پیر کی صبح جنرل راحیل شریف افغان صدراشرف غنی،عبداللہ
عبداللہ اوردیگرسیاسی وعسکری قیادت کے ساتھ ملاقات کیلئے کابل پہنچے جہاں
دونوں ممالک نے اتفاق کیاہے کہ وہ مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے تعاون کریں
گے اورآپس میں مل کرکام کریں گے اوراپنی مشترکہ ذمہ داری کاادراک رکھتے
ہوئے تمام فریق افعانستان کی قیادت میں ہونے والے مذاکراتی اورمصالحتی عمل
کی حمایت کریں گے اوراس بات کویقینی بنائیں گے کہ یہ عمل کامیاب ثابت
ہو۔پاکستانی فوج کے سربراہ اورافغان قیادت اورحکام نے ملاقات میں اس بات
پربھی اتفاق کیاکہ وہ دہشت گردی کے خطرے کامل کرمقابلہ کریں گے اورایک
دوسرے کے ساتھ خفیہ معلومات کا تبادلہ مستعدی سے کریں گے تا کہ دونوں ممالک
کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف کارروائیوں کے لیے استعمال نہ کی جاسکے۔ وہ
عناصر جواس پیشکش کے بعدبھی تشدد کاراستہ اپنائے رکھیں گے ان کا مقابلہ ایک
مشترکہ حکمت عملی کے تحت کیاجائے گا۔
صدر اشرف غنی اورچیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے ساتھ ملاقات میں جنرل
راحیل شریف نے زور دیا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک مؤثرنظام قائم کیا
جائے جس کامقصد درمیانی سرحد سے آر پار جانے والے افراداورقبائلیوں کی
آمدورفت میں ربط پیداکرناہو۔جنرل راحیل شریف کواس ماہ کے شروع میں اسلام
آباد میں افغانستان کے بارے میں ہونے والی بین الاقوامی ہارٹ آف ایشیا
کانفرنس کے انعقاد سے قبل نودسمبر کوکابل جاناتھا لیکن دونوں ملکوں کے
درمیان تعلقات کی پیچیدگی کے باعث یہ دورہ ملتوی کردیاگیاتھا۔یادرہے کہ
افغان حکومت اورطالبان کے درمیان براہِ راست مذاکرات پہلی مرتبہ اس سال
جولائی میں پاکستان کی میزبانی میں مری میں منعقد ہوئے تھے، لیکن مذاکرات
کایہ سلسلہ طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کی طبی موت واقع ہونے کی خبر سے
تعطل کا شکار ہو گیا تھا۔
اب ایک مرتبہ پھرہارٹ آف ایشیاکانفرنس کے بعدجنرل راحیل شریف کے دورۂ کابل
کے بالآخر مثبت اثرات اورنتائج سامنے آناشروع ہوگئے ہیں۔باخبر ذرائع
کاکہناہے کہ بالآخرافغان طالبان کے تمام دھڑوں بشمول ملااختر منصوراور ملا
محمدرسول اخونداورکیوباسے رہاہوکرآنے والے ملاعبدالقیوم ذاکر کو مذاکرات
کیلئے آمادہ کرلیاگیا ہے ۔ذرائع کاکہنا ہے کہ افغان طالبان کے امیرملااختر
منصوراورملا اخوند کوداعش کی سرگرمیاں روکنے کیلئے بھی راضی کیاگیا ہے
اوریہ کہ اسے حوالے سے ایک ہزارطالبان کاخصوصی دستہ بھی بنایاجا چکاہے ۔
آئندہ ماہ شروع ہونے والے افغان مذاکرات کیلئے ہونے والے طالبان کے ساتھ نہ
صرف رابطے ہوئے ہیں بلکہ افغان طالبان کے سب سے بڑے گروہ جس کی قیادت
ملامنصور کررہے ہیں اور اس کے علاوہ پہلی مرتبہ طالبان کے ناراض دھڑے
ملاذاکراورملامحمدرسول اخوندنے بھی امن مذاکرات کیلئے رضا مندی کا
اظہارکردیاہے جوکہ ایک انتہائی اہم پیش رفت ہے۔مصالحتی کمیٹی کی کئی دنوں
سے جاری کوششوں کے بعد ملا اختر منصور اور ملا رسول اخوند نے کئی معاملات
پرلچک کامظاہرہ کرنے پرآمادہ ہوئے ہیں تاکہ دنیابھرمیں طالبان کی طرف سے
امن مذاکرات کیلئے مثبت پیغام جائے تاہم کیوباسے رہا ہونے والے
ملاعبدالقیوم ذاکراوردیگرطالبان کمانڈرجبکہ بگرام سے رہاہونے والے طالبان
کمانڈرز مذاکرات کے حق میں نہیں تھے لیکن اپنے تحفظات کے ساتھ انہوں نے
بالآخرامن مذاکرات کی حمائت کااعلان کردیاہے۔ان کمانڈرزکاکہناہے کہ
امریکااپنی شکست کوفتح میں تبدیل کرنے کیلئے وقت حاصل کرنا چاہتاہے اور اس
مقصدکیلئے امریکااس طرح اپنے پرانے ہتھکنڈوں یعنی دوسرے گروپوں کوطالبان کے
مقابلے میں کھڑاکرکے خانہ جنگی شروع کرناچاہتا ہے جس طرح عراق ،لیبیااورشام
میں کیا گیا،جہاں جہادی آپس میں لڑپڑے۔
دوسری جانب روس بھی میدان میں کودپڑاہے اورہرطرف سے مسلمانوں کا گھیراؤ
کیاجارہاہے چونکہ امریکاپراس وقت کاری ضرب لگانے کی ضرورت ہے اورایساموقع
افغان عوام اورافغان مجاہدین کوپھرنہیں ملے گا،اس لئے طالبان کو
متحدہوکرقابض افواج کا گھیراؤ کرنا چاہئے۔ مجاہدین انتہائی صبرواستحکام سے
۱۴سال تک ہرقسم کی قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرکے جب امریکا کوتھکاچکے ہیں
تواس کی کٹھ پتلی حکومت سے مذاکرات کی باتیں لایعنی ہیں۔پہلے امریکا
مذاکرات سے انکارکرتارہالیکن اب جب اس کے فوجی میدان جنگ سے بھاگ رہے ہیں
توامریکا مذاکرات کے لئے کبھی پاکستان کی اورکبھی سعودی عرب کی منت کرتاہے
اورکبھی سازش کرکے طالبان کو کمزورکرکے مذاکرات کی میزپرلاناچاہتاہے جس
کوسمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔
ذرائع کے مطابق کیوباسے رہاہونے کمانڈروں کارویہ انتہائی سخت ہے اوروہ
امریکاکے ساتھ کسی بھی صورت مذاکرات کے حق میں نہیں جبکہ امریکاکے خلاف
مزاحمت میں شدت آرہی ہے اورطالبان کومختلف علاقوں میں فتح حاصل ہورہی ہے۔ان
کمانڈروں نے ملااختر منصورکے سامنے پکتیامیں کی جانے والی کاروائیوں کی
ویڈیوبھی سامنے رکھی جس میں پہلی بارحملے کے بعدامریکی فوجی اپنی گاڑیاں
چھوڑکرمسافرگاڑیوں میں بھاگتے ہوئے دکھائی دیے۔ بدحواس امریکی فوجیوں نے
مسافروں کوزبردستی گاڑیوں سے نیچے اتاردیا تھا۔اس ویڈیو میں بعض فوجیوں نے
اپنے فوجی سازوسامان کے بیگ بھی قریبی واقع ندی میں پھینک دیئے تھے جبکہ
ایک ویڈیومیں دریائے کنڑکے قریب کاروائی دکھائی گئی جس میں امریکی فوجی
بدحواسی کے عالم میں دریائے کنڑمیں چھلانگیں لگا رہے تھے۔ان کمانڈروں
کامؤقف ہے کہ امریکیوں کی شکست روسیوں سے بھی زیادہ ذِلّت آمیزہے لہندااس
ذلت آمیز شکست کو امریکااپنی فتح میں تبدیل کرنے کیلئے مذاکرات چاہتاہے۔
ذرائع کے مطابق ملاذاکراوران کے ہم خیال کمانڈرزمذاکرات کواس وقت تسلیم
کریں گے جب انہیں عملی یقین دہانی کرائی جائے گی کہ امریکا،افغانستان سے
مکمل طورپرانخلاء کرے گااوریہ کہ افغانستان کوموجودہ آئین منسوخ کیاجائے
گا۔طالبان کو حق حکمرانی دیاجائے گااورافغانستان میں ایک مکمل اسلامی و
فلاحی ریاست کی بنیادرکھی جائے گی۔اگرامریکامذاکرات کے ذریعے جمہوریت کی
باتیں کرتاہے تواس میں طالبان کاکوئی فائدہ نہیں اورنہ ہی طالبان کسی ایسے
نظام کاحصہ بنیں گے جس میں مغربی طرز کے انتخاب منعقدکیے جائیں کیونکہ
طالبان کوپانچ فیصدووٹ بھی نہیں ملیں گے اورکل کوامریکا اور اس کے حواری یہ
پروپیگنڈہ کریں گے کہ طالبان کوافغان عوام نے مسترد کر دیاہے۔ذرائع کے
مطابق امن مذاکرات کیلئے کیوبااور بگرام گروپ کومذاکرات پرراضی کرنا
انتہائی مشکل تھاجبکہ ملامحمدرسول اخوند اور ان کے ساتھی نہ صرف مذاکرات
پرراضی ہیں بلکہ وہ ملااخترمنصور کے ساتھ بھی اپنے معاملات طے کرنے کیلئے
تیاہوگئے ہیں۔
اس حوالے سے طالبان کی وہ مصالحتی کمیٹی جس نے اپناکام ختم کردیاتھا، ایک
بارپھربڑی محنت اورعرق ریزی کے بعدان چاروں گروپس کے کمانڈروں کوامن
مذاکرات کیلئے آمادہ کیاہے۔ذرائع کے مطابق ملاعمرکے صاحبزادے ملایعقوب
اوران کے بھائی ملاعبدالمنان ،ملااخترمنصورکی امارت پرنہ صرف مطمئن ہوگئے
ہیں بلکہ انہوں نے طالبان کے معاملات سے خود کومکمل طور پرالگ کر لیا ہے
جبکہ فدائی محاذنے پہلے ہی ملااخترمنصورکی حمائت کی تھی۔ہلمندپرہونے والے
حملوں میں جس میں ہلمندکے سترفیصدحصے پرطالبان کا قبضہ ہوا،اہم کرداراسی
فدائی محاذنے اداکیا۔
پاکستان کی طرف سے جنرل راحیل کی انتھک محنت کے بعداس سلسلے میں
پاکستان،افغانستان،چین اور امریکہ کے درمیان چارفریقی مذاکرات کاپہلادور
جنوری میں ہوگا جس میں بحالی امن کے ایک بامعنی عمل کے لیے واضح اور جامع
روڈ میپ کی شکل دی جائے گی۔ جس میں ہر فریق کی ان ذمہ داریوں کا احاطہ
کیاجائے گا جومذکورہ فریق کوبحالی امن کے مختلف مراحل پر اداکرنا ہوں گی ۔
پاکستانی فوج کے بیان کے مطابق بات چیت میں فریقین نے اتفاق کیا ہے کہ امن
مذاکرات کاآغازافغانستان کے طالبان کے ان گروہوں سے ہوگا جوقیام امن
اورمصالحت کے عمل کاحصہ بنناچاہتے ہیں جس کے بعد مذاکرات میں طے پانے والے
معاملات پرفوری عملدرآمدکے بعددوسرے گروہوں کیلئے امن مذاکرات میں شامل
ہونامزیدآسان ہوجائے گا۔اب ضرورت اس امرکی ہے کہ امن مذاکرات کیلئے ہرفریق
دیانتداری سے اپناایساکرداراداکرے کہ آئندہ تاریخ کے سامنے اس کی آئندہ آنے
والی نسلوں کوکوئی شرمندگی نہ ہو! |