ایران سعودی کشمکش……تشخیص ،تدارک اور ذمہ داریاں

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

مولانا محمد حنیف جالندھری جنرل سیکرٹری وفاق المدارس العربیہ پاکستان

اس وقت سعودی عرب اور ایران کے مابین جو کشمکش ہے وہ کافی تشویش ناک ہے اور آئے دن کشیدگی بڑھتی جارہی ہے اور اس کشیدگی نے رفتہ رفتہ پورے عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے اور آنے والے دور میں اس کی شکل مزید بھیانک ہونے کا خدشہ ہے اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی درد دل رکھنے والا مسلمان اس صورتحال سے لاتعلق رہ سکتا ہے ۔لیکن یہ صورتحال اچانک پیدانہیں ہوئی اور نہ ہی یہ کوئی کوئی چوبیس گھنٹے میں یا ایک دن میں یا ایک ہفتے میں پیدا ہوئی، عالم اسلام کو گزشتہ کئی برسوں سے اس صورت حال کا سامنا ہے۔ لبنان ہو یایمن ہو، شام ہو یا عراق ہو ، بحرین ہو یا سعودی عرب ہو ان تمام ممالک میں ایک عرصے سے ایک منظم منصوبہ بندی کے تحت قتل وغارتگری اور فرقہ وارانہ کشیدگی اور باہمی کشمکش کا جو ماحول بنایاجارہا ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے اور ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔یہ کہنا تو بہت آسان ہے کہ اسے شیعہ سنی رنگ نہ دیا جائے ،اسے فرقہ ورانہ لڑائی نہ کہا جائے ،اس جنگ کو ایران اور سعودی عرب کی سرحدوں سے باہر نہ نکالاجائے لیکن بد قسمتی سے ایسا عملاًممکن نہیں ۔ ہماری خواہش یہی ہے اور ہونی بھی چاہیے، ہماری کوشش یہی ہے اوریہی ہونی چاہیے کہ اس کو فرقہ وارانہ رنگ نہ دیا جائے لیکن یہ ایک زمینی حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ یہ قضیہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کر چکا ہے اور ہرگزرتے دن کے ساتھ اس کی سنگینی میں اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ آگ پھیلتی ہی جارہی ہے ۔

حال ہی میں سعودی عرب میں جن لوگوں کو پھانسی دی گئی اس کا سعودی عرب کی عدالتوں نے فیصلہ کیا ،انہوں نے اپنے انصاف کے تقاضے پورے کیے ۔ سعودی حکومت کا موقف یہ ہے کہ ان تمام کیسوں کو کئی سالوں تک کئی عدالتوں میں سنا گیا اور تیرہ ججوں نے مختلف عدالتوں میں مختلف سطحوں پر اس کو سنا ،دلائل کا جائزہ لیا ،شواہد کو پرکھا ،دونوں طرف کا موقف سنا اور اس کے بعد فیصلہ سنایا اس طرح کے فیصلے دنیا کے کئی ملکوں میں ہوتے ہیں لیکن اتنا شور کہیں نہیں مچتا ،اس انداز سے احتجاج کہیں نہیں ہوتا کیونکہ ہر ملک کی اپنی پالیسیاں ،اپنے اندرونی اور داخلی معاملات ہوتے ہیں اور ہر ملک قیامِ امن، ملکی سلامتی اور داخلی استحکام کے لیے جو اقدامات مناسب سمجھتا ہے وہ اٹھاتا ہے لیکن اس پر دنیا بھر میں ایسا ردعمل دیکھنے میں نہیں آتا ۔ دنیا میں کوئی ملک ایسا نہیں ہو گا جہاں باغیوں کو، دہشت گردوں کو اور فساد فی الارض کا ارتکاب کرنے والوں کو سزائیں نہ دی جاتی ہوں اور ان کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کے توڑ کی کوشش نہ کی جاتی ہو لیکن کوئی کسی دوسرے ملک پر انگلی نہیں اٹھاتا ۔کیا خود ایران میں سزائے موت نہیں ہوئی، پھانسیاں نہیں دی گئیں، مجھے بتایا گیا کہ گزشتہ برس آٹھ سو(۸۰۰)سے زائد لوگوں کو صرف ایران میں پھانسی دی گئی،ان کی تصاویر سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں ،ہو سکتا ہے اعداد وشمارمیں کوئی کمی بیشی ہولیکن پھانسیوں اور سزائے موت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا لیکن ان پھانسیون پر توکہیں اتنا واویلانہیں ہوالیکن جب سعودی عرب میں کچھ دہشت گردوں اورباغیوں کو پھانسی دی گئی تو اس پر جو ردّ عمل ایران کی طرف سے سامنے ا ٓیا اس نے اس معاملے میں شدت پیدا کر دی ،ایران نے صر ف ایران میں ہی نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں اپنے مدتوں کی محنت اور بھاری سرمائے سے تیار کی گئی لابی کو متحرک کر کے احتجاج کروایا اور پھر یہ احتجاج بدقسمتی سے پُرامن نہیں رہا بلکہ پرتشدداحتجاج کی شکل اختیا ر کر گیا ۔ تہران اور مشہد میں جس انداز سے سعودی سفارت خانوں کو نشانہ بنایا گیا اس نے جلتی پر تیل کا کام کیا اس طرز عمل کی ہم نے بھی مذمت کی اور ہر ذی شعور شخص نے اس مذمت کی،یہ معاملہ ہی ایسا ہے کہ جس کی مذمت کی جانی چاہیے کیونکہ یہ سراسر بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور کھلی دہشت گردی ہے ۔

اس صورت حال میں بجائے اس کے کہ حقیقی مرض کی تشخیص کر کے اس کے علاج اور تدارک کا کوئی بندوبست کیا جائے الٹا یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام دشمنوں کی سازش ہے ،یہ اسرائیل اور عالمی طاقتوں کی کارستانی ہے۔ہوگی اور یقینا ہوگی لیکن سوال یہ ہے کہ سازش کے اس خاکے میں رنگ تو ہم خود بھر رہے ہیں ، اس سازش کا حصہ ہم خود بن رہے ہیں،اگر ہم مسئلے کی جڑ تک پہنچنا چاہیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ بعض ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم اور دوسرے ممالک کے داخلی معاملات میں غیر ضروری مداخلت اس کشمکش کی بنیادی وجہ ہے ۔ہمارے ایک پڑوسی ملک میں آنے والے انقلاب سے قبل دنیا میں ہمیں ایسی کوئی کشاکش نظر نہیں آتی لیکن جب اس انقلاب کو دوسرے ملکوں میں برآمد کرنے کی کوشش کی گئی ،توسیع پسندانہ طرز عمل اپنا یا گیا تو اس کے نتیجے میں حالات ابتر سے ابتر ہوتے چلے گئے ۔

اس وقت پاکستان ایک عجیب دوراہے پر کھڑا ہے ۔پاکستان کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہورہا ہے کہ اس صورتحال میں کیا حکمت عملی اپنائی جائے ۔ ہمیں کوئی بھی فیصلہ کرنے سے قبل اس بات کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کہ سعودی عرب پاکستان کا مْحسن ملک ہے، اس نے ہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے، خواہ وہ قدرتی آفات ہوں ،خواہ وہ پاکستان کا ایٹمی پلانٹ ہو خواہ وہ پاکستان پربین الاقوامی پابندیاں ہوں ، ہمیشہ سعودی عرب پاکستان کے ساتھ کھڑا دکھائی دیتا ہے ۔پاکستان کے لاکھوں لوگوں کا روزگار سعودی عرب سے وابستہ ہے ، حرمین شریفین کی وجہ سے پوری امت مسلمہ کے جذبات سعودی عرب کے ساتھ ہیں اور سعودی عرب کے امن وسلامتی کی پوری دنیا کے مسلمانوں کو ضرورت ہے، کیونکہ ہر مسلمان نے حرمین شریفین جانا ہے، ہر مکتبہ فکر اور ہر ملک کے باشندوں نے جانا ہے اس لیے اگر سعودی عرب کا امن متاثر ہوگا،سعودی عرب کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جائے گی اور سعودی عرب میں کسی قسم کا انتشار یا خلفشار برپا کیا جائے گا تو اس کے اثرات بد پوری امت مسلمہ پر پڑیں گے ۔ اس لیے سعودی عرب کا معاملہ خاصا مختلف ہے اور پھر صرف سعودی عرب کی بات نہیں پوری عرب دنیا اور پورا عالم اسلام ایک موقف اپنا چکا ،تیس سے زائد ممالک کا مشترکہ فوجی اتحاد تشکیل پا چکاایسے میں ہمیں پاکستان کا مفاد دیکھنا ہے اور ہم سجھتے ہیں کہ عساکر پاکستا ن نے جس طرح عالم اسلام کی اکثریت کے ساتھ چلنے کا فیصلہ کیا اور پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت نے جس طرح حرمین شریفین کے دفاع کے عزم کا اظہار کیا یہ انتہائی دانشمندانہ فیصلہ ہے ۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کو مزیدآگے بڑھ کر اپنا قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے، اس وقت دنیا کی نظریں ترکی اور پاکستان پر لگی ہوئی ہیں ان دونوں ممالک پر بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ فوری طور پرکل جماعتی قومی کانفرس طلب کی جائے جس میں پاکستان کی مذہبی ،سیاسی اور عسکری قیادت سرجوڑ کر بیٹھے اور اس مسئلے کا حل سوچے ۔خاص طور پر میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت مذہبی قیادت پر سب سے بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ مذہبی قائدین اور علماء وذاکرین کوشش کریں کہ اس کشمکش کی بنیاد پر کم از کم پاکستان میں فرقہ واریت کوہوا نہ دی جائے ۔

ہمارے ہاں رفتہ رفتہ یہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ جو آدمی ہمارے فرقے ، مسلک اور مذہب کا ہے اسے ہزار اور لاکھ قتل بھی معاف ،وہ دہشت گرد نہیں بلکہ امن پسند ہے اور دوسرے فرقے ، مسلک اور مذہب کا آدمی کیسا ہی کیوں نہ ہو وہ دہشت گرد ہی ہے ہمیں یہ سوچ تبدیل کرنی ہوگی اور یہ طے کرنا ہو گا کہ ہر دہشت گرد دہشت گرد ہے، باغی باغی ہے خواہ وہ حوثی ہو خواہ وہ داعش ہو یا کوئی بھی ہو۔ جب ہم دہشت گردوں کو دہشت گرسمجھیں گے ،جب ہم ہر سطح پر غیر ملکی مداخلت کی نفی اور مذمت کریں گے ،جب سب مل کر شرپسند عناصر کو توسیع پسندی سے باز رکھنے کی کوشش کریں گے تب ہی انصاف ہو سکے گا اور عالم اسلام کو موجودہ بحرانی کیفیت سے نجات دلائی جا سکے گی ۔ علمائے کرام، مذہبی قیادت، سیاسی قیادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سطح پر کوشش کریں کہ اس کشمکش کو انصاف اور عدل کی نگاہ سے پیش کیا جائے مسلک اور نظریے کی بنیا دپر نہ پیش کیا جائے ،دوسرے ملکوں کے داخلی معاملات میں مداخلت کو کو شیعہ سنی لڑائی کا نام نہ دیا جائے اور خاص طور پر پاکستان اپنے بہتر مستقبل اور اپنے مفاد میں کوئی بھی فیصلہ کرنے کے لیے کسی شیعہ سنی بیڑی کا پابند نہ رہے۔

بعض لوگوں کی طرف سے سعودی عرب میں کچھ دہشت گردوں اور باغیوں کی پھانسی پر احتجاج کے درست ہونے کے لیے مزارات کے انہدام کے موقع پر کیے جانے والے احتجاج کو بنیا دبنایا جاتا ہے جو انتہائی افسوسناک ہے کہ کہاں ازواج مطہرات اور صحابہ کرام کے مزارات کا معاملہ اور کہاں دہشت گروں اور باغیوں کی وکالت ان دونوں معاملات میں کوئی جوڑ نہیں ۔کچھ لوگ پھانسیوں اور سزائے موت کے خلاف سراپا احتجاج ہیں ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ کیا سعودی عرب کی موت سزائے موت ہوتی ہے اور وہاں کی پھانسی ہی انسانوں کی جان لیتی ہے دیگر ممالک کی سزائے موت پر خاموشی کیوں اختیار کی جاتی ہے اور دیگر ممالک میں پھانسی کے پھندوں پر جھولتی نعشیں جن میں بہت سی نعشیں پاکستانیوں کی بھی ہوتی ہیں ان کو دیکھ کر آنکھیں کیوں موند ھ لی جاتی ہیں ؟

اس وقت کا ایک اور المیہ یہ ہے وہ لوگ جو بظاہروحدت واخوت کے راگ الاپتے ہیں ،دوسروں کو غیر جانبداری کے درس دیتے ہیں ،جو دوسروں کو تو یہ کہتے ہیں کہ حقیقت پسند بنو، مسلک سے بالاتر ہو کر بات کرو، لیکن ان کی خود اپنی گفتگو حقیقت پسندی پر مبنی نہیں ہوتی ،ان کی اپنی گفتگوکے ایک ایک لفظ اور ہر ہر حرف سے یہ اندازہ ہو رہا ہوتا ہے کہ وہ مسلک کی بنیاد پر ہی وکالت کر رہے ہیں،اپنے فرقے کی ترجمانی کر رہے ہیں اور اپنے محسن ممالک کا دفاع کر رہے ہیں۔آپ ٹی وی مباحثوں اور مذاکروں میں ہونے والی گفتگو سے خوداندازہ لگا لیں تو آپ کو قول وفعل کا تضاد واضح نظر آئے گا، دوسروں کو مسلک سے بالاتر ہو نے کی تلقین کرنے والے بدترین مسلکی تعصب کا مظاہرہ کرتے دکھائی دیں گے ۔

اس وقت دنیا میں جو شیعہ سنی صورت حال ہے یا پاکستان میں جو قتل وغارت گری ہے ہمیں ٹھنڈے دل ودماغ سے سوچنا ہوگا کہ اس کے اسباب کیا ہیں؟ اس کے محرکات کیا ہیں؟ اس کے عوامل کیا ہیں؟ ہم جب رد عمل کو دیکھتے ہیں تو عمل کو بھی دیکھنا چاہیے کہ کیا پاکستا ن اور عالم اسلام کے اکثر ممالک بعض ممالک کے توسیع پسندانہ عزائم کی زد میں نہیں ہیں ؟ کیا وہ اپنے افکار ونظریات اور مسلک کو دوسرے ملکوں میں پروموٹ کرنے کی کوشش نہیں کر رہے؟ کیا پاکستا ن اور دیگر کئی ملکوں کے اندر قابل اعتراض لٹریچر اور اسلحہ نہیں بھیجا گیا؟کیا مختلف انداز سے مداخلت نہیں کی جارہی؟یہ بات اپنی جگہ بالکل درست اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ شیعہ تنظیموں اور شیعہ افراد کے رابطے ایران کے ساتھ ہوتے ہیں اور دوسری طرف کے لوگوں کے سنی ممالک کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں، ہمیں ایک غیر جانبدارنہ اور منصفانہ تجزیہ کرتے ہوئے اپنے ماحول کو بہتر رکھنے کے لیے حکت عملی وضع کرنا ہوگی لیکن اس کے لیے یہ ضروری ہوگا کہ ہم انصاف کی نظر سے دیکھیں، فریق بن کر نہیں رفیق بن کر سوچیں،ہم زبان سے تو کہیں کہ رفیق ہیں، تجزیہ ہمارا ایسا ہو جو فریق ہونے کی دلیل ہو، تو میں سمجھتا ہو کہ یہ منصفانہ نہیں ہوگا۔آج کسی کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونکی جاسکتی، دنیا سب کچھ دیکھ رہی ہے کہ کس کے کیاعزائم ہیں؟ کیا صورت ِحال ہے؟ اور کن بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جاتے ہیں اور کن اصولوں پر پالیسیاں تشکیل دی جاتی ہیں؟۔ ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اس کشیدگی کو ہر سطح پر کم کرنے کی کوشش کریں۔ ہم تحمل اور برداشت اور رواداری کو فروغ دیں۔ آج دشمن نے جو آگ لگائی ہے ہم اپنے وطن اور اپنی سوسائٹی اورمعاشرے کو اس آگ سے بچانے کی کوشش کریں۔

ہم اس آگ کوبجھانے والے لوگ ہیں ، آگ لگانے والے لوگ نہیں ہے۔ ہم تو سب کا احترام کرتے ہیں، سب کو مانتے ہیں اور ہم سمجھتے ہیں کہ دشمن اور طاغوتی طاقتوں کی سازشیں تب ناکام ہوں گی جب ہمارے درمیان اتحاد ہوگا اور اتحاد محض زبانی نہیں بلکہ عملی ہوگا، ہم میں سے جو لوگ وحدت کا اعلان اوردعوی کرتے ہیں ،مگر ان کا عمل وحدت کا نہیں افتراق امت کا باعث بن رہا ہے، ہمیں اس سے گریز کرنا ہوگااور امن واستحکام اور بھائی چارے کو فروغ دینے اور پُر امن بقائے باہمی یعنی جیو اور جینے دوکی پالیسی کو رواج دینے کی کوشش کرنی ہوگی ۔

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.