’اتنی نہ بڑھا پاکی ٔ داماں کی حکایت ‘

سعودی عرب میں تمام شواہدات اور ہر طرح کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد مختلف قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث 47 افراد کو سزائے موت دے دی گئی ہے ۔ ان افراد پر مختلف وقتوں میں مختلف مقامات پر ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام تھا۔سعودی عرب کے مفتی اعظم کے مطابق ان تمام افراد کی سزا قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے، جو بھی فیصلہ کیاگیااورجس طرح کی بھی چھان بین کی گئی تھی اس میں شرعی اصولوں کی مکمل پاسداری برتی گئی ہے، کسی کے خلاف ناانصافی یاتعصبانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا ہے، تمام مجرموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے تھے … لیکن ان کے کرتوت اور سیاہ کارناموں کی داستان اتنی طویل اور بھیانک تھی کہ ان کی لغزشوں کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کے ساتھ رحم دلی اور ہمدردی بے گناہ عرب عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوتا۔ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کا فیصلہ قابل اطمینان تھا …لیکن اہل ایران نے اس فیصلہ کے خلاف ناقابل یقین روش اختیار کرلیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد ایران میں موجود سعودی سفارتخانے میں آگ لگادی گئی، توڑ پھوڑ کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں…غیرمہذب اور غیر مناسب الفاظ کا استعمال کیا گیا، اور تو اور سعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے دی گئی ہے… جس کی وجہ سے اب خطہ کے حالات مزید پیچیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ دنیا میں بے شمار افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے، ہر ملک کے اپنے آئین و دستور ہے جس کے مطابق وہاں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر ملک کو اپنی سلامتی کیلئے اس طرح کے اقدامات کرنے ہوتے ہیں یہ اس ملک کا داخلی معاملہ ہوتا ہے جس میں اگر حکومت کا رویہ مشکوک ہو اور کسی بے گناہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے تو قوانین کے دائرہ میں رہ کر اس ملک کے خلاف یا وہاں موجود حکمران جماعت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ایران کا موجودہ رویہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا، ایران کی ضد یہ ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان 47 افراد میں ایک شیعہ عالم نمر باقر النمر بھی تھے …جنہیں حکومت مخالف مظاہروں اور زبان درازی کے الزام میں جرم ثابت ہونے پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے۔
سعودی عرب میں تمام شواہدات اور ہر طرح کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد مختلف قسم کی دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث 47 افراد کو سزائے موت دے دی گئی ہے ۔ ان افراد پر مختلف وقتوں میں مختلف مقامات پر ملک مخالف سرگرمیوں کا الزام تھا۔سعودی عرب کے مفتی اعظم کے مطابق ان تمام افراد کی سزا قرآن و حدیث کے عین مطابق ہے، جو بھی فیصلہ کیاگیااورجس طرح کی بھی چھان بین کی گئی تھی اس میں شرعی اصولوں کی مکمل پاسداری برتی گئی ہے، کسی کے خلاف ناانصافی یاتعصبانہ رویہ اختیار نہیں کیا گیا ہے، تمام مجرموں کو اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے مواقع فراہم کئے گئے تھے … لیکن ان کے کرتوت اور سیاہ کارناموں کی داستان اتنی طویل اور بھیانک تھی کہ ان کی لغزشوں کو صرف نظر نہیں کیا جاسکتا تھا۔ ان کے ساتھ رحم دلی اور ہمدردی بے گناہ عرب عوام کے ساتھ ناانصافی کے مترادف ہوتا۔ تمام حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے سعودی عرب کا فیصلہ قابل اطمینان تھا …لیکن اہل ایران نے اس فیصلہ کے خلاف ناقابل یقین روش اختیار کرلیا ہے۔ اس فیصلہ کے بعد ایران میں موجود سعودی سفارتخانے میں آگ لگادی گئی، توڑ پھوڑ کے واقعات بھی منظر عام پر آئے ہیں…غیرمہذب اور غیر مناسب الفاظ کا استعمال کیا گیا، اور تو اور سعودی عرب کو سنگین نتائج کی دھمکیاں بھی دے دی گئی ہے… جس کی وجہ سے اب خطہ کے حالات مزید پیچیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں ۔ دنیا میں بے شمار افراد کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے، ہر ملک کے اپنے آئین و دستور ہے جس کے مطابق وہاں فیصلہ کیا جاتا ہے ہر ملک کو اپنی سلامتی کیلئے اس طرح کے اقدامات کرنے ہوتے ہیں یہ اس ملک کا داخلی معاملہ ہوتا ہے جس میں اگر حکومت کا رویہ مشکوک ہو اور کسی بے گناہ کو پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے تو قوانین کے دائرہ میں رہ کر اس ملک کے خلاف یا وہاں موجود حکمران جماعت کے خلاف اپنا احتجاج درج کرایا جاسکتا ہے۔ لیکن ایران کا موجودہ رویہ کسی بھی طرح قابل قبول نہیں تھا، ایران کی ضد یہ ہے کہ ان کے ساتھ انصاف نہیں ہوا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ان 47 افراد میں ایک شیعہ عالم نمر باقر النمر بھی تھے …جنہیں حکومت مخالف مظاہروں اور زبان درازی کے الزام میں جرم ثابت ہونے پر تختہ دار پر لٹکا دیا گیا ہے۔سزایافتہ مجرم نمر باقر النمر کا تعلق شیعہ فرقہ سے ہے اور ایران کے 1979 کے انقلاب کے بعد اس نے ایران جاکر تعلیم بھی حاصل کی تھی۔ ایران کا کہنا ہے کہ سعودی عرب نے مسلک کی بنیاد پر نمر باقر النمر کو تختہ دار پر لٹکا یا ہے۔ حالانکہ سعودی حکومت نے صرف نمرکوپھانسی نہیں دی ہے ان کے ساتھ اوربھی مجرم افرادکوسزائے موت دی گئی ہے ۔توایران کاصرف نمرکی سزائے موت مسلکی رنگ دیناکہاں تک درست ہے۔پھرایران کاطرزعمل جوسنیوں کے ساتھ ایران میں جاری ہے ،وہ کہاں تک درست ہے؟۔ سعودی حکومت نمر کے جیل رسید ہونے کے بعد سے اب تک ان کے خاندان والوں کی پوری کفالت کررہی ہے ، ان کا لڑکا باہر اعلیٰ تعلیم حاصل کررہا ہے۔ نمبر کو پوری رعایت اور کھلی چھوٹ دی گئی تھی لیکن وہ اپنے کالے کرتوت اور حکومت کے خلاف بغاوت میں ہمیشہ مصروف عمل رہے جس کی وجہ سے سعودی عرب کو یہ جارحانہ قدم اُٹھانا پڑا۔ اس پھانسی کے خلاف ایران میں جگہ جگہ احتجاج کئے جارہے ہیں وہ بھی محض ایک شخص کی سزا کے خلاف، اسی خطہ میں جب مصر میں السیسی نے عوام کی منتخب کردہ حکومت کا تختہ پلٹا اور اس کے تقریباََ سارے ہی بڑے راہنما کو پھانسی کی سزا سنائی، حتی کہ ان قیدیوں میں مظلوم عورتیں بھی شامل ہیں، رمضان کے مقدس مہینہ میں مظاہرین پر فائرنگ کی گئی …نہتے شہریوں کو مسلح افراد کے سامنے کھڑا کردیا گیا …تب تو ایران نے اپنا کوئی ایسا احتجاج نہیں درج کروایا، ایران میں موجود مصری سفارت خانے کو نظر آتش نہیں کیا گیا اور نہ ہی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔ اور یہ سارے کارنامے وہ ملک انجام دے رہا ہے جہاں بے گناہوں کو پھانسی پرلٹکا دیا جانا ایک معمول بن گیا ہے، جہاں سرکاری مسلک کے مطابق اگر آپ زندگی نہیں بسر کررہے ہیں تو آپ کو مکمل سہولیات دستیاب نہیں ہوسکتی ہیں ، جہاں سنی مسلک کی ترویج و اشاعت کے جرم میں ان گنت علماء کو تختہ دارپرلٹکادیاگیاہے۔ 2012 میں’’اللہ کے خلاف جنگ‘‘ اور زمین میں فساد پھیلانے کے الزام میں، حامد احمدی، کمال ملائی، جمشید دہقانی، جہانگیر دہقانی، صدیق محمدی، اور ہادی حسینی کو سزائے موت سنائی گئی تھی، انسانی حقوق کے ذرائع کی جانب سے اس بات کی تصدیق کی گئی کہ یہ افراد پرامن مذہبی سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے…یہ کردستان کے علاقہ میں اپنی مساجد میں تبلیغ کیا کرتے تھے۔ حالیہ دنوں میں جن افراد کو سزا سنائی گئی ہیں ان میں شہرام احمدی بھی ہیں، گزشتہ 6 برسوں سے قید شہرام احمدی پر الزام ہے کہ وہ سلفی تنظیم سے تعلق رکھتا ہے اور سیاسی افکار کے ذریعہ حکومت مخالف نظریات کو فروغ دے رہا تھا اس مقصد کیلئے اس نے بعض کتابیں اور سی ڈیز بھی تقسیم کیا ہے۔ ایران میں اسی شہرام احمدی کے 17سالہ بھائی کو’’اللہ سے جنگ‘‘ کے الزام میں پھانسی دی جاچکی ہے۔ شہرام کی دکھیاری ماں اپنے بچے کے زندگی کی بھیک مانگ رہی ہے… خود اپنے بچے کی جان بخشی کیلئے اس کے بدلے پھانسی پر چڑھ نے کو تیار ہے۔ لیکن ایرانی حکومت انہیں محض سنی ہونے کی سزا دینے پر آمادہ ہے۔ اپریل 2009 میں ایرانی حکومت نے خلیل اللہ زارعی اور حافظ صلاح الدین سیدی کو موت کے گھاٹ اتار دیا، دونوں افراد پر حکومت کی مخالفت اور قومی سلامتی کیلئے خطرہ بننے کے الزامات عائد کئے گئے تھے، 27 دسمبر 2012 کو خطیب اصغر رحیمی کو غزل حصار نامی جیل میں پھانسی دی گئی۔ عبدالمالک ریگی اور حبیب اللہ ریگی دونوں بھائیوں کو ’اللہ اور رسول کے خلاف جنگ‘کے الزامات کے تئیں ہمیشہ کی نیند سلا دیا گیا۔ 2014 میں دو بھائیوں وحید شاہ بخش اور محمود شاہ بخش کو زاہدان کی سینٹرل جیل میں پھانسی دی گئی۔ ان پر بھی اللہ اور رسول سے جنگ اور قومی سلامتی کے خلاف کام کرنے کے الزام عائد تھے۔ 2015 کے ابتدائی 6 مہینوں میں 700 سے زیادہ افراد کو پھانسی کی سزا دی گئی ہے جن میں سے اکثر کا تعلق سنی مسلک سے رہا ہے۔ یہ ایک لمبی داستان ہے جسے بیان کرنے کیلئے مضمون نہیں بلکہ کتاب کی ضرورت ہے ۔اب سوا ل یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایران کا سعودی عرب میں دی گئی سزائے موت کے خلاف احتجاج کرنا اور سعودی حکومت کو مسلکی اختلاف کی پوزیشن میں لاکر کھڑا کرنا کس حد تک درست ہے ؟ جب کہ ایران دنیا کے ان چند ممالک میں سے ایک ہے جہاں بکثرت پھانسی کی سزا سنائی جاتی ہے، ایران کے 1979 کے انقلاب کے بعد جس طرح ملک مخالف عناصر کو تہ تیغ کیا گیا تھا اس سے پوری دنیا واقف ہے، اسلامی جمہوریہ کے نام پر قائم کی گئی یہ حکومت اسلام کے حق میں کتنی مفید ہے اور یہاں مسلمانوں کو کس حد تک آزادی حاصل ہے، حالیہ دنوں میں ایرانی صدر حسن روحانی سے جب سوال کیا گیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ایران میں کسی بھی بڑے عہدے پر کوئی سنی مسلمان براجمان نہیں ہے تو صدر موصوف ہتھے سے اکھڑ گئے اور کہا کہ ہمارے یہاں کوئی مسلکی بھید بھاؤ نہیں ہے۔ ممکن ہے 20 /25 فیصد سنی آبادی میں کوئی اس قابل ہی نہ ہو کہ اسے کوئی عہدہ دیا جاسکے ۔ مسلکی اختلافات سے قطع نظر ایران نے بذات خود اپنے بیشمار شہریوں کو تختہ دار پر لٹکایا ہے لیکن سعودی عرب یا کسی دوسرے ملک نے تو اس کے خلاف اس طرح کی باتیں نہیں کی ہیں۔بہرحال ایران کے حالیہ رویہ کی وجہ سے پورے علاقے میں کشیدگی پیداہوگئی ہے اور مسلم ممالک دو گروہوں میں تقسیم ہوتے نظر آرہے ہیں، جس کا براہ راست فائدہ علاقہ میں موجود ممنوعہ تنظیمیں اٹھا سکتی ہیں۔ حالیہ واقعہ کے بعد یمن مذاکرات اور شام کے مسائل مزید پیچیدہ ہوتے نظر آرہے ہیں۔ اگر ان دو ممالک کی رسہ کشی یونہی برقرار رہی تو آنے والے دنوں میں یہ ایک بھیانک شکل اختیار کرسکتا ہے جس میںنقصان مسلمانوں کاہوگا اور مسلمانوں کی معیشت مزید کمزور ہوگی۔
NAZISH HUMA QASMI
About the Author: NAZISH HUMA QASMI Read More Articles by NAZISH HUMA QASMI : 109 Articles with 77683 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.