مملکت سعودی عرب میں خواتین کو آزادی ۰۰۰ مستقبل میں شاہی
حکومت کے لئے خطرہ تو نہیں؟
سعودی عرب میں خواتین کے انتخابات میں حصہ لینے پر عائد پابندی کے خاتمے کے
بعد مملکت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میونسپل کونسل کے انتخابات میں خواتین
کو ووٹ ڈالنے اور انتخابات میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا جس میں 20خواتین
میونسپل کونسل کے لئے منتخب قرار دیں گئیں۔ سعودی عرب کو عالمِ اسلام میں
شرعی قوانین کے نفاذ کے لئے اہمیت حاصل ہے لیکن اب جبکہ یہاں پر پہلی مرتبہ
خواتین کو حق رائے دہی کے ساتھ ساتھ انتخابات میں مقابلہ کرنے کی بھی اجازت
دی گئی تھی اور اس میں 20خواتین نے کامیابی بھی حاصل کی اس سے قبل شاہ
عبداﷲ بن عبدالعزیز کے دور اقتدار میں انہو ں نے سعودی عرب کی 150رکنی
اعلیٰ ترین مشاورتی کونسل میں 30خواتین کو کونسل کا رکن بنایا تھا ۔ شاہ
عبداﷲ نے خواتین کے تعلق سے کہا تھا کہ خواتین سعودی عرب میں اپنا مقام
دکھایا ہے اور صحیح آرا اور مشورے دیئے ہیں اس موقع پر انہوں نے موجودہ
انتخابات میں خواتین کو حق رائے دہی اور حصہ لینے کیلئے موقع فراہم کرنے کا
اعلان کیا تھا۔ گذشتہ دنوں میونسپل کونسل کے انتخابات میں حکام کے مطابق
ساڑھے13 لاکھ مردوں کے ساتھ ساتھ ایک لاکھ 30ہزار خواتین کے ووٹ رجسٹر ڈکئے
گئے تھے۔ میونسپل انتخابات میں 2100نشستوں کے لئے ووٹ ڈالے گئے ان انتخابات
میں 5938مردوں کے ساتھ 978خواتین امیدواروں نے حصہ لیا اور اس میں 20خواتین
نے کامیابی حاصل کی۔ سعودی عرب کی تاریخ میں 12؍ ڈسمبر 2015 کو منعقد ہونے
والے انتخابات تاریخ میں محض تیسرا موقع ہے۔ اس سے قبل 2005ء میں شاہ عبداﷲ
بن عبدالعزیزنے میونسپل کونسل کے انتخابات منعقد کروائے تھے اور یہ
انتخابات چالیس سال کے عرصہ کے بعد یعنی 1965ء کے بعد منعقد کئے گئے تھے۔
مملکت سعودی عرب میں آہستہ آہستہ خواتین کو مختلف اداروں میں کام کاج کرنے
کا مواقع فراہم کئے جارہے ہیں اس کے باوجود آج بھی سعودی عرب میں خواتین
کوکار ڈارائیونگ کی اجازت نہیں ہے جس کے لئے بعض خواتین اور حقوق نسواں اور
ہیومن رائٹس کی جانب سے احتجاج کیا گیا لیکن ابھی تک انہیں اجازت نہیں دی
گئی ہے۔ سعودی عرب میں لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم و تربیت کے لئے بہترین
تعلیمی نظام فراہم کیا گیا ہے ابتدائی سطح سے اعلیٰ تعلیم تک انہیں مواقع
دستیاب ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لڑکیاں ، لڑکوں سے سبقت لیجانے کی کوشش
کررہی ہیں اگر مملکت سعودی عربیہ خواتین کو مزید مواقع فراہم کرتی ہے تو
مستقبل قریب میں وزارت کے اہم قلمداں بھی انہیں تفویض کئے جاسکتے ہیں ۔ ایک
طرف حکومت خواتین کو تعلیمی اور روزگار کے مواقع فراہم کررہی ہے تو دوسری
جانب کئی سعودی عوام، خواتین کو اپنی گھریلو ذمہ داریوں کو بحسن خوبی انجام
دینے کے لئے باہر لانا پسند نہیں کرتے اور اسے اسلامی قوانین کی خلاف ورزی
تصور کرتے ہیں۔ سعودی عرب میں ہزاروں لڑکیاں بن بیاہی بیٹھی ہوئی ہیں جن کی
عمریں بڑھتی جارہی ہے اور کئی طلاق و خلع کی وجہ سے بے آسرا ہوتی جارہی ہیں
ان حالات کے پیشِ نظر ہوسکتا ہے کہ شاہی حکومت خواتین کو روزگار کے مواقع
فراہم کرنے کے لئے مختلف سرکاری و خانگی اداروں میں اجازت دے رہی ہے۔ لیکن
خواتین جس طرح اپنے حقوق کے لئے آواز اٹھانے لگے ہیں یعنی کار ڈرائیونگ کے
لئے سخت قوانین کے نفاذ اور اعلانات کے باوجود بعض خواتین نے سڑکوں پر کار
ڈرائیونگ کی کوشش کی جس کے بعد شاہی حکومت نے قوانین پر عمل آوری کے لئے
خواتین کو اور انکے ذمہ دار مرد کو سزادینے کا اعلان کیا اور انہیں حراست
میں بھی لیا گیااس کے بعد سے خواتین خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں لیکن
مستقبل قریب میں اس مسئلہ کو دوبارہ اٹھایا جاسکتا ہے ۔ شاہی حکومت کی جانب
سے کئی اداروں میں خواتین کو حجاب میں کام کرنے کی اجازت ہے لیکن بعض
اداروں میں جہاں پر خواتین کام کرتی ہیں ان میں کئی ایسی خواتین زیادہ
تعداد میں ہیں جو دوسرے ممالک سے تعلق رکھتی ہیں لیکن انکے شوہر سعودی
قومیت کے حامل ہونے کی وجہ سے وہ بھی شادی کے بعد سعودی قومیت حاصل کرچکے
ہیں۔ بعض عرب ممالک اور پاکستان سے تعلق رکھنے والے خواتین بھی حقوق نسواں
کے لئے سعودی عرب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے دکھائی دیتے ہیں اسی لئے مسقبل
قریب میں شاہی حکومت کو دشواریاں پیش آسکتی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہیکہ
پہلے ہی سعودی عرب و دیگر اسلامی ممالک شدت پسندی کی وجہ سے پریشان صورتحال
سے دوچار ہے اور اگر اب سعودی عرب کی شاہی حکومت خواتین کو گھریلو ذمہ
داریوں سے سبکدوش کرکے باہر لائے گی تو مستقبل میں یہ ایک نیا خطرہ ثابت
ہوگا۔ایسا لگتا ہے کہ آہستہ آہستہ مغربی اثرات سعودی عرب پر مرتب ہورہے
ہیں۔ اگرچیکہ خواتین کو بہت ساری پابندیاں ہیں مگر اس حقیقت سے انکار نہیں
کیا جاسکتا کہ دنیا میں سب سے زیادہ کاسمیٹک سعودی عرب ہی میں فروخت ہوتے
ہیں۔ سعودی عرب کا میڈیا جس پر عربوں کے بھیس میں یہودی لابی سرگرم عمل ہے۔
عورتوں کی آزادی کیلئے جہاں آواز اٹھاتی رہی ہے وہیں اپنی تحریروں اور
پروگرامس کے ذریعہ سعودی خواتین کو آزاد خیال بنانے میں اہم رول ادا کرتی
رہی ہیں۔ انگریزی اور عربی اخبارات میں عرب نام کے حامل بعض خاتون صحیفہ
نگاروں نے غیر محسوس طریقے سے آزاد خیالی کے نام پر فحاشی کو فروغ دیا ہے۔
سعودی عرب بظاہر شرعی قانون پر عمل پیرا ہے تاہم اتحادی افواج نے جب سے
یہاں قدم رکھے ہیں تب سے یہاں کے ماحول میں بگاڑ پیدا ہوتا جارہا ہے اندیشہ
ہیکہ آنے والے دنوں میں یہ بھی دبئی یا متحدہ عرب امارات کی طرح آزاد خیال
ملک بن جائے گا۔
34اسلامی ممالک کا دہشت گردی کے خلاف فوجی اتحادلیکن۰۰۰
عالمِ اسلام اس وقت جس دور سے گزررہا ہے شاید ہی اس سے قبل رہا ہو۔ نام
نہاد جہادی تنظیمیں جس طرح اپنے ہی مسلم بھائیوں ، بہنوں اور بچوں کا بے
دریغ قتلِ عام کررہے ہیں اس کے روک تھام کیلئے عالمِ اسلام کو متحد ہونا
ناگریز ہوگیا ہے۔ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا شکار اسلامی ممالک کے حکمراں
اب سوچنے پر مجبور ہوچکے ہیں کہ انہیں اپنی سلامتی اور امن و آمان کے لئے
کچھ نہ کچھ لائحہ عمل ترتیب دے کر فیصلہ کرنا ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ اسی سلسلہ
کی ایک کڑی 15؍ ڈسمبر کو مملکت سعودی عرب میں دیکھی گئی۔عراق، شام ، یمن
وغیرہ میں مسلمانوں کا قتل عام ہورہا ہے ایک طرف شدت پسند تنظیمیں ہیں تو
دوسری جانب حکمراں و فوج تو تیسری جانب مغربی و یوروپی اتحاد جو ان ممالک
کے شہریوں کو بے دریغ ہلاک کررہے ہیں۔ امریکہ ، روس اور دیگر مغربی و
یوروپی ممالک دولت اسلامیہ اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کو ختم کرنے کے لئے
جس طرح حملے کررہے ہیں اس سے ایک طرف انسانیت تباہ ہورہی ہے تو دوسری جانب
معیشت برباد ہورہی ہے۔ اقوام متحدہ جیسا ادارہ بھی ان مغربی و یوروپی اور
شدت پسند تنظیموں کو روکنے کے لئے لاچار و مجبور دکھائی دیتا ہے۔ ان حالات
میں سعودی عرب کی قیادت میں عالمِ اسلام کے کئی ممالک نے متحدہ حکمت عملی
ترتیب دینے اور دشمنانِ اسلام و دہشت گرد تنظیموں سے نبرد آزماہونے کا بیڑہ
اٹھایا ہے۔
سعودی عرب کی سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے
سعودی عرب کی قیادت میں پاکستان سمیت 34اسلامی ممالک نے فوجی اتحاد تشکیل
دینے کا اعلان کیا ہے، اس اتحاد میں عرب امارات، قطر ، مصر، ترکی، ملیشیاء
، اور دیگر افریقی ممالک شامل ہیں۔ سعودی خبررساں ایجنسی ایس پی اے پر ان
ممالک کی فہرست جاری کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ جن ممالک کا یہاں ذکر کیا
گیا ہے انہوں نے دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لئے سعودی عرب کی قیادت میں
ایک فوجی اتحاد تشکیل دینے کا فیصلہ کیا ہے، آپسی روابط اور ملٹری آپریشن
کی غرض سے اس کا مشترکہ آپریشن سنٹر ریاض میں ہوگا۔ ایجنسی کے مطابق اسلامی
ممالک کو شدت پسندی میں ملوث ہر اس تنظیم اور گروہ، چاہے اس کا کوئی بھی
نام ہو یا کسی بھی مسلک سے تعلق ہو، کی تخریب کاری سے تحفظ کو فرض قرار دیا
گیا ہے جو زمین پر فساد برپا کررہے ہیں اور جن کا مقصد معصوم افراد میں
دہشت پھیلانا ہے۔ ایران اور سعودی عرب خلیجی ممالک میں اپنے مختلف مفاد کے
سبب ایک دوسرے کے حریف ہیں اس لئے اس فہرست میں ایران کا نام شامل نہیں ہے۔
خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق سعودی عرب کے وزیر دفاغ شہزادہ محمد بن
سلمان نے 15؍ ڈسمبر کو صحافیوں کو بتایا کہ اس مہم کے ذریعے عراق، شام،
لیبیا،مصر اور افغانستان جیسے ممالک میں شدت پسندی سے نمٹنے کے لئے کی جانے
والی کوششوں کو مربوط کیا جائے گا۔
امریکہ خطے میں دولت اسلامیہ جیسی شدت پسند تنظیم سے نمٹنے کے لئے خلیجی
ممالک پر مزید فوجی اقدامات کرنے اور مدد کرنے کے لئے زور دیتا رہا ہے۔
تاہم انہوں نے ایسی کوئی اہم بات نہیں بتائی جس سے یہ معلوم ہوسکتا ہیکہ
آیا یہ فوجی مہم کس طرح عمل میں لائی جائے گی۔وزیر موصوف کا کہنا تھا کہ
شام اور عراق میں آپریشن کے لئے اہم طاقتوں اور عالمی اداروں کے ساتھ عالمی
سطح کے روابط استوار کئے جائیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس جگہ پر ہم قانونی
جواز کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ روابط کے بغیر یہ آپریشن انجام نہیں دے
سکتے ہیں۔ سعودی وزیر دفاع سے جب نئے اتحاد کے بارے میں سوال کیا گیا کہ
کیا یہ نیا فوجی اتحاد صرف دولت اسلامیہ کے خاتمہ کے لئے مرکوز ہوگا تو
محمد بن سلمان نے کہا کہ نہ صرف وہ گروپ بلکہ ہمارے سامنے جو بھی دہشت گرد
تنظیم ابھرے گی ہم اس کا سامنا کریں گے۔
سعودی عرب اور اس کے پڑوسی خلیجی ممالک کا اتحاد گذشتہ کئی ماہ سے یمن میں
ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کررہا ہے۔ حالیہ
دنوں میں جس طرح ذرائع ابلاغ کے مطابق دولت اسلامیہ نے مغربی و یوروپی
مقامات کو نشانہ بنایا ہے اس کے بعد سے امریکہ نے خاص طور پر اس بات پر زور
دیا ہے کہ اس فوجی طاقت کا مناسب استعمال دولت اسلامیہ کے خلاف ہوتا تو
زیادہ بہتر ہوتا۔ 34ممالک کے اتحاد کے باوجود آج بھی ان اسلامی ممالک کے
حکمرانوں کو مغربی و یوروپی ممالک کے اشاروں پر ہی آگے بڑھنا پڑے گا کیونکہ
وزیر دفاع کے مطابق کسی بھی اقدام کیلئے عالمی برادری اہم قرار دی گئی ہے ۔
ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ عالمِ اسلام اپنے مضبوط اتحاد کے ذریعہ دشمنانِ
اسلام کی سازشوں کو ناکام بنانے کیلئے انہیں خطے سے واپس جانے کیلئے دباؤ
ڈالتے ۔ لیکن ایسا ممکن نہیں کیونکہ عالمِ اسلام کے حکمراں آج بھی امن و
آمان اور سلامتی کے لئے مغربی و یوروپی ممالک کے اوپر بھروسہ کئے ہوئے ہیں
اور کروڑوں ڈالرز کے ہتھیار و فوجی سازو سامان ان ہی سے حاصل کرتے ہیں اگر
وہ ان ممالک کو خطے سے چلے جانے کا کہیں گے ان ہی اپنے اقتدار سے محروم
ہونا پڑے گا ۰۰۰
دولت اسلامیہ کے تعلق سے امریکی صدر کا بیان
امریکی صدر بارک اوباما نے محکمہ دفاع میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے
ہوئے بتایا کہ دولت اسلامیہ کے کئی اہم رہنماؤں کو نشانہ بنایا جاچکا ہے
بلکہ تیل کی ان تنصیبات پر بھی حملے کئے گئے ہیں جن سے حاصل شدہ تیل فروخت
کرکے دولت اسلامیہ شدت پسند کاررائیوں کے لئے رقم فراہم کرتی رہی تھی۔ بارک
اوباما کا کہنا تھا کہ نومبر کے مہینے میں دولت اسلامیہ کے خلاف اب تک کے
سب سے زیادہ حملے کئے گئے ہیں یعنی سنہ 2014کے موسم گرما سے دولت اسلامیہ
کے شدت پسندوں کے خلاف امریکی قیادت میں شروع ہونے والے فوجی حملوں کے
دوران تقریباً نوہزار فضائی حملے کئے جاچکے ہیں۔ صدر امریکہ نے دعویٰ کیا
کہ عراق میں دولت اسلامیہ جس علاقے پر قابض تھی اس میں سے چالیس فیصد علاقہ
اس سے واپس لیا جاچکا ہے۔ انہوں مزید کہا کہ دولت اسلامیہ کے رہنما کہیں
نہیں چھپ سکتے۔امریکی صدر دولت اسلامیہ کے خلاف کی جانے والی کامیاب فضائی
کارروائیوں کے باوجودیہ خطرہ بھی بتاتے ہوئے خبردار کرتے ہیں کہ امریکہ اور
اس کے اتحادیوں کو آنے والے وقت میں ایک بہت مشکل جنگ کا سامنا کرنا پڑے
گا۔ صدر امریکہ کے اس بیان سے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ خطے میں حالات سازگار
ہونا مشکل ہے اور جب تک امریکہ اور دیگر دشمنانِ اسلام نہیں چاہتے حالات
اسی طرح مزید بدتر ہوتے رہیں گے لیکن مظلوموں کی آہ و بکا بھی انشاء خالی
نہیں جائے گی معصوم و بے قصور انسانیت کا قتل عام چاہے وہ کوئی بھی کررہے
ہیں انہیں بہت جلد اپنے کئے کی سزا ملے گی۰۰۰
***
|