سٹیٹس کو ٗ برکی خاندان اور اقتدار کی جنگ

پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈرشپ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیورو کریسی کے لوگ شامل ہیں عالیہ ملک جو نواب آف کالاباغ کی فیملی سے ہیں اسے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسے ریزرو سیٹ پر لیا جائیگا لیکن اس کی ڈگری جعلی نکلی- اسد عمر جو پی ٹی آئی کے ٹاپ رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں وہ جنرل عمر کے بیٹے ہیں جو نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ بھی رہے ان پر بھی الزام ہے کہ بنگلہ دیش میں قتل عام میں اس کا بڑا کردار رہا اور اسے بھٹو کے دور میں پانچ سال گھر میں نظر بند رکھا گیا - عمران خان کی پارٹی میں کچھ ایسے رہنما بھی شامل ہیں جو کہ جماعت اسلامی کے سپورٹر رہے ہیں ڈاکٹر عارف علوی جو کہ جماعت اسلامی کے ممبر بھی رہے ان کے والد ڈاکٹر مجیب الرحمان الہی علوی مولانا مودودی کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے جو کہ جماعت اسلامی کے سربراہ رہے ہیں-
سٹیٹس کو کے خلاف آواز بلند کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان خود بھی ان افراد سے تعلق رکھتے ہیں جو سٹیٹس کو کے حامی رہے ہیں-پنجاب کی ٹاپ بیورو کریسی کے خلاف آواز اٹھانے والے عمران خان لیفٹٹنٹ جنرل واجد علی برکی کے رشتہ دار ہیں تاہم یہ بات عمران خان نے مکمل طور پر چھپارکھی ہے اور اس حوالے سے بھی بات کرنے سے گریزاں ہیں حتی کہ عمران خان نے بھی اس کا ذکر اپنے یاداشتوں میں نہیں کیا- پاکستان میں سٹیٹس کو کی سب سے زیادہ حامی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیورو کریسی کو سمجھا جاتا ہے جس کے بعد سندھ اور بھٹو خاندان ہیں جو سٹیٹس کو کے حامی ہیں-- پنجاب میں نواز رورل جبکہ عمران خان ان کے مقابلے میں اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور اس وقت پاکستان میں اربن مڈل کلاس رورل سے حکومت لینے کے خواہشمند ہے-

عمران خان 1952 ء میں اکرام اللہ نیازی اور شوکت خانم برکی کے ہاں لاہور میں پیدا ہوئے شوکت خانم کی بہن کی لیفٹننٹ جنرل واجد علی برکی کیساتھ شادی ہوئی تھی جو ان کا کزن بھی تھا اور وہ ایوب خان کے فرنٹ مین کی حیثیت سے کام کرتے تھے اور اس وقت کی کابینہ میں بھی اہم عہدے پر تعینات رہے- 1958 سے لیکر 1963 ء تک برکی پاکستان میں دوسرا بڑا طاقتور شخص تھا جب بھی ایوب بیرون ملک دورے پر جاتا اس وقت جنرل برکی قائم مقام صدر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتے- جس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایوب خان کو جنرل برکی پر کتنا اعتماد تھا-

جنرل برکی 1900ء میں بستی باباخیل میں پیدا ہوئے جو کہ جالندھر کا علاقہ ہے ابھی یہ علاقہ بھارتی پنجاب میں واقع ہے - جنرل برکی کا نک نیم الاٹمنٹ رکھا گیا تھا کیونکہ ان پرایوب خان کے دور میں بہت زیادہ الاٹمنٹ کے الزامات تھے اور اس حوالے سے بہت زیادہ مشہور رہا-جنرل برکی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے مری ہلز پر سیبوں کے بڑے باغات بھی لئے تھے حالانکہ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ اس کی کی کوئی تجارت نہیں تھی اور نہ ہی اسے کوئی دولت وراثت میں ملی تھی اسی طرح ہندو اور سکھ کمیونٹی کی خالی کردہ زمینوں پر بھی برکی کا قبضہ رہا - برکی خاندان اس وقت برطانوی راج میں سب سے زیادہ وفادار رہا - اسی بنیاد پر انہیں بھی بہت کچھ ملا- عمران خان کی فیملی کا تعلق بھی مشرقی پنجاب سے ہے-

آزادی کے بعد برکی فیملی نے لاہور کے پوش علاقے میں زمین حاصل کی جسے بعد میں زمان پارک کا نام دیا گیا اور یہی وہ زمین تھی جو سکھ اور ہندو ہندوستان جاتے ہوئے چھوڑ گئے تھے اسی علاقے کو برکی نے زمان پارک کا نام دیدیا - احمد زمان برکی جنرل برکی کے والد تھے جس کے نام پر جنرل برکی نے یہ نام رکھ دیا - عمران خان کی دو یاداشتوں آل راؤنڈ ویو 1991 اور پاکستان اے پرسنل ہسٹری 2011 میں عمران نے لکھا ہے کہ وہ اپنے کزنز کیساتھ زمان پارک میں کرکٹ کھیلتا تھا او ر خاندان کے دیگر لو گ بھی اسی علاقے میں ان سے ملتے تھے - زمان پارک میں کرکٹ کھیلتے ہوئے عمران خان کے کزن بھی اسی ٹیم کا حصہ تھے جاوید برکی جو جنرل برکی کے بیٹے تھے بھی عمران خان کے ساتھ زمان پارک میں کھیلتے تھے- جاوید برکی 1962ء میں پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان بنے - لیکن یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ عمران خان نے لیفٹننٹ جنرل واجد علی برکی کا نام کبھی نہیں لکھا حالانکہ وہ عمران خان کے انکل تھے اور اس وقت کے مضبوط اور طاقتور شخصیت تھے عمران خان نے کبھی یہ نہیں بتایا کہ ان کی فیملی تعلقات کتنے نزدیک تھے-

جنرل برکی ایک ذہین اور ٹیلنٹڈ آئی سپیشلسٹ آرمی ڈاکٹر تھا اور اسے برطانیہ میں سینٹ اینڈریو انیڈ مور فیلڈ آئی ہسپتال میں ٹریننگ کیلئے بھی بھیجا گیا تھا - پاکستان کی آزادی کے وقت برکی ٹاپ ملٹری ڈاکٹر تھا تاہم وہ انگریز ملٹری ڈاکٹر کے زیر نگرانی کام کرتا تھا جب انگریز ملک چھوڑ کر چلے گئے تو برکی کو ڈائریکٹر جنرل آرمڈ فورس میڈیکل سروس میں تعینات کردیا گیا اور یہ برکی کی ہی ذمہ داری تھی کہ وہ پاکستان بھر میں ملٹری ہسپتالوں کی بلڈنگ کی دیکھ بھال اور مینٹننس کرے -

سات اکتوبر 1958 کو جنرل ایوب پاکستان آرمی کے سربراہ اور سکندر مرزا جو گورنر جنرل آف پاکستان تھے مشترکہ طور پر آرمی کو آگے کرتے ہوئے حکومت حاصل کی اس کے تین ہفتے بعد ایوب خان نے جنرل برکی کو ذاتی طور پر بھیجا کہ سکندر مرزا کو گھر سے گرفتار کرے گرفتاری کا یہ سارا عمل رات کے اندھیرے میں پیش آیا سکندر مرزا کو ملک سے باہر بھیج دیا گیا اور ایوب خان نے ملک کا مکمل کنٹرول حاصل کرلیا- جب ایوب خان نے اپنی کابینہ کا اعلان کردیا تو جنرل برکی کو وزیر صحت ‘ لیبر اور سوشل ویلفیئر کا وزیر بنا دیا گیا ذوالفقار علی بھٹو بھی اس وقت کابینہ کا حصہ تھے اور بطور وزیر اطلاعات اس کا کام جمہوریت کی آواز کو دبا نا تھا-
ایوب کے دور میں جنرل برکی ایوب کے ڈپٹی کے طورپر سامنے آئے 1962ء میں چوبیس سال کی عمر میں جاوید برکی کو پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بنا دیا گیا جاوید برکی کپتان بننے کے بعد ٹیم کو لیکر انگلینڈ چلے گئے اور اس کی سربراہی میں سیریز چار ایک سے ہار گئی اس وقت سندھ سے تعلق رکھنے والے مہاجر حنیف محمد نائب کپتان تھے - سیریز ہارنے کے بعد حنیف محمد کو کپتان بنا دیاگیا اور چھ سال تک وہ کرکٹ کھیلتا رہا جاوید برکی پاکستان کرکٹ ٹیم کی تاریخ میں سب سے زیادہ ناکام ترین کپتان بتائے جاتے ہیں کیونکہ 1962 ء میں جنرل واجد برکی نے سلیکٹرز پر زور ڈالکر اپنے بیٹے جاوید برکی کو کپتان بنا یا تھا تاہم کرکٹ کے میدان میں بھی ناکام رہے-عمران خان کے والد اکرام اللہ نیازی انجنیئر تھے اور پہلی مرتبہ سرکاری ملازمت کررہے تھے اور ایک پرائیویٹ کمپنی بھی چلا رہے تھے کچھ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھٹو نے کرپشن کے الزام میں عمر ان خان کے والد کو ملازمت سے نکال دیا تھا اور وہ بھی ان افراد میں شامل تھے جنہیں ذوالفقار علی بھٹو نے کرپشن کے الزام میں برطرف کیا تھا-

واجد برکی ایوب خان کے زیادہ نزدیک تھے اس طرح ایوب کی نزدیکی دوستی نواب آف کالاباغ کے ساتھ تھی جو مغربی بنگال کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے گورنر تھے جب ایوب خان نے 1960ملک کے دارالحکومت کراچی کو اسلام آباد منتقل کردیاتو ایوب خان ‘ جنرل برکی اور نواب آف کالاباغ کے خاندانوں نے ایک ساتھ اسلام آباد میں گھر لئے تھے -

عمران خان نے لاہور کے سب سے زیادہ مہنگے کالج ایچی سن میں تعلیم حاصل کی اور یہ سب کچھ جنرل برکی کے رشتہ داری کی وجہ سے ممکن ہوا جو اس وقت پاکستان کے ٹاپ طاقتور ترین افراد میں شامل تھے عمران خان کی پہلی محبت کرکٹ تھی لیکن بعد میں اس سے نے سول سروس جوائن کرنے کا فیصلہ کیا لیکن بھٹو کے دور میں والد کیساتھ پیش آنیوالا واقعہ کے بعد عمران خان نے سول سروسز سے دور رہنے کا فیصلہ کیا- عمران خان کی تعلیم ‘ زمان پارک میں گھر والد کی نوکری اور ایچی سن میں تعلیم ‘ اس کے کزن کا کپتان بننا یہ تمام پاکستان کی ملٹری بیورو کریسی کا ہی کما ل تھا عمران خان جب بھی اسلام آباد آتا تو اپنے انکل جنرل واجد برکی کے گھر لازما جاتا جہاں پر ان کے پڑوس میں صدر پاکستان کا گھر بھی تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عمران خان اور اس کی فیملی نے وی وی آئی پی پروٹوکول نہیں لیا -

یہ بات واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی ٹاپ لیڈرشپ میں پنجاب سے تعلق رکھنے والے بیورو کریسی کے لوگ شامل ہیں عالیہ ملک جو نواب آف کالاباغ کی فیملی سے ہیں اسے یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ اسے ریزرو سیٹ پر لیا جائیگا لیکن اس کی ڈگری جعلی نکلی- اسد عمر جو پی ٹی آئی کے ٹاپ رہنماؤں میں شمار ہوتے ہیں وہ جنرل عمر کے بیٹے ہیں جو نیشنل سیکورٹی کونسل کے سربراہ بھی رہے ان پر بھی الزام ہے کہ بنگلہ دیش میں قتل عام میں اس کا بڑا کردار رہا اور اسے بھٹو کے دور میں پانچ سال گھر میں نظر بند رکھا گیا - عمران خان کی پارٹی میں کچھ ایسے رہنما بھی شامل ہیں جو کہ جماعت اسلامی کے سپورٹر رہے ہیں ڈاکٹر عارف علوی جو کہ جماعت اسلامی کے ممبر بھی رہے ان کے والد ڈاکٹر مجیب الرحمان الہی علوی مولانا مودودی کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے جو کہ جماعت اسلامی کے سربراہ رہے ہیں-

عمران خان نے 1996 ء میں شوکت خانم کینسر ہسپتال بنایا اور اس کا یہ کہنا ہے کہ ا س نے غریب عوام کی سہولت کیلئے یہ ہسپتال بنایا تاہم یہ ظاہر نہیں کیا کہ لیفٹننٹ جنرل برکی کا بھی ہاتھ رہا جو کہ ہیلتھ منسٹر رہے- شوکت خانم کینسر ہسپتال ڈاکٹر نوشیروان برکی کی سربراہی میں بنا جو کہ عمران خان کے کزن اور جنرل برکی کے بیٹے ہیں- ڈاکٹر نوشیروان برکی کی پیدائش 1938 ء میں ہوئی اس نے میڈیکل کی تربیت بھی والد کے طاقت کی وجہ سے حاصل کی-
Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 497814 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More