یوں تو اہلیان کوہسار مذہب کے دلدادہ
ہیں، دین ان کی شہہ رگ ہے،غمی خوشی اور زندگی کے ہر معاملے میں وہ علمائے
کرام سے رہنمائی لیتے ہیں، اسی طرح وہ ماضی کے صوفی بزرگوں اول اہل تصوف کے
بھی قدردان مگر قبر پرست نہیں رہے ہیں، حضرت پیر ملک سراج خانؒ (پوٹھہ
شریف)، حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ، حضرت پیر محمد قاسم موہڑویؒ (موڑہ شریف)،
حضرت پیر لعل بادشاہؒ (سوراسی)، حضرت پیر دناہ شریفؒ (لورہ) اور حضرت پیر
گل بادشاہؒ (لہور، بیروٹ خورد) اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں جن کے ساتھ اہلیان
کوہسار نے محبت کی اور انہیں گلے بھی لگایا، ان کی مرقد پر انوار آج بھی
سرکل بکوٹ اور کوہ مری میں باعث خیر و برکت ہیں اور حاجت مند وہاں سے من کی
مراد پاتے ہیں۔
لہور والے حضرت پیر گل بادشاہؒ کون تھے ۔۔۔۔؟ ان کے نام سے اکثر اہلیان
کوہسار ناواقف ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ زندگی میں لوگوں سے دور رہ کر
احاطہ نور خان (یونین کونسل روات، مری) میں سلوک کی منازل طے کر رہے تھے،
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ آپ پہلے برٹش آرمی میں تھے مگر بعد میں فرنگی کی
نوکری چاکری سے اکتا کر 1900ء میں خلوت نشینی اختیار کی اور مری کے برف
زاروں میں آ کر فنا فی اللہ ہو گئے، لوگوں نے دیکھا کہ آپ بارش میں بھیگ
رہے ہیں مگر اللہ کا یہ بندہ چھم چھم برستے بادلوں سے بے نیاز ہے، برفباری
ہو رہی ہوتی تو بھی آپ اپنے رب کی عبادت میں اس قدر محو ہوتے کہ انہیں
موسم اور اس کی شدت کا پتہ ہی نہ ہوتا، ان کے مریدین یہ دعویٰ بھی کرتے ہیں
کہ حضرت پیر لعل بادشاہ بیابانیؒ کو آپ سے ہی فیض ملا، اپنے عہد کے سب سے
بڑے مجتہد حضرت پیر فقیراللہ بکوٹیؒ فرماتے ہیں کہ ایک ولی (اپنی طرف ازارہ
کر کے) پہلے یہاں موجود ہے ایک اور (حضرت پیر گل بادشاہ) بھی آئے گا اس کے
ساتھ ایک فقیر بھی ہو گا، وہ فقیر آگ ہے۔ (یہ روایت حضرت پیر گل بادشاہ
مزار کے موجودہ متولی چوہدری علی محمد کی ہے)
روایات اس بات کی امین بھی ہیں کہ حضرت پیر گل بادشاہؒ کشمیر سے کوہسار
میںآئے، جن ویرانوں میں آپ نے خلوت گزینی اختیار کی اس کے جنوب میں
کشمیری بازار کا علاقہ بھی واقع ہے، یہ اس وقت یو سی روات کا حصہ ہے اور
اٹھارویں صدی میں یہ کشمیریوں کی تجارت کا اہم مرکز تھا، اس لئے یہ قیاس
کیا جا سکتا ہے کہ حضرت پیر گل بادشاہؒ اپنوں کے ساتھ کشمیری بازار میں
آئے ہوں تاہم یہ بات ابھی تحقیق طلب ہے کہ وہ کشمیر کے کس علاقے سے آئے
اور ان کا تعلق کس خاندان سے ہے، راقم الحروف کے پاس ایک روایت یہ بھی ہے
کہ حضرت پیر گل بادشاہؒ کا تعلق مانسہرہ ہزارہ سے تھا اور ان کے آباء و
اجداد درانی عہد میں افغانستان سے میدان رش میں آ کر آباد ہوئے تھے اور
ان کا تعلق تیموری خانوادے سے تھا ، روایات یہ بھی کہتی ہیں کہ روات کے ان
برف زاروں میں چلہ کشی کا حکم آپ کو حضرت پیر شاہ شمس تبریز ملتانیؒ نے
دیا تھا، یہ وہی حضرت پیر شاہ شمس تبریز ملتانیؒ ہیں جو ہضرت مولانا جلال
الدین رومیؒ کے بھی مرشد تھے، مولانا رومیؒ فرماتے ہیں؎
مولوی ہر گز نہ شد مولائے روم
تا مرید شمس تبریزیؒ نہ شد
حضرت پیر شاہ شمس تبریز ملتانیؒ کا زمانہ مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کا
ہے جبکہ حضرت پیر گل بادشاہؒ ابھی 1900ء کے ہیں، آپ ان کے مرید کیسے اور
کس کے توسط سے بنے، انہیں حضرت پیر ملتانیؒ نے کیا عالم رویاء میں مری آنے
کا حکم دیا؟ اور کیوں کر دیا حالانکہ وہاں پہلے ہی دو بڑی ہستیاں ، حضرت
پیر فقیراللہ بکوٹیؒ اور حضرت پیر محمد قاسم موہڑویؒ نہ صرف موجود تھیں
بلکہ حیات بھی تھیں، زن کے ایک مرید بتاتے ہیں کہ ایک روز حضرت پیر گل
بادشاہؒ لہور کے بالائی مقام کنڈھاراں میں دیکھے گئے تو لوگوں نے دریافت
کیا کہ آپ تو احاطہ نور خان میں خلوت گزیں تھے تو پھر یہاں کیسے۔۔۔۔؟ تو
انہوں نے جواب دیا کہ مجھے اب اسی ویرانے کو اپنی پناہ گاہ بنانے کا حکم
ہوا ہے اب میں اپنی موت تک یہاں ہی رہوں گا، اس طرح انہوں نے یہاں آنے کے
سات سال بعد 26اکتوبر 1935ء کو وفات پائی، انہوں نے جامع مسجد ایوبیہ کے
موجودہ خطیب مولوی عبداللہ کے دادا (نام معلوم نہیں ہو سکا) سے اپنی وفات
سے ایک ہفتہ قبل کہا تھا کہ آپ نے ایک ہفتہ بعد ایک شخص کا یہاں نماز
جنازہ پڑھانے آنا ہے، اس طرح حضرت پیر گل بادشاہؒ نے ایک ہفتہ بعد ان
مولوی صاحب کو اپنی میت پر بلا لہا جنہوں نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی اور
اپنے ہاتھوں سے انہیں سپرد خاک کیا۔
حضرت پیر گل بادشاہؒ کا فیضان عام کرنے کیلئے ان کے ایک مرید چوہدری علی
محمد کا بڑا ہاتھ ہے، ان کا تعلق راولپنڈی سے تھا، قیام مری کے دوران ان کی
اپنے مرشد حضرت پیر گل بادشاہؒ سے قربتیں بڑھیں اور نوبت بہ ایں جا رسید کہ
وہ یک جان دو قالب ہو گئے، بلکہ ایک فارسی شاعر کے مطابق ؎
من تو شدم تو من شدی، من تن شدم تو جاں شدی
تا کس نہ گوید بعد ازاں من دیگرم تو دیگری
حضرت پیر گل بادشاہؒ جب کہو غربی بیروٹ خورد کے علاقے کنڈھاراں لہور میں جا
بسے اور وہاں ہی اپنی جاں جان آفریں کے سپرد کی تو چوہدری علی محمد نے ان
کا چوبی (Wooden) مزار بنوایا، حضرت پیر گل بادشاہؒ نے یہاں آتے ہی پانی
کا چشمہ بھی دریافت کیا جہاں پر ان کے عقیدت مند ووضو کرتے اور ان کی پاک
محفل سے فیض یاب ہوتے، بیروٹ خورد کے ان مرغزاروں سے قال اللہ و قال الرسول
کی صدائیں بلند ہوتیں، ان کی وفات کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری ہے مگر بعد میں
حضرت پیر گل بادشاہؒ کا یہ چوبی مزار آتشزدگی کی نذر ہو کر خاکستر ہو گیا،
اب یہ نیا مزار چوہدری صاحب کے فرزند اولیٰ چوہدری جاوید اقبال کی کوششوں
اور کاوشوں کا نتیجہ ہے اور جنگل کے بیچوں بیچ سنگ سفید (Marble) کی مرمریں
پوشاک اوڑھے ایستادہ ہے۔
حضرت پیر گل بادشاہؒ کے مزار پر بہار ہو کہ خزاں، ہر موسم میں زائرین کی
آمد جاری رہتی ہے، درگاہ کے متولی چوہدری احسن جاوید اور خادم سائیں دلدار
اپنی بساط سے بڑھ کر حضرت پیر گل بادشاہؒ کے مہمانوں کی جاری لنگر سے تواضح
کرتے ہیں، زائرین کو یہاں پر آنے کیلئے روڈ کا مسئلہ ہے، یہاں قریب ترین
ایوبیہ ریالہ روڈ ہے جسے ڈبل ٹاور رامکوٹ سے لنک کیا جا سکتا ہے، یہ
تقریباً ایک کلو میٹر کا فاصلہ ہے جس سے نہ صرف حضرت پیر گل بادشاہؒ کے
مزار تک آنے والے زائرین کو سہولت ہو گی وہاں ہی مقامی لوگوں کو بھی سڑک
کی سہولت سے ترقی کی راہیں کھلیں گی۔
مزار کا دوسرا بڑا مسئلہ بجلی کی عدم فراہمی کا ہے، یوں تو ایوبیہ اور کہو
غربی میں ہوا کا ایک جھونکا آنے کے بعد ہی گھنٹوں بجلی معطل کر دی جاتی ہے
پھر بھی مزار کیلئے بجلی جیسی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے کئی ایک دوسرے مسائل
بھی ہیں، سردار مہتاب احمد خان اس وقت خبر پختونخوا کے گورنر ہیں، ان کی یو
سی پلک ملکوٹ اور ملکی اشرافیہ کا اہم گرمائی مرکز ایوبیہ خانسپور کے علاوہ
بیروٹ خورد و کلاں بھی برقی قمقموں سے جگمگا رہے ہیں مگر اللہ تبارک و
تعالیٰ کے برگزیدہ بندے حضرت پیر گل بادشاہؒ کی آخری آرام گاہ جو مرضع
خلائق بھی ہے اس سہولت سے محروم ہے، امید کرتے ہیں کہ کے پی کے کے ارباب
اختیار حضرت پیر گل بادشاہؒ کے مزار اور خانقاہ تک روڈ ، پانی اور بجلی کی
سہولیات فراہم کر کے ان کے مہمان زائریں کی دعائوں کو سمیٹیں گے اور کہو
غربی کے یہ ویرانے اللہ تعالیٰ کی ان برگزیدہ ہستیوں کے وجود کی بدولت پانچ
وقت کی آذان، تلاوت قرآن حکیم فرقان مجید اور بارگاہ نبوت میں ﷺ عقیدتوں
کے نذرانوں سے گونجتے رہیں گے۔
نہ چھیڑ ان خرقہ پوشوں کو، ارادت ہو تو پوچھ ان سے
ید بیضا لئے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں |