نزیر اے قمر

نزیر اے قمر

 میرے الفاظ میری سوچ اور میرے جذبے کی ترجمانی نہیں کر پائیں گے کیونکہ آج جو میں آپ کے ساتھ شئیر کرنے جا رہی ہوں اس شخصیت کے فن کا اس کے کردار کا انکی شاعری اور اس کے نام کا احاطہ کرنا میرے بس کی بات نہیں ہے۔ میرا یہ تبصرہ صرف ایک نذرانہ دوستی ہے میری زند گی کے اس عظیم شخصیت کے لیے
میرے پاس الفاظ نہیں ہے-

نزیر اے قمر صاحب کا قلم ، کلام اور اُن کی شخصیت وطنِ عزیز سے دور ویب سائٹ کی دنیا میں نام تعارف کےمحتاج نہیں ہے-

نزیر اے قمر صاحب پاکستان کے شہرفیصل آباد سے ہے-ا سپین میں مقیم ہے،ہمیں فخر ہے کہ مغربی حسن کے جلوؤں کی بہتات اور دعوت عیش و طرب کو صرف نظر کرتے
- ہوئے اردو ادب سے رشتہ استوار کئے ہوئے ہے
-
بزم فکر ادب سرگودھا پاکستان کا
موجودہ صدر ہے،شاعری سے انکا گہرا شغف ہے،نزیر اے قمر صاحب نے ادبی سفر کا آغاز زمانہ طالب علمی سے کیا تھا،میٹرک میں تھے جب انکا پہلا انٹرویو روزنامہ جنگ لاہور (فیصل آباد سپلیمنٹ )میں چھپا،پہلا شعر پنجابی میں کہا
گن گن تارے ساری رات میں گزاری
اے
رول رول مارنا ایہہ چنگی دلداری اے
پہلی غزل ماہنامہ آداب عرض لاہور کی زینت بنی،بعد میں مقامی اور بین القوامی اخبارات میں تسلسل سے چھپتا رہا،
سہ ماہی دریچہ انٹر نیشنل پاکستان،سپین کا بانی اور چیف ایڈیٹر ہے جو 2005 سے شائع ہو رہا ھے
خطاطی سے جنون کی حد تک لگاؤ ہے یہی وجہ ہے کہ اپنے اور دیگر احباب کے کلام کی کمپوزنگ کرنا اچھا لگتا ھے،
پہلا مجموعہ کلام (بہار آنے تک) 2005 میں شائع ہوا،جو غزلوں پر مشتمل ھے
دوسری کتاب 2008 ( چاند اکیلا ہے ) اردو ماہئے اور ہائیکوز
تیسرا شعری مجموعہ ( دل آشنا ) 2011میں چھپا اور ادبی دنیا میں پزیرائی حاصل کی چوتھا شعری مجموعہ ( خواہش ) 2015 میں شائع ہو ا
پانچواں مجموعہ اسی سال جلد شائع ہو جائے گا
ان کے چند اشعار آپکی نظر
نکلا ہوں آج گھر سے میں خواہش کو ڈھونڈنے
گم ہو گئی نہ جانے کہاں کائنات میں

یوں غمِ یار تجھے ہم نے شناسا رکھا
دل کے آنگن میں ترا روز تماشا رکھا

نگاہوں میں آبِ رواں کا ہے موسم
ابھی اس چمن میں خزاں کا ہے موسم

ستم کے شہر پہ یلغار کرنے والا ہوں
قلم کو اپنے میں تلوار کرنے والا ہوں

دونوں جہاں میں دیکھو خوشیوں کا سلسلہ ہے
اب آمدِ نبیﷺ پہ موسم بھی نعتیہ ہے
"کارِ ثواب جانو مدحت نبی ﷺ کی لوگو"
اس سے ہی آخرت میں بخشش کا راستہ ہے

ہر بار یوں ہی وصل کی خواہش نہ کیجئے
پنہاں ہے لطفِ ہجر بھی راتوں کے درمیاں
اس کے کرم سے کوئی ہو مایوس کس لئے
رکھا ہے اس نے رزق بھی دھاتوں کے درمیاں

مل بھی سکتی ہے ہمیں تجھ کو جو اپنا سمجھیں
زندگی تیری حقیقت کا کرشمہ سمجھیں
چاند کو چہرہ تری آنکھوں کو تارا سمجھیں
وہ مگر درد تو کچھ دیر ہمارا سمجھیں

اس دل کا اب مزاج بھی پتھر کا ہو گیا
پتھر شناس لوگ ہیں پتھر کے شہر میں

سامنے آ جائیں دنیا کے سبھی عیب و ہنر
آئینے جیسا ترا کردار ہونا چاہیے

ان تہمتوں کے جال سے نکلا نہیں تھامیں
پھر تو نے میری ذات پہ الزام رکھ دیا

شعروں میں میں نے زندگی کی داستاں کہی
گیتوں میں اپنے عشق کا انجام رکھ دیا
وشمہ خان وشمہ

 وشمہ خان وشمہ
About the Author: وشمہ خان وشمہ Read More Articles by وشمہ خان وشمہ: 308 Articles with 427503 views I am honest loyal.. View More