سیدناخالد بن ولید :عزم ،تدبیر،استحکام اوراستقلال کاعظیم مردمجاہد قسط نمبر۸

خداکی قسم!ہم تمہیں بادلوں سے بھی نیچے اتارلائیں گے
یقینادوسری قوموں اور ملکوں کی تاریخوں میں بھی ایسے لوگوں کے تذکرے ملیں گے جنہوں نے اپنی تلواروں اور تدبیر کی بدولت زمانے سے اپنا لوہامنوایا۔جنہوں نے بڑے بڑے معرکے سَر کرکے قوموں کی قسمتیں اوردنیاکانقشہ بدل دیا۔لیکن اپنی پوری زندگیوں میں کتنی بار انہوں نے یہ کارنامے انجام دیئے؟جن قوموں اور ملکوں کوانہوں نے شکست دی،ان کی حربی قوتیں کیاتھیں؟اور خود ان کے جلومیں کتنی قوموں کے پھریرے تھے؟اگران سوالوں پرغورکیاجائے تودنیاکے فاتحین کوحضرت خالد رضی اﷲ عنہ کے مقابلے میں ہرگز نہیں لایاجاسکتا۔تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ قوت کے نشے میں سرشارہوکرطاقت ور قوموں نے اپنی کمزور ہمسایہ قوموں پریلغار کی اور شہنشاہوں کے تنخواہ دارمؤرخوں نے ظلم وزیادتی کی ان داستانوں کوشجاعت اور شہادت کاملمع چڑھاکرتاریخ کے اوراق کی زینت بنادیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کی یہ کتنی بڑی خصوصیت ہے کہ انہوں نے اپنی زندگی میں کم وبیش سواسولڑائیاں لڑیں۔جن میں ان کی فوجی طاقت دشمن کے مقابلے میں انتہائی کم ہوتی تھی مگرکسی ایک لڑائی میں بھی شکست نہیں کھائی۔

عین التمر کی پُر خطر مہم
عراقی مہم میں حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوامیرالمومنین سیدناصدیق اکبررضی اﷲ عنہ کاخط ملتاہے جس میں حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ کی امدادکے لئے فوراًروانہ ہونے کافرمان تھا۔وہ شام کی طرف کوچ کرنے کاقصد فرماتے ہیں اور عین التمرکی راہ سے جوسب سے قریب راستہ ہے،حدودشام میں داخل ہونے کی تجویز پیش کیں۔اس دشوار گزارصحراکی مشکلات سے واقفیت رکھنے والے حضرت رافع رضی اﷲ عنہ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کومشورہ دیتے ہیں کہ عین التمرکی راہ سے تشریف لے جانے کاقصد ترک کردیجئے کیونکہ اس خوفناک صحرامیں قدم رکھناجان بوجھ کر موت کودعوت دیناہے۔یہ ایساراستہ ہے کہ پانچ دن کی منزل میں پانی کاایک قطرہ بھی کہیں سے دستیاب نہ ہوگا۔سواری اور باربرداری کے جانوروں کاہلاک ہوجانایقینی ہے۔کوئی اور ہوتاتو حضرت رافع رضی اﷲ عنہ کے اس مشورے کوقبول کرکے قریبی راہ سے جانے کاارادہ ترک کردیتا۔لیکن حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کسی مشکل سے گھبرانے کی جگہ اس پرقابوپانے کے تجاویز سوچتے ہیں ۔ آپ فرماتے ہیں کہ چالیس اونٹوں کواچھی طرح پانی پلاکران کے منہ باندھ دیئے جائیں اور ہرمسلمان اپنی ضرورت کے مطابق پانی ساتھ لے لے۔آپ ہرمنزل پر دس اونٹ ذبح کراتے ہیں اور ان کے پیٹ سے نکلاہواپانی ٹھنڈاکرکے جانوروں کوپلاتے ہوئے موت کی اس وادی کونہایت کامیابی کے ساتھ عبور کرلیتے ہیں۔یہ عزم اور تدبیرکاکتنابڑامظاہرہ ہے اس کااندازہ صرف وہی لوگ کرسکتے ہیں جنہوں نے عرب کے وسیع ریگستانوں میں پیاس کے سبب ہلاک ہونے والے قافلوں کی ہڈیاں بکھری ہوئی دیکھی ہوں یالرزہ خیز داستانیں سنی ہوں۔ اس حقیقت سے آشنا بڑے سے بڑا بہادر بھی ایسے راستے پرقدم بڑھانے کی جرات نہیں کرسکتا جس میں پانچ دن تک پانی ملنے کاامکان نہ ہو۔ (سیدناخالد بن ولیدرضی اﷲ عنہ،ص؍۲۲)

ان تمام باتوں کے علاوہ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کی زندگی میں سب سے زیادہ قابل لحاظ امر یہ ہے کہ ان کے ہمراہی صحرائے عرب کے غیر تربیت یافتہ مٹھی بھر افراد تھے۔خود انہوں نے بھی کسی فوجی کالج میں باقاعدہ تعلیم حاصل نہ کی تھی۔پھرمقابلہ کس کے ساتھ تھا،قیصرروم اور شہنشاہِ ایران کے آہن پوش منظم لشکروں کے ساتھ۔جن کے وسائل اورسامان حرب کاکوئی اندازہ بھی قائم کرنامشکل تھا۔وسیع اور دولت مند سلطنتیں ان کی پشت پر تھیں اور اپنے سالاروں کوبرابرکمک بھیجتی رہتی تھیں۔ادھرمسلمانوں کایہ عالم تھا کہ اگرکسی کے پاس تلوار ہے تونیام ندارد،نیزہ ہے توڈھال نہیں اورگھوڑاہے توزین سے محروم۔ اپنے وطن سے منزلیں دور،پرائے ملک میں آکرایسے بے سروسامان لشکر کارومیوں اور ایرانیوں کے عظیم الشان لشکروں کوشکست دیناکسی معجزے سے کم نہیں۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ عراق اور شام میں جتنی لڑائیاں لڑیں ان تمام میں کوئی ایک جنگ بھی ایسی نہیں جس میں مسلمانوں کی تعداددشمن کی فوج کے نصف کے برابرہو۔لیکن ہر معرکے میں مظفرومنصور رہے،ہرلڑائی میں دشمن کوشکست فاش دی۔

شہر قنسرین کامحاصرہ
حضرت خالد سیف اﷲ رضی اﷲ عنہ نے دمشق اور اردن کی فتح کے بعد شام کے اہم ترین شہر قنسرین کامحاصرہ کیا۔اہل قنسرین اس صورت حال سے نپٹنے کے لئے کافی دیر سے تیاری کررہے تھے۔ چنانچہ قلعہ بندہوکربیٹھ رہے۔جب محاصرے نے طول کھینچا توایک دن حضرت خالد رضی اﷲ عنہ بنفس نفیس شہرپناہ کے دروازے کے پاس پہنچے اور زور زور سے دروازہ کھٹکھٹاکرآوازدی۔فصیل کے برج سے محافظوں نے دیکھااور آنے کاسبب پوچھا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے فرمایاکہ میں تمہارے حاکم یااس کے نمائندے سے بات کرناچاہتاہوں۔حاکم کانمائندہ فصیل پرچڑھا۔آپ نے اس سے فرمایا ’’ تمہاری یہ حرکت بالکل فضول اور بے فائدہ ہے کہ محصور ہوکرقلعہ میں بیٹھ گئے ہو،واﷲ!ہمارے پیش نظرنہ مالِ غنیمت حاصل کرناہے نہ ملک فتح کرنا،ہم تومحض خداکے نام کی سربلندی کے لئے یہاں آئے ہیں، ہم سے ہمارے پیغمبرﷺکاوعدہ ہے کہ ہم یہ ملک فتح کرکے رہیں گے۔خداکی قسم!اگرتم بادلوں میں بھی جاچھپوتوہم تمھیں وہاں سے بھی نیچے اتارلائیں گے،زودیابدیرتمہیں بخوشی یابزورہماری اطاعت قبول کرناہوگی‘‘۔حاکم قنسرین کوجب یہ پیغام پہنچایاگیاتووہ کانپ اٹھااور فوراًمشورہ کرنے کے لئے دربارآراستہ کیا۔ایک بوڑھے پادری نے رائے دی کہ شہرکادروازہ کھول دیاجائے اور مسلمانوں سے صلح کرلی جائے۔مسلمانوں کے سپہ سالار نے جوکچھ کہاہے یہ اس کااپناقول نہیں ہے’’مجھے اس میں اقوال نبوت کی خوشبوآتی ہے‘‘چنانچہ اسی رائے پرعمل ہوااور قنسرین پربآسانی مسلمانوں کاقبضہ ہوگیا۔(نورانی حکایات،ص۶۷)
Ataurrahman Noori
About the Author: Ataurrahman Noori Read More Articles by Ataurrahman Noori: 535 Articles with 731852 views M.A.,B.Ed.,MH-SET,Journalist & Pharmacist .. View More