گا جب تک اس کا حتمی نتیجہ سامنے نہ آ جائے ۔انیس سو تریپن
میں جنم لینے والے جہانگیر ترین نے بی اے کی ڈگری ایف سی کالج سے حاصل کی
اور بعد ازاں کیرولینا امریکہ سے ایم بی اے کرنے کے بعد عملی سیاست میں قدم
رکھا ۔ یاد رہے دو ہزار دو کے الیکشن سے قبل مخدوم احمد محمود جو جنوبی
پنجاب کے منجھے ہوے سیاستدان ہیں ضلع رحیم یار خان کے ناظم تھے انہوں نے
جہانگیر خان ترین کی صلاحیتوں سے متاثر ہو کر ان کو اپنے آبائی حلقہ سے
الیکشن لڑوایا۔ قسمت کی دیوی جہانگیر ترین پر مہربان ہوئی اور وہ بھاری
اکثریت سے اس سیٹ پر کامیاب ہو گئے۔ قومی اسمبلی کا ممبر بننے کے بعد ان کے
ستاروں نے عروج پکڑا اور وہ بعد ازاں انڈسٹریز کے وزیر بھی بن گئے ۔ اسی
دوران جہانگیر ترین نے اپنے بزنس پر بھرپور توجہ دی اور شوگر کے بزنس میں
نام کمانے کے علاوہ زراعت کے شعبہ میں کمال مہارت حاصل کی اور جنوبی پنجاب
میں فارم ہاوسز کا جال بچھا دیا اور یوں ان کا شمار پاکستان کے امیر ترین
لوگوں میں ہونے لگا ۔مخدوم احمد محمود جو مشرف حکومت سے اختلافات کے باعث
مسلم لیگ ق سے الگ ہو گئے جبکہجہانگیر ترین مشرف کے منظور نظر رہے اور
جہانگیر ترین نے اختلاف کی اس جنگ میں مخدوم احمد محمود کا ساتھ نہ دیا
بلکہ ان کا شمار تو مسلم لیگ ق کی حکومت کے خاص رفقا کار میں ہوتا تھا ۔مخدوم
احمد محمود تو ناراض ہو کر مسلم لیگ فنکشنل میں چلے گئے جبکہ جہانگیر ترین
حکومت میں ہی منسٹری کے مزے لوٹتے رہے۔جب مشرف حکومت زیر عتاب آئی تو
جہانگیر ترین بھی بوریا بستر گول کر کے مسلم لیگ فنکشنل میں چلے گئے ۔ بعد
ازاں جب سونامی کی لہریں قومی سیاست کے افق سے نمودار ہوئیں تو موصوف تحریک
انصاف کی موجوں کا حصہ بن گئے ۔دوسری جانب ان کے مد مقابل مسلم لیگ کے صدیق
بلوچ ہیں جو دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں آزاد حیثیت میں فتح مند ہوے اور
پھر انہوں نے مسلم لیگ نون جوائن کر لی ۔ تحریک انصاف نے صدیق بلوچ کی
کامیابی کو عدالت میں چیلنج کیا اور طویل کھینچا تانی کے بعد تحریک انصاف
کو قانونی فتح حاصل ہوئی اور عدالتی فیصلہ کی روشنی میں ایک مرتبہ پھر
لودھراں کی دھرتی پر الیکشن کا بگل بج چکا ہے ۔
یاد رہے دھرنا سیاست کی شوقین تحریک انصاف اک عرصہ سے ناکامی کے گرداب کا
شکار ہے ۔ سیاسی پلیٹ فارم پر ہزیمت کا یہ سلسلہ ہری پور سے براستہ لاہور
لودھرا ں کی فضاوں میں معلق ہے ۔اگرچہ عمران خان اس سلسلہ کو بریک لگانے کے
لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں اور اپنی بھرپور توانائی صرف کر رہے ہیں
او ر انہوں نے اپنے اس مقصد کے حصول کے لیے لودھراں میں ایک بہت بڑے عوامی
اجتما ع سے خطاب بھی کیا اور انہوں نے منعقدہ اس جلسہ میں جہانگیر ترین کی
تعریفوں کے پل باندھ دیے اور یہاں تک کہ انہیں تحریک انصاف کا بہادرترین
لیڈر بھی قرار دیا ۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین نے جس طرح
دھاندلی کو ایکسپوز کیا ہے وہ قابل تعریف عمل ہے ۔ جہانگیر ترین نے بھی
جلسہ کے شرکا سے خطاب کرتے ہوے کہا کہ عوامی خدمت ان کے ایمان کا حصہ ہے ۔
وہ پوری تندہی سے اس فرض کو انجام دیتے رہے ہیں اور ائندہ بھی یہ سلسلہ
جاری رکھیں گے ۔
تحریک انصاف کے قائدین کے دعووں اور وعدوں سے قطع نظر اگر زمینی حقائق کو
غیر جانبداری کی نظر سے دیکھا جائے تو حقیقت کچھ اور ہی رخ دکھاتی ہے ۔بلدیاتی
انتخابات کے نتائج سے یہ بات کھل کر سامنے آ چکی ہے کہ لودھراں میں مسلم
لیگ نون مقبول سیاسی جماعت ہے اور لودھراں میں مسلم لیگ نون بھاری اکثریت
سے کامیاب بھی ہوئی تھی اور اسی رحجان کا تسلسل اس الیکشن میں بھی دکھائی
دے رہا ہے اور بلدیاتی الیکشن میں نمایاں کامیابی کے تناظر میں خیال کیا جا
رہا ہے کہ مسلم لیگ نون باآسانی اپنا ہدف حاصل کر لے گی ۔ کچھ لوگوں کی
رائے میں بلدیاتی الیکشن سے قبل اس حلقہ کی صورتحال موجودہ پوزیشن سے مختلف
تھی اور تحریک انصاف کو اس حلقہ سے فیورٹ قرار دیا جا رہا تھا لیکن بلدیاتی
الیکشن میں تحریک انصاف کی کمزور کارکردگی کی وجہ سے اب حالات یکسر پلٹا
کھا چکے ہیں اور اب مسلم لیگ ن کے لیے جیت کی راہ ہموار ہو چکی ہے ۔اور اگر
مسلم لیگ یہ الیکشن بھی جیتنے میں کامیاب ہو گئی تو پھر تحریک انصاف کے
دھاندلی موقف کے غبارے سے ہوا مکمل طور پرنکل جائے گی اور اس کی عوامی سطح
پر مشکلات میں مذید اضافہ ہو سکتا ہے ۔ البتہ قیاس آرائیوں کے طوفان کے
باوجود حتمی فیصلہ تو عوام کے ہاتھ میں ہے۔ دیکھتے ہیں عوام کیا فیصلہ کرتے
ہیں ۔ وہ اپنی رائے کس سیا سی جماعت کے پلڑے میں ڈالتے ہیں ۔ کونسی سیاسی
جماعت سرخرو ہوتی ہے اور کس سیاسی جماعت کے دعوے زمین بوس ہوتے ہیں۔ وقت آن
پہنچا ہے فیصلے میں اب تو چند گھنٹوں کی دیر ہے- |
|