سعودی عرب اور ترکی عالم اسلام کے دوعظیم ملک ہیں ،
اس وقت بہت تیزی کے ساتھ یہ دونوں ملک ابھر رہے ہیں ،عالمی سطح پر معاشی
اعتبار سے ترقی یافتہ ممالک کی تنظیم جی 20 کے بھی دونوں رکن ہیں ، سعودی
عرب اقتصادی اعتبار سے صرف مسلم ممالک نہیں بلکہ دنیا کے عظیم ترین ملکوں
میں شامل ہے تو ترکی بھی اقتصادیات کے ساتھ عسکری دنیا میں مسلسل ترقی
کررہا ہے اور سپر پاورطاقتوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر باتیں کرنے کا
حوصلہ رکھتا ہے ۔حالیہ دنوں میں سب سے زیادہ تذکرہ انہیں دونوں ملکوں کے
سربراہوں کا ہورہا ہے ، سعودی فرماں رواں شاہ سلمان اور ترکی کے صدر طیب
اردگان مثبت فکر اور بلندعزائم رکھنے والے حکمرانوں کی فہرست میں شامل ہیں
، ان کی قیادت اور حکومت پر پوری مسلم دنیا کی نگاہیں مرکوز ہیں اور آج کے
پر آشوب دور میں ان سے بہت سی توقعات وابستہ ہیں ۔طیب اردگان کے سعودی عرب
کے دورہ پر جانے کے بعد سے یہ توقعات بہت زیادہ بڑھ گئی ہیں ، ان دونوں
رہنماؤں کی ملاقات کا پوری مسلم دنیا خیر مقدم کررہی ہے ، امید افزا نگاہوں
سے دیکھ رہی ،بارگاہ ایزدی میں سر بسجود ہوکر یہ دعا کررہی ہے کہ’’ اے
بارالہ‘‘ انہیں ثابت قدمی عطا فرما، ان کے پائے ثبات کو لرکھڑانے سے بچا ،ان
کی قیادت میں عالم اسلام کو ماضی جیسا عروج نصیب فرما،انہیں ہر طرح کے شرو
ر وفتن اور اغیار کی سازشوں سے محفوظ فرما۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ عالم اسلام اس وقت تاریخ کے مشکل ترین دور سے
گذررہا ہے ، مشرق وسطی پر خطرات کے بادل منڈلارہے ہیں ، گذشتہ کئی دہائیوں
سے مشرق وسطی میں جو جنگ جاری ہے وہ دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے ، عرب بہاریہ
کے نام پر جو تحریک مشرق وسطی میں شروع ہوئی وہ بدترین خانہ جنگی میں تبدیل
ہوگئی ہے،عراق و شام جیسا خوشحال ملک باروڈ کا ڈھیر بن چکا ہے ، لیباخاک و
خون میں ڈوب گیا ہے ، تیونس میں قیام امن ایک دیرینہ خواب بن کر رہ گیا ہے
،مصر میں السیسی کے مظالم کا سلسلہ بدستور جاری ہے ،فلسطین میں بے گناہوں
کے قتل عام اور اسرائیلی قہرکو عالمی طاقتوں کی طرف سے مکمل اجازت حاصل ہے
، شام و عراق میں داعش کے نام پر انتہائی بے دردی کے ساتھ معصوم مسلمانوں
پر حملے کئے جارہے ہیں ،یمن میں حوثی باغیوں کی دہشت گردانہ کاروائی ختم
ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے، پاکستان ،افغانستان اور دیگر ملکوں میں دہشت
گردوپوں کی مودجود گی اور ان کی پشت پناہی ایک مستقل ناکامی ہے ۔دوسرے طرف
ان ممالک میں جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہ اکثریت کے مظالم کے شکا رہیں ،
مذہبی آزادی کی فضا میں سانس لینے سے محروم ہیں ،کبھی ان کی مسجدوں پر حملہ
ہوتا ہے،کبھی قرآن کریم کی بے حرمتی کی جاتی ہے،کبھی حضور پاک صلی اﷲ علیہ
وسلم کی شان میں گستاخی کا ارتکاب کیا جاتاہے، کبھی نماز اور دیگر مذہبی
رسومات و عبادت پر پابندی لگانے کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے ،کبھی برقعہ
پہننے اور اسلامی شعائر اختیار کرنے پر جرمانہ عائد کیا جاتا ہے ،کبھی دہشت
گرد قراردے کر ملک بدر کرنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے ،کبھی ان کی شہریت سلب
کرلی جاتی ہے ،کبھی کسی مسلمان کے وہاں جانے پر پابندی لگادی جاتی ہے ،الغرض
مسلمان ہر جگہ پریشان ہیں ،جہاں ان کی اپنی حکومت ہے ،جہاں اپنی زمین ہے
وہاں بھی وہ پریشان ہیں ، ان کی زندگی خطرے میں ہے ، امن وسکون سے محروم
ہیں اور جہاں ان کی حکومت نہیں ہے وہاں بھی وہ پریشان ہیں ، حادثات و مصائب
کے شکار ہیں ، اغیار کے مظالم برداشت کرنے پر مجبور ہیں ۔
عالم اسلام کی موجودہ صورت میں پوری دنیا کے مسلمانوں کی نگاہیں اس وقت
انہیں دو عظیم رہنماؤں کی طرف مرکوز ہیں اور یہ توقعات وابستہ ہیں کہ اس
مشکل گھڑی میں عالم اسلام کے لئے مسیحا ثابت ہوں گے ،اپنی حکمت عملی ،دور
اندیشی ،دینی بصیرت ، ملی حمیت ،ایمانی غیرت ،فوجی طاقت اور اقتصادی ترقی
کے ذریعے عالم اسلام کو ان مشکلات سے نجات دلائیں گے ،اپنے فیصلوں کے ذریعہ
مسلم دنیا کو مغرب کی غلامی سے چھٹکارادلائیں گے ،ماضی کی شان اور عظمت کے
اوراق کو دہرائیں گے ۔یہ دونوں عالم اسلام کے دلوں کی ڈھرکن اور عظیم رہنما
ہیں ، دینی مزاج سے ہم آہنگ اور اسلامی شعائر کے پابند نظر آتے ہیں ،
مسلمانوں کی ترقی کے تئیں مسلسل کوشاں اور فکر مند رہتے ہیں ،شاہ سلمان نیک
خو ،نیک سیرت ،صالح اور حافظ قرآن ہیں ،حکومتی پالیسی کے حوالے سے ان کا
نظریہ اپنے بھائی سے بالکل مختلف ہے ، اندرونی ذرائع سے ملی ایک خبر کے
مطابق یمن سے متصل صوبے کا گورنر اخوان المسلمین سے ہم آہنگ ایک شخص کو
انہوں نے بنارکھاہے۔طیب اردگان بھی عظیم اخلاق کے مالک اور بلند عزائم سے
سرشار ہیں، عالم اسلامی کی سربلندی ان کا دیرینہ خوا ب ہے ۔جی 20 کانفرنس
میں گروپ پوز کے وقت اوبامہ کو روک کر شاہ سلمان کو سب سے آگے انہوں نے ہی
بڑھایاتھا،سوشل میڈیا پر طیب اردگان کی ایک ویڈیو بے حدمقبول ہوچکی ہے جس
میں وہ ایک محفل میں لحن داؤد ی میں قرآن کریم کی تلاوت کررہے ہیں۔
اس تناظر میں30 دسمبر کو ریاض میں ان دونوں رہنماؤں کی ہونے والی ملاقات
بہت ہی اہم اور معنی خیز ہے ،شاہ سلمان اور صدر طیب اردگان کے ملاقات کی جو
تفصیلات میڈیا میں آئی ہے اس سے یہ عیاں ہے کہ دونوں حکمراں عالم اسلام کی
موجودہ صورت حال کے تئیں فکر مند اور پریشان ہیں ۔عرب نیوز نے دونوں
رہنماؤں کی ملاقات کے دوران ہوئی گفتگو کے بارے میں لکھاہے کہ ریاض اور
انقرہ نے مضبوط معاون کونسل(strategic cooperation council) کے قیام پر
اتفاق کیا ہے ۔اس کونسل کے تحت سیکوریٹی ،فوجی ،تجارتی ،اقتصادی توانائی
اور سرمایہ کاری کے معامالات حل کئے جائیں گے۔ان دونوں رہنماؤں نے شام و
عراق کے ناگفتہ بہ حالات پر بھی تبادلہ خیال کیا ہے ، ساتھ ہی لیبیا اور
یمن میں جاری خانہ جنگی کے خاتمہ اور قیام امن کے تئیں فکرمندی ظاہر کی ہے،
مسلم ممالک میں جاری سیاسی بحران کو حل کرنے پر اتفاق کیا ہے ، سعودی عرب
کی قیاد میں تشکیل شدہ 34 مسلم ممالک کے اتحاد کو کامیابی سے ہم کنار کرنے
کے لئے بھی طیب اردگان نے مکمل تعاون دینے کا وعدہ کیا ہے۔
عالم اسلام کے ان دو عظیم رہنماؤں کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوری ہے
جب سال 2015 اختتام پذیر ہے، عراق و شام کی تباہی،بڑی تعداد میں مسلمانوں
کی ہجرت ،بے گناہوں کے قتل عام ،داعش کے نام پر اسلام کودہشت گردی سے جوڑنے
کی مساعی ،پیر س حملہ کے تناظر میں اسلام فوبیا کا فروغ اوردیگر واقعات کے
تناظر میں مجموعی طور پر عالم اسلام کے حق میں ہم اسے بہتر نہیں کہ سکتے
ہیں تاہم امید رکھتے ہیں کہ اختتام پر دونوں رہنماؤں کی ملاقات گذشتہ
واقعات کی تلاقی ثابت ہوگی ، آنے والا سال عالم اسلام کے لئے خوشگوار ثابت
ہوگا، ایک نئی بہار اور نیا پیغام لیکر آئے گا ،مملکت سعودی عربیہ اور
جمہوریہ ترکی کی قیادت میں مسلم دنیا تاریخ کا ایک نیا اور شاہکار باب رقم
کرے گی، شاہ سلمان اور طیب اردگان مسلم دنیا کی تعمیر و ترقی میں خصوصی
کردار نبھائیں گے ،عالم اسلام کی توقعات کو پایہ تکمیل تک پہونچائیں گے ۔ |