شر میں خیر کا پہلو

امریکا میں آئندہ سال انتخابات کے بعدقصرسفیدمیں کون سافرعون براجمان ہوگا،اس کیلئے ابھی سے دومضبوط امیدوارمیدان میں اپنے نت نئے بیانات سے اپنے ووٹروں کواپنی جانب راغب کرنے کیلئے کئی ایسے بیانات کاسہارالے رہے ہیں جنہوں نے عالمی امن کوکئی نئے امتحانات سے دوچارکردیاہے۔ان میں سے ایک امریکی ارب پتی ڈونلڈٹرمپ جورئیل اسٹیٹ کے شعبہ کابہت بڑانام ہے،مسلمانوں کے ساتھ دشمنی میں دیگرمتعصب سیاسی اکابرین کوبھی پیچھے چھوڑدیاہے۔انہوں نے اپنے بیان میں امریکامیں مسلمانوں کی آمدپرمکمل پابندی عائدکرنے کااعلان کردیاجس پرساری دنیاسے جب اس پرشدیدتنقیدہوناشروع ہوئی تواس نے فوری طورپرپینترہ بدلتے ہوئے اس سے عارضی طورپرپسپائی اختیار کرناشروع کردی ہے لیکن سیاسی تجزیہ نگاروں کاکہناہے کہ اگلے انتخابات میں اگروہ جیت گئے(جس کے امکانات روشن ہیں)تو مسند صدارت پرفروکش ہوجائیں گے۔
 
مسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائی ڈونالڈٹرمپ کاشوق ہے،مسلمانوں کے تعصب کے حوالے سے ان کاروّیہ معذرت خواہانہ ہرگزنہیں،ڈیموکریٹک پارٹی والے انہیں’’کاروان بارکر‘‘قافلے کابھونکو''کہتے ہیں، ان کااشارہ دراصل انگریزی کی اس ضرب المثل کی جانب ہے کہ''کتے چاہے بھونکتے رہیں قافلہ رواں دواں رہتا ہے''۔ڈونلڈٹرمپ نے نیوجرسی کے رہنے والے عرب مسلمانوں پریہ الزام بھی لگایاہے کہ ستمبرکاسانحہ ہواتو انہوں نے اس کاجشن منایاتھا۔ایسی بیہودہ باتیں جن کا حقیقت سے دورکاتعلق نہیں لیکن ڈونالڈٹرمپ اکثرپروپیگنڈے کیلئے ایسے مضحکہ خیزبیانات بڑی آسانی کے ساتھ دیتے رہتے ہیں اور تحقیقات کے بعد شرمندہ ہونابھی ضروری نہیں سمجھتے اورمین اسٹریم میڈیاان کے ایسے بیانات کی ہمیشہ تردیدکرتے رہتے ہیں۔ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے جرسی سٹی کے میئراسٹیون فلپ نے اپنے ٹوئٹ میں کہاکہ ٹرمپ کی یاتویادداشت خراب ہے یاپھروہ جانتے بوجھتے ہوئے سچائی کاتمسخر کرتے ہیں،یہ دونوں باتیں ری پبلکن پارٹی کیلئے قابل تشویش ہونی چاہئیں۔

رائے عامہ کے لحاظ سے ڈونالڈٹرمپ اس وقت سب سے آگے ہیں اوراسی لیے وہ امریکامیں رہنے والے مسلمانوں کے خلاف بھی پوری شدت کے ساتھ بول رہے ہیں۔ری پبلکن پارٹی کے سبھی صدارتی امیدواروں کی جانب سے اسلام کے حوالے سے اس طرح کی ہرزہ سرائیاں کی جارہی ہیں، جن کی کوئی حد نظرنہیں آرہی۔پیرس حملوں کے بعدسے تو ان میں بطورخاص خطرناک حدتک شدت آئی ہے، جس کے نتائج یقینامثبت نہیں ہوں گے۔ٹرمپ نے سرعام کھلے لفظوں میں کہہ دیاہے کہ'' امریکاکے پاس اس کے سواکوئی راستہ نہیں بچاکہ مساجدکوبند کر دیاجائے''۔موصوف کاکہنایہ تھاکہ''امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کاڈیٹابیس بنوائیں گے''۔سول سوسائٹی کے مختلف اداروں نے برملااحتجاج کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسی تجویزدینے اورایسی باتیں کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو شرم آنی چاہئے۔

ری پبلکن پارٹی کے ایک صدارتی امیدوارڈاکٹربین کارسن نیوروسرجن ہیں۔اسلام اورمسلمانوں کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں وہ بھی ڈونلڈٹرمپ سے پیچھے نہیں ہیں۔پچھلے دنوں جب شامی مہاجرین کوامریکامیں پناہ دینے کاسوال اٹھاتوڈاکٹر کارسن کاکہناتھاکہ''اگرایساہواتوبالکل ایساہی ہوگاجیسے آپ اپنے گھرکے قریب پاگل کتوں کوآزادچھوڑدیں''۔ بقول ان کے'' اگروہ صدربنے تووہ شامی مسلمانوں کونہیں بلکہ صرف شامی عیسائیوں کوامریکامیں پناہ دیں گے''۔جیب بش بھی ری پبلکن پارٹی کے ایک امیدوارہیں۔انہوں نے بھی یہ یہی بات کہی ہے ۔امریکی اسلامی رابط کونسل کے ترجمان نے الجزیرہ ٹی وی کے ساتھ گفتگو کے دوران کہاکہ'' ڈاکٹرکارسن کی باتیں انسان کیلئے ناقابل تصورہیں کیونکہ پاگل کتوں کا صرف یہی حل ہوتاہے کہ انہیں مار دیا جائے''۔یادرہے کہ صدر اوباما نے اپنی پہلی انتخابی مہم میں تویہاں تک ہرزہ سرائی کی تھی کہ ''اگران کے دورِصدارت میں امریکا پرنائن الیون کی طرح دوبارہ حملہ ہواتواس کے جواب میں خانہ کعبہ پر حملہ کردیں گے''۔

ڈیموکریٹک پارٹی کے ایک صدارتی امیدواربرنی سینڈرزکہتے ہیں کہ امریکامیں بڑھتاہوااسلام فوبیاان کیلئے قابل تشویش بات ہے۔لوگ ووٹ ہتھیانے کیلئے ایک مذہبی گروہ کو داؤ پرلگارہے ہیں۔امریکاایسی باتوں کیلئے نہیں،ٹرمپ اوران کے دیگرہم نوا اسی نکتے کوسمجھنے سے قاصرہیں۔ایک زمانے میں امریکامیں سیاہ فاموں پرپابندی تھی کہ سفیدفام امریکیوں کے ساتھ مل کرکھاپی سکتے تھے نہ ان کے ساتھ بیٹھ سکتے تھے اورنہ ہی ان کے ساتھ رہ سکتے ہیں۔ڈاکٹرمارٹن لوتھر جوامریکامیں سیاہ فاموں کے حقوق کیلئے شہرت رکھتے ہیں،انہوں نے ۱۹۶۷ء میں ہی خبردارکردیاتھاکہ'' نسلی تعصب بہت بری شے ہے کیونکہ اس کا نتیجہ بالآخرنسل کشی ہوتاہے۔اگرکوئی یہ کہتاہے کہ محض اپنی جڑوں کے باعث کوئی اس کے گھر کے قریب رہنے کے لائق نہیں، اگرکوئی کہتاہے کہ میں کھانے کی میزپراس کے ساتھ کھاناکھانے کے لائق نہیں یامیں اس لائق نہیں کہ اس کی مانند ایک اچھااورباوقارذریعہ روزگارمجھے بھی میسرہویااس کے ساتھ ایک ہی اسکول میں پڑھنے کے لائق نہیں توشعوری یالاشعوری طور پر وہ یہ کہہ رہاہے کہ میں زندہ رہنے کے بھی لائق نہیں ہوں''۔

امریکامیں نہ صرف نسلی تعصب آج بھی موجودہے بلکہ دن بدن اس میں اضافہ ہورہاہے جس کی بناء پر''بلیک لائیومیٹر''نامی ایک تنظیم معرض وجودمیں آگئی ہے جس کی بنیادسیاہ فام امریکی نوجوانوں نے رکھی جومحسوس کرتے ہیں کہ امریکامیں قانون نافذکرنے والے ادارے سیاہ فاموں کے ساتھ تعصب روارکھتے ہیں اوراپنے تحفظ کی آڑمیں سیاہ فاموں کو بے دریغ گولی مار دی جاتی ہے۔جہاں تک ملازمتوں کے حصول کاتعلق ہے ،تحقیقی مطالعے سے ثابت ہواہے کہ جن علاقوں میں ری پبلکن پارٹی کاتسلط ہے وہاں ملازمتیں دینے والے ادارے ان امیدواروں کوشاذہی انٹرویوکیلئے بلاتے ہیں ،جن کے سوشل نیٹ ورک پرپروفائل سے ظاہرہوکہ وہ مسلمان ہیں۔

’’پی ای ڈبلیو‘‘ریسرچ سنٹر کے مطابق جن دس امریکی دس ریاستوں میں۲۰۱۲ء کے صدارتی انتخابات کیلئے ری پبلکن پارٹی کے امیدواروں کاتناسب سب سے زیادہ تھا،وہاں ملازمتوں کیلئے درخواست دینے والے سترہ فیصد عیسائی امیدواروں کوانٹرویوکیلئے بلایا گیاتھا،جب کہ اس کے مقابلے میں مسلمان امیدواروں کی شرح صرف دوفیصدتھی۔تجربے کی بنیادپرکہاجاسکتاہے کہ آپ کے نام میں ''محمد''آتاہے تو امریکامیں ملازمت ڈھونڈنے میں آپ کوبے حدمشکلات پیش آئیں گی۔ بدقسمتی سے یہ ایک ایسی حقیت ہے جس کاانکارکوئی بھی نہیں کر سکتا حالانکہ اگرآپ گوگل کریں تومعلوم ہوگاکہ ''محمد''دنیا بھر کاسب سے زیادہ مقبول ترین نام ہے۔

احمدمحمدسے جبری اعترافی بیان لینے پراس کاوکیل ذمہ دارافرادکے خلاف۱۵ملین ڈالرہرجانے کامقدمہ تیارکررہا ہے۔اس کے گھروالے کہتے ہیں کہ احمدکی ساکھ پرایک مستقبل دھبہ پڑچکاہے۔انہیں صرف ہرجانہ ہی نہیں چاہئے بلکہ وہ شہرکے میئراورپولیس چیف سے تحریری معافی کابھی تقاضہ کررہے ہیں۔احمدمحمد نے صدراوباماکی توجہ بھی حاصل کی تھی، جس کے بعد اسے اوراس کے گھروالوں کو وائٹ ہاؤس میں مدعوکیاگیاتھا۔فیس بک کے خالق مارک ذکربرگ نے بھی ایک منفرد گھڑی تخلیق کرنے پرمحمداحمد کوسراہتے ہوئے اسے ملاقات کی دعوت دی تھی۔یہ خاندان اکتوبرہی میں امریکاچھوڑچکاہے لیکن ٹیکساس میں یہ قصہ ابھی تک مشہورہے۔

ابھی پچھلے ہفتے ایک مسجدکے باہرچند لوگوں کے ایک گروپ نے ہاتھوں میں ہتھیار اٹھاکرمسلمانوں کے خلاف مظاہرہ کیا۔ان لوگوں نے ایک جھنڈابھی اٹھا رکھاتھاجس پرلکھاتھا کہ امریکاکواسلامیانا بندکرو۔امریکامیں شہری آزاد ہونے کی یونین’’اے سی ایل یو‘‘کاکہناہے کہ مسلمانوں کی جانب اشارہ کرکے انہیں یوں الگ کرنااوراس خیال کوفروغ دیناکہ ہراسلامی چیزغیرامریکی ہے، ناانصافی اورامتیازی رویے کی انتہاہے اوراسے ردکرناچاہئے۔ایک مذہبی گروہ کایوں ہواکھڑاکردیناکسی بھی پھسلوان ڈھلوان پر چلنے کے مترادف ہے۔ اس سے ایک ایسی چیزکوفروغ مل رہاہے جواس ملک میں اچھائی کے اصول کے قیام کے صریحاً برعکس ہے۔امریکی اکابربالخصوص بش فیملی،جوتین نسلوں سے مسلمانوں کی نسل کشی کیلئے باقاعدہ دہشتگردی میں ملوث ہے۔مسلمانوں کو نیست ونابود کرنے کی کوشش میں کیوں ناکام رہے؟بلکہ دوسرا سوال نہائت اہم ترہے کہ انسداددہشتگردی کے نام پرعالمگیر دہشتگردی پھیلانے اورافغانستان اورعراق وغیرہ پرجارحانہ حملوں کے نتائج یہ نکل رہے ہیں،اسلام کی حقانیت کی طرف مائل اورراغب ہونے والے دنیاکے لوگوں میں امریکی سب سے آگے ہیں ۔خاص طورپرماضی قریب میں(نائن الیون کے بعد) زیادہ برق رفتاری کے ساتھ امریکاہی میں اسلام پھیلاہے اوراس قت وہاں مسلمانوں کی تعداد۹۰لاکھ کے قریب پہنچ چکی ہے۔ آئندہ امریکی صدراگراسمبلی سے مسلمانوں کے خلاف مذموم عزائم کے اعلانیہ اظہارکی مشق میں مصروف ہے تواس کے نتیجے میں بھی امریکی عوام میں اسلام اورمسلمانوں ہی کیلئے ہمدردی پیداہونے کی امیدکی جاسکتی ہے۔ انشاء اللہ
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390474 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.