قائداعظم محمد علی جناح ؒکراچی کے
ایک مشہور و معروف تاجرجناح پونجا کے گھرپیدا ہونے والا بچہ جو بچپن ہی سے
دیانت دار،ہونہار،اور فہم و فراست میں اپنی مثال آپ تھا۔ میٹرک کے بعد آپ
کے والد کی خواہش تھی کہ وہ اپنے ہونہار بیٹے کو اپنے ساتھ کارو بارمیں لگا
کرکاروبار کووسعت دیں مگر قدرت نے اس عظیم انسان کو کسی اور ہی مقصد کے لیے
بھیجاتھا۔چنانچہ آپ کو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انگلستان بھیج دیا
گیا۔اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد جب آپ واپس تشریف لائے توانھیں مسلمانوں کی
حالت زار دیکھ کرگہرا دکھ ہوا۔اور ان کو شدت سے محسوس ہو ا کہ مسلمانان ہند
کو ان کی سخت ضرورت ہے اس وقت مسلمان غلامی کی زندگی گزار رہے تھے اور اپنے
جائز حقوق سے بھی محروم تھے ۔قائداعظم سمجھتے تھے کہ مسلمان مذہب کی رو سے
ہندوؤں اور انگریزوں سے الگ قوم ہیں اس لیے ان کی آزادی اور خود مختاری کے
لیے ایک علیحدہ ا سلامی ریاست کی ضرورت ہے۔ یہاں اگر مصور پاکستان ڈاکٹر
علامہ اقبالؒ کا ذکر نہ کیا جائے تو مناسب نہ ہوگا۔ یوں تو حضرت علامہ
اقبالؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔ یوں تو ہم ہر برس یوم اقبال
اوریوم قائدبڑے عقیدت واحترام سے مناتے ہیں لیکن اپنے عظیم قائدین کے قول
اور عملی زندگی کوسمجھنے کی کوشش نہیں کرتے ۔یہی سوچ کر میں آج اپنی تحریر
میں اپنے عظیم قائد مصور پاکستان حضرت ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کے بارے میں کچھ
معلومات شامل کررہا ہوں۔حضرت علامہ اقبال 9نومبر1877کوسیالکوٹ میں پیداہوئے
ان کے والد کا نام شیخ نور محمدتھا جن کا تعلق کشمیری برہمنوں کے خاندان سے
تھانور محمد ایک سچے ،کھرے اور ایماندار انسان تھے ۔حضرت علامہ اقبال نے
ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے ہی حاصل کی آپ ایف اے کا امتحان مرے کالج سیالکوٹ
سے پاس کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے لاہور چلے گئے جہاں آپ نے بی اے
اور ایم اے کے امتحانات گورنمٹ کالج لاہور سے پاس کئے ۔1905میں آپ اعلیٰ
تعلیم کے لیے انگلستان چلے گئے اورکیمبرج یونورسٹی میں داخلہ لیا اور پھر
وہاں سے رہنمائی حاصل کرنے کے بعد حضرت علامہ اقبالؒ جرمنی چلے گئے جہاں آپ
نے مونخ یونیورسٹی سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی ۔اور یوں آپ اس
دور کے نہایت بڑے شخص تھے ۔آپ نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے برصغیر
پرانگریزی تسلط اورہندوستان کے عہد غلامی میں مسلمانانِ ہند کوبیدار کرنے
کے لیے اپنے لوح وقلم فکروادراک اور شعروادب کووقف کردیا۔ہندواور
انگریزسامراجی عہدجبریت میں برصغیرکے مسلمانوں کوآزادی کی اہمیت کادرس
دیا۔یہ کام اس وقت آسان نہ تھا مگر حضرت علامہ اقبال نے اپنے چراغ فکر کا
اجالا پھیلاکرمسلمانوں کوظلم وستم کے تاریک اندھیروں میں وہ روشنی دی جس کا
وجود آج بھی نہ صرف پاکستان بلکہ ساری دنیا کے مسلمان محسوس کرتے ہیں۔جی
ہاں وہ علامہ اقبالؒ ہی تھے جنہوں نے 30دسمبر1930ء کوالہ آباد میں منعقدآل
انڈیامسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں اپنا صدارتی خطبہ دیتے ہوئے صاف صاف
الفاظ میں فرما دیا کہ انگریزی تسلط کے اندر یاباہر(ہندوستان کے ان علاقوں
پر مشتمل جن میں مسلمانوں کی اکثریت تھی )بہرحال مسلمانوں کے لیے ایک الگ
خطے کا قیام نا گزیر ہوچکا تھا۔علامہ اقبال کا وہ اعلان قیام پاکستان کے
اندھیرے راستوں کو روشن کرنے والا پہلا چراغ تھا ۔اور پھر علامہ اقبال ہی
کے اصرار پرمسلمانان ہندوستان کے بطل جلیل اورمسلمانان ہندوستان کے منتشر
شرازے کومجتمع کر کے ایک قوم کے سانچے میں ڈھال دینے والے عظیم رہبر حضرت
قائداعظم محمد علی جناح انگلستان سے واپس بمبئی تشریف لائے اور آل انڈیا
مسلم لیگ کی نئے سرے سے تنظیم سازی کرنے کے بعد 23مارچ1940ء کولاہورمیں
برصغیر کے تمام مسلم لیگی رہنماوں کی موجودگی میں صدارت کرتے ہوئے وہ
قرادادمنظور کرائی جس نے ہندؤ پریس کو قرارداد پاکستان تسلیم کرنے اور
گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیا۔اور پھر حضرت قائد اعظم کی عظیم الشان قیادت
میں وہ ناقابل شکست تحریک چلی جس کی کوئی مثال نہیں ملتی اور بلاآخر 14اگست
1947کوپا کستان اسلامی مملکت کے طور پر دنیا کے نقشے پر ابھرا۔قائد اعظم
محمد علی جناح کوان کی اصول پسندی ،مستقل مزاجی،فرض شناسی اورایمان داری کی
وجہ سے پاکستا ن کے پہلے گورنر جنرل بنایا گیا بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب
ہوگا کہ اس عہدے پر سرفرازی ،قائد کی بے لوث خدمات کا اعتراف تھا ۔ کیونکہ
صرف جناح کی قیادت اور درخشندہ شخصیت ہی مسلمانوں کو مطمئن ومتحرک کر سکتی
تھی۔بحثیت گورنر جنرل قائد اعظم کی حیثیت بے مثل تھی ان کی حیثیت مروجہ طرز
حکومت میں محض ایک روایتی سربراہ مملکت کی نہیں تھی،بلکہ انہیں وہ حیثیت
حاصل تھی جو کہ بانی پاکستان اور بابائے قوم کے لیے وقف تھی ایسی شخصیت
جنھیں نہ صرف اپنے بلکہ غیر بھی مانتے تھے ۔قائد اعظم کے کارنامو ں اور
تاریخی کردار پر تبصرہ کرتے ہوئے اسٹینلے والپرٹ نے تحریر کیا کہ چند افراد
نے تاریخ کے دھارے کو بدلنے کی نمایاں کوشش کی ،اور صرف چند نے دنیا کا
نقشہ تبدیل کیا،لیکن شائد ہی کسی رہنما کو قومی ریاست قائم کرنے کا اعزاز
حاصل ہوا ہو۔محمد علی جناح نے یہ تینوں کارنامے انجام دیے۔قائد اعظم ایک
ہمہ گیر عمل سیاسی رہنما تھے یہ ان کی سچی اور پر خلوص جدوجہد کانتیجہ
تھاکہ بے شمار دشواریوں اور رکاوٹوں کے باوجود ایک مقتدر مملکت پاکستان
وجود میں آئی۔ قائد اعظم پاکستان کو مضبوط و مستحکم ،ترقی یافتہ اور خود
کفیل بنانا چاہتے تھے مگر زندگی نے ان کو مہلت نہ دی اور وہ مختصر علالت کے
بعد 11ستمبر1948ء کو خالق حقیقی سے جا ملے ۔ قائد اعظم کہتے تھے کہ میرا
کام اب ختم ہوچکا ہے اب مجھے مرنے کا افسوس نہ ہوگا، چندبرس قبل یقینا میری
آرزو تھی کہ میں زندہ رہوں اس لیے نہیں کہ مجھے دنیا کی تمنا تھی یا میں
موت سے خوف کھاتا تھابلکہ اس لیے کہ قوم نے جو کام میرے سپرد کیا تھا اور
قدرت نے جس کام کے لیے مجھے چنا تھا،میں اسے پایہ تکمیل تک پہنچا سکوں۔وہ
کام پورا ہوگیا ہے میں اپنا فرض نبھا چکاہوں، پاکستان بن گیا ہے۔اب یہ قوم
کا کام ہے کہ وہ اس کی تعمیر کرے اورناقابل تسخیر اور ترقی یافتہ ملک
بنائے۔حکمران حکومت کا کام نظم و نسق، دیانت داری،اور محنت سے چلائے۔صد
افسوس کہ قائداعظم جس پاکستان کو مضبوط و مستحکم ،ترقی یافتہ اور خود کفیل
دیکھنا چاہتے تھے آج اسی پاکستان کی ہم نے چو لیں ہلا کر رکھ دی ہیں اور وہ
ترقی کی راہ سے بھٹک کرگداگری کی راہ پرآن پڑا ہے ۔ پاکستان قدرتی وسائل سے
مالامال ہے ۔سونا اگلتی ذرخیز زمینیں ،سمندر،دریا ،پہاڑ ،میدان، سونے ،چاندی
،تانبے ،قیمتی پتھر ،کوئلے کے ذخائر،قدرتی نمک کے ذخائر،قدرتی گیس،تیل سال
میں چار موسم ،پاکستان کپاس کی پیداوار کے حوالے سے دنیاکاپہلا ملک ،چینی
پیدا کرنے والا 5واں ،گندم پیداکرنے والا9واں،پھر بھی پاکستان کے حکمرانوں
کا بھیک مانگناعوام کی سمجھ سے بالاتر ہے ۔بھلا جس کے گھر میں پیٹ بھرنے کے
لیے کھانا ہو ۔جس کے پاس تن ڈھکنے کے لیے کپڑا موجود ہو۔جس قوم کے تھوڑی سی
محنت کرنے پر تاب ناک مستقبل اس کے قدم چومے اسے کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ
دوسروں کے سامنے دست دراز کرے۔ وہ قوم جس پر زکواۃ دینا فرض ہو وہ قوم خود
غیر مذہب لوگوں سے جھولی پھیلائے صدقہ خیرات مانگ رہی ہے ۔ قائد اعظم جس
قوم کو معاشی چکی میں پسنے سے بچانا چاہتے تھے آج اسی قوم کا برا حال ہے
اور ایسا صرف اس لیے ہوا ہے کیونکہ ہم نے قائد اعظم محمد علی جناح کی ایمان
داری، دیانت داری ،مستقل مزاجی ،فرض شناسی،روشن خیالی اور عمدہ اصولوں
کوبھی ان کے ساتھ ہی دفن کردیاہے۔ آج ہم اپنے بڑے بڑے دفتروں میں بڑے فخرکے
ساتھ اپنے قائد کی بڑی سی تصویر لگاتے ہیں کہ ہم تو بڑے محب وطن،اور
قائدانہ سوچ کے حامل ہیں، اور پھر اسی دفتر میں بیٹھ کرنا انصافی، بددیانتی،
رشوت،سفارش،اقربا پروری اوردوسرے بہت سے معاملات میں سارا سارا دن ہیر
پھیرکرتے رہتے ہیں اور ہماری پشت پر لگی ہے قائد کی تصویر، کیا یہ ان کی پر
خلوص قربانی کی توہین نہیں ہے اگر ہم ان کی سیاسی بصیرت اورعمدہ اصولوں سے
رو گردانی نا کرتے تو یقیناآج ہمارا حال کچھ اور ہوتا ۔مگر ہم نے نہ صرف ان
کے احسانات بلکہ ان کے اقوال و عمل کو بھی فراموش کردیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ
ہماری نو جوان نسل بھی اپنے عظیم قائد کی پر وقار زندگی سے پوری طرح آگاہ
نہیں اگر ان سے غیرملکی فلمسٹاروں کے بارے میں پوچھا جائے تو وہ فر فر پورا
بائیو ڈیٹابتائیں گے،ٹی وی ڈراموں کا پوچھا جائے تو یقینا سبھی یاد ہونگے،
مگر اگر ان سے قائد اعظم کی زندگی کا کوئی حوالہ پوچھا جائے تونتیجہ غلط
جواب کی صورت میں نکلے گا،مگر اس میں ان کا کوئی قصور نہیں ہے یہ سارا کیا
دھرا تو ہمارا ہے ہم نے ان کو بتایا ہی کب ہے سکھایاہی کب ان کے سامنے
ایمان داری، دیانت داری،مستقل مزاجی،فرض شناسی،روشن خیالی اور عمدہ اصولوں
کا مظاہرہ کیا ہی کب ہے۔افسوس کہ ہم اپنے ساتھ ساتھ نوجوان نسل جسے قائد
اعظم قوم کا سرمایہ کہتے تھے ،اس کو بھی تباہ و برباد کر رہے ہیں ۔ |