علامہ علی شیر حیدری شہیدؒ
(M.Jehan Yaqoob, Karachi)
ایک جید عالم دین ،مثالی مناظر،کامیاب
قائد،دوررس مدبّر
اﷲ تعالیٰ نے دین قیم کی سربلندی وپاسبانی کے لیے ہر دور میں ایسے مردان ِحق
آگاہ پیدا فرمائے ہیں، جنھوں نے اپنے خونِ جگر سے گلشنِ دین کی آبیاری کی،
اس کو سرسبز وشاداب رکھا اوراس پر ہونے والے فصلی کیڑوں اور سنڈیوں کے
حملوں کا حکمت و جراء ت سے جواب بھی دیا۔ یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا۔
رسول اکرم مخبر صادق سید ولد آدم امام المرسلین خاتم النبیین صلی اﷲ علیہ
وسلم کا ارشاد مبارک ہے:
’’میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر قائم رہے گی اور وہ اپنے مخالفین پر
غالب رہیں گے یہاں تک کہ اﷲ تعالی کا حکم آپہنچے اور عیسیٰ علیہ السلام
نازل ہوجائیں‘‘۔
حضرت امام اہل سنت علامہ مولانا حافظ مفتی علی شیر حیدری اعلی اﷲ مقامہ فی
الفردوس علمائے حق کی اسی جماعت میں سے تھے ۔انھوں نے ساری زندگی دینِ حق
کی نشرو اشاعت، اعلائے کلمۃ اﷲ اور قرآن مجید وسنت رسول صلی اﷲ علیہ وسلم
کا پیغام پوری امت تک پہنچانے کے لیے جدوجہد کی اور آخر میں اپنی جان کا
نذرانہ پیش کرتے ہوئے شہادت کے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہوکر ایسی حیاتِ
جاودانی حاصل کرگئے، جس کے بعد کوئی بھی مسلمان ان کو مردہ نہیں کہہ
سکتا،کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے اپنی لاریب کتاب میں نہ صرف شہدا کی حیات کی
شہادت و گواہی دی ہے،بل کہ شہید کو مردہ کہنا تو درکنار مردہ گمان کرنے سے
بھی منع فرما دیا ہے۔
حضرت امام اہل سنت علامہ مولانا حافظ مفتی علی شیر حیدری اعلی اﷲ مقامہ فی
الفردوس مجمع المحاسن تھے، اﷲ تعالی نے ان کو زہدوتقوی، اخلاص و للٰھیت،
خشیتِ الہی، علم وعمل، فصاحت وبلاغت، جراء ت وشجاعت، دینی غیرت وحمیت،
اخلاق کریمانہ، ظالم اور جابر حکمرانوں کے سامنے کلمہ ٔ حق بلند کرنے کا
حوصلہ اور دیگر بے شمار خوبیوں سے نوازا تھا۔، حضرت کے علم و فضل و کمال
وکردار و جدوجہد کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ امام ابو حنیفہ رحمۃ
اﷲ علیہ کے علوم و معارف کے سچے عاشق و وارث تھے، وہ امام ربانی مجدد الف
ثانی رحمۃ اﷲ علیہ کے فکر و نظر کے ترجمان تھے، وہ حضرت شاہ ولی اﷲ محدث
دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ کے سچے جانشین تھے، وہ شیخ العالم مولانا محمود حسن
دیوبندی رحمۃ اﷲ علیہ کی سوچ و فکر کے ترجمان تھے، وہ امام اہل سنت مولانا
عبدالشکور لکھنوی رحمۃ اﷲ علیہ کے علوم و معارف کے امین تھے،وہ شیخ العرب
والعجم حضرت شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ کے تقویٰ
و دیانت، امانت و ذہانت کے امین تھے، وہ متکلم اسلام مولانا علامہ محمد
انور شاہ کشمیری رحمۃ اﷲ علیہ کے کمالِ ذہنی و جمال فکری کا عکس تھے،وہ
امیر شریعت علامہ سید عطاء اﷲ شاہ بخاری رحمۃ اﷲ علیہ کی تصویر تھے، وہ
مجاہد اسلام شیر سرحد مولانا غلام غوث ہزاروی رحمۃ اﷲ علیہ کی جراء ت و
بہادری اور دلیری کے منادوحدی خواں تھے، وہ متانت و سنجیدگی میں مفتی اعظم
پاکستان حضرت مولانا مفتی محمود رحمۃ اﷲ علیہ کے ترجمان تھے۔کالم کی تنگ
دامنی کے پیش نظر میں اس ایک جملے پر اکتفا کرنے پر مجبور ہوں کہ بلاشبہ وہ
قیادت وسیادت میں تمام سابقہ قائدین کے سچے جانشین تھے۔محسوس یوں ہوتا تھا
کہ وہ قرون اولی ٰکے مسلمانوں کے قافلے کے بچھڑے ہوئے کوئی انسان ہیں، ان
کو دیکھ کر اﷲ والوں کی حقیقت دل میں راسخ ہو جاتی تھی۔
وہ بڑے شفیق اور خلیق انسان تھے، جو ان کی مجلس میں ایک دفعہ گیا، پھر وہیں
کا ہی ہو کر رہ گیا، جب وہ مسکراتے تو پھول بکھیرتے۔۔ وہ صاحب کمال بھی تھے
اور صاحب جمال بھی۔۔ان کی کس کس خوبی کا ذکر کیا جائے،کہ خلاق عالم نے ان
کی ذات میں کردار و گفتار اور اخلاص وعمل کی سلطنت کے اتنے خزانے مجتمع کر
کے ودیعت فرمادیے تھے کہ باید وشاید،وہ قحط الرجال کے اس دور میں،جب القاب
وخطابات ارزاں اور کمالات وصفات جنس نایاب بن کر رہ گئی ہیں،قدرت کا ایک
عظیم عطیہ تھے،وہ ہر میدان میں علمائے دیوبند کا خلا پر کرنے کے لیے ایک
مختصر سی عمر اور گراں بہا ذمے داریاں دے کر بھیجے گئے تھے،جنھیں انھوں نے
کما حقہ نبھایا۔
وہ ایک ماہر اور کامیاب مدرس تھے اور اس میدان میں انہوں نے ہزاروں تشنگان
علوم کو سیراب کیا۔
وہ خطابت کے شہسوار تھے، علما کے مجمع میں علمی تقریر کرتے اور عوام کے
مجمع میں ان کے فہم اور استعداد کے مطابق بیان کرتے، خاص طور پر جدید تعلیم
یافتہ طبقہ ان کے بیانات سے بہت متاثر تھا۔ برمحل عربی، اردو اشعار پڑھنے
کا ان کو ملکہ حاصل تھا۔ ان کی تقریر مدلل، منضبط، عام فہم اور دلوں پر اثر
کرنے والی ہوتی تھی اور کمال یہ ہے کہ اول سے آخر تک وہ موضوع سے اِدھر
ادھر نہ جاتے اور جتنا چاہتے اتنا بولنے پر قادر تھے۔
وہ معاصرانہ چشمک کے نام سے بھی واقف نہ تھے ،یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ہم عصر
حضرات کا احترام کرتے ،ان حضرات کا نام ادب و احترام سے لیا کرتے ،ان کے
حوالے بھی دیتے تھے۔ان کی گفتگو میں مٹھاس اور لطف و کرم کی جھلک ہوتی تھی۔
وہ مشکل بات کو آسان طریقے سے بیان کرنے میں ید طولیٰ رکھتے تھے۔ان کی بات
طویل بھی ہوتی تو سننے والے پہ گراں نہیں گزرتی تھی، ان کی بات میں وزن
ہوتا تھا ، وہ حق کہنے میں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کو خاطر میں لاتے
تھے ،نہ اس کو نفع ونقصان کے پیمانوں سے ناپنے تولنے کے عادی تھے ،بایں ہمہ
وہ غیبت نہ کسی کی کرتے تھے اور نہ کسی کی غیبت سنتے تھے،خواہ ان کا کتنا
ہی بڑا مخالف کیوں نہ ہوتا۔
علامہ مولانا حافظ علی شیرحیدری ا علی اﷲ مقامہ کا ہماری جامعہ بنوریہ
عالمیہ میں کثرت سے آنا جا نا رہتا تھا،ان کے برادر صغیر و جانشیں مولانا
ثناء اﷲ حیدری نے تو تعلیم کا آغاز بھی یہی سے کیا،یوں ان کی زیارت کا اکثر
موقع ملتا رہتا تھا،میں مجلسوں اور مجلس آرائیوں سے ہمیشہ دور اور جلسوں سے
ہمیشہ نفور رہا ،سو ان کی زیارت اکثر جامعہ بنوریہ عالمیہ کی چھوٹی مسجد
میں نماز ادا کرتے ہوئے ہو تی تھی،ہم ان کے طویل رکوع و سجود اور دعا کو
دیکھ کر اکثر سوچا کرتے تھے ،یہ تعلق مع اﷲ ہی کی دلیل ہے کہ ماشاء اﷲ
بھاری جسامت کے باوجود اتنی طویل نماز ادا فرماتے ہیں۔ابھی ان سطور کو
لکھتے ہوئے بھی ان کی نماز کا منظر نظروں میں گھوم رہا ہے۔کبھی کبھار ان کا
جامعہ میں بیان بھی ہوتا تھا،وہ اگر فجر کی نماز میں موجود ہوتے تو شہید
مظلوم حضرت مولانا محمد اسلم شیخو پوری رحمۃ اﷲ علیہ،اپنی جگہ انھیں درس
قرآن کے لیے آگے کردیاکرتے تھے۔ان کا اکثر درس منافقین کے حوالے سے ہوتا
اور فرمایا کرتے :نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کو اﷲ تعالیٰ نے کفار اور
منافقین سے جہاد کرنے کا حکم فرمایا،طالب علمو!بتاؤ!رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ
وسلم نے منافقین سے کون کون سے غزوات لڑے ؟پھر سمجھاتے کہ نبی صلی اﷲ علیہ
وسلم کا اسوہ یہی ہے کہ منافقین سے علمی جنگ لڑی جائے،سو ہم اسی سنت پر عمل
کررہے ہیں۔
یہ راقم کے تعلیمی سال کے آخری اداور(موقوف علیہ)کی بات ہے کہ ہمیں معلوم
ہوا کہ علامہ حیدری اور جبل استقامت مولانا محمد اعظم طارق رحمھما اﷲ دونوں
حضرات،کراچی تشریف لارہے ہیں،یہ ہمارے ہفت روزہ (اخبارالمدارس)کے اجرا کا
تیسرا ہفتہ تھا،تب ہم پر نیا نیا صحافت کا جنون سوار ہوا تھااور اسی سوچ
میں غلطاں وپیچاں رہا کرتے تھے کہ کسی بڑی شخصیت کا انٹرویو لیا جائے،سو یہ
خبر بھی ہمارے لیے بہت فرحت بخش تھی،اب مسئلہ یہ تھا کہ انٹرویو کہاں
ہو؟اور اس کا وقت کیسے لیا جائے؟اس مہم پر ہم نے اپنے ایک مجلسی دوست محمد
نسیم خان سواتی کو مامور کردیا،تب وہ کراچی میں ماہ نامہ آب حیات کے
نمایندے اور ہماری ہی جامعہ کے طالب علم تھے،انھوں نے ڈاکٹر محمد فیاض خان
شہیدؒسے ،جو ان دنوں صدیق اکبر مسجد میں ہوتے تھے،ملاقات کرے انٹرویو کا
ٹائم لے لیا۔یہ انٹرویو لینے جب ہم صدر کے ایک متوسط درجے کے ہوٹل قصر ناز
پہنچے تو فیاض شہیدؒ ہمارے منتظر تھے،ہوٹل کے پہلے فلور پر علامہ علی
شیرحیدری کا کمرہ تھا،جس میں ان کے گن مین خواب خرگوش کے مزے لے رہے
تھے،معلوم ہوا کہ قمرین اوپر جبل استقامت ؒ کے کمرے میں تشریف فرما ہیں،ہم
وہاں پہنچے تو قمرین کسی معاملے میں محو مشاورت تھے،ہمیں دیدار کا خوب موقع
ملا،تھوڑی دیر بعد علامہ مولانا حافظ علی شیرحیدری اپنے کمرے میں چلے گئے
تو جبل استقامت ؒ نے کمال شفقت سے ہمیں وہ مسودہ بھی دکھایا،جو اس مشاورت
کے نتیجے میں طے ہوا تھا اور اسے جبل استقامت ؒ نے تحریر اور علامہ مولانا
حافظ علی شیرحیدری نے املا کرایا تھا،یہ جامعہ حیدریہ میں تخصّص کی کلاسوں
کے آغا ز کا اشتہار تھا۔اسی سال ہماری جامعہ کے استاذالحدیث علامہ مفتی
عتیق الرحمن الراعی شہید کردیے گئے،جن کے حالات پر ان کے صاحب زادے کی
تحریک پر ہم دو ساتھیوں(میں اور مولانا محمد وسیم میواتی)نے ’’داعی ٔ قرآن
‘‘کے نام سے ایک کتاب تیار کی،شہید ؒ کے صاحب زادے نے بتایاکہ حضرت ؒ نے اس
کتاب کا مطالعہ فرمانے کے بعد خاص طور پر میرے مضمون کے متعلق دریافت
فرمایا،کہ یہ کس کا قلمی نام ہے؟غیر معروف ہونے کی وجہ سے وہ میرے نام کو
کسی معروف شخصیت کا قلمی نام سمجھے ۔دراصل میں نے اس مضمون میں علامہ
مولانا حافظ علی شیرحیدری ؒ کے والد حاجی محمد وارث شہیدؒ کے حوالے سے ایک
واقعے کا ذکر کیا تھا،تفصیل موجب طوالت ہوگی۔آیندہ سال حضرت ؒ کے ہاتھوں
دستار بندی کی سعادت بھی اس ہیچ مدان کے حصے میں آئی۔الحمدﷲ!یادوں کا سلسلہ
اسی پر ختم کرتے ہیں،ورنہ حضرت ؒ کی شہادت کے بعد ان کی بکثرت زیارتیں بھی
ہوتی رہیں،شاید یہ ان کی زندگی میں ان کی صحبت سے محرومی کی تلافی کا کوئی
قدرتی انتظام ہوگا۔واﷲ اعلم!
مجھ جیسے ہیچ مدان کاحضرت کی خوبیوں اوران کے کمالات پرکچھ کہنا’’جوئے
شیربہانے‘‘اور’’سورج کوچراغ دکھانے‘‘ کے مترادف ہے۔
حضرت کے علم وعمل ،قوت استدلال اوران پراکابر کے اعتماد کے حوالے سے حضرت
کے شاگردِ خاص مولاناراجا عبدالرازق کاشمیری کے بیان کردہ چندواقعات ان کے
شکریے کے ساتھ’’شنیدہ کے بودماننددیدہ‘‘ کے اصول کے تحت درج کیے جارہے
ہیں،وہ کہتے ہیں:
اﷲ تعالی نے میرے شیخ،امام اہل سنت ،قاطع رافضیت،ضیغم ِ اسلام حضرت اقدس
علامہ مولانا حافظ علی شیرحیدری ا علی اﷲ مقامہ کوعلم وفضل میں اعلی مقام
عطافرمارکھاتھا۔یوں توآپ کی ذات میں اﷲ تعالی نے بے پناہ صفات ودیعت کررکھی
تھیں،صبرواستقامت،ہمت وحوصلہ،غیرت ودینی حمیت ،ذہانت ومتانت،تدریس وخطابت
اورقیادت وسیادت جیسے مختلف عناصرکویکجاکرکے ایک حسین وجمیل پیکرتراشا۔ان
تمام اوصاف میں علم وعمل اورورع وتقوی کی صفات آپ میں ایسی کوٹ کوٹ کربھری
تھیں،کہ اپنے تواپنے پرائے بھی ان صفات کے معترف تھے،بلکہ دشمن ان سے ہردم
ہراساں بھی رہتاتھا۔
آپ کے علم کی گہرائی اورلاجواب وبے نظیرقوت ِ استدلال کا اندازہ اس واقعے
سے بخوبی لگایاجاسکتاہے کہ:
ایک مرتبہ بریلویوں کی شیعوں سے بحث ہوئی،فریق اول کاکہناتھا کہ شیعہ کلمے
میں اضافے کے مرتکب ہیں ،جبکہ فریق ثانی کااپنے دفاع میں بریلویوں پریہ
الزام تھاکہ وہ اذان میں اضافے کے مرتکب ہیں،جس کی دلیل کے طورپرانہوں نے
اذان ِ فجرکوپیش کیاکہ تم نے اس میں ''الصلو خیرمن النوم''کا اضافہ
کیاہے،جوقرآن سے ثابت نہیں،اس پربریلوی مناظرنے بلاسوچے سمجھے کہہ دیاکہ یہ
الفاظ قرآن سے ثابت ہیں۔یہ سننا تھا کہ شیعوں نے شورمچادیاکہ آئندہ تاریخ
طے کرکے اسی عنوان پرمناظرہ کیاجائے،چنانچہ تاریخ طے ہوگئی۔
بعدمیں بریلویوں نے ٹھنڈے دل سے غورکیا توانہیں اپنی شکست صاف نظرآنے
لگی،ان کی صفوں میں کھلبلی مچ گئی،بالآخربریلوی علمانے مناظرہ نہ کرنے
کافیصلہ کیا،کیونکہ موضوع ہی غلط طے ہواتھا۔کسی نے تاریخ طے کرنے والوں
کومشورہ دیاکہ اس شرمندگی سے بچنے کے لیے حضرت اقدس علامہ مولانا حافظ علی
شیرحیدری سے رجوع کرو،وہ کوئی حل نکال لیں گے۔بریلوی احباب کویک گونہ
اطمینان ہوا،انہوں نے حضرت سے رابطے شروع کردیے اورملاقات کرکے انہیں تمام
احوال بتائے اور تعاون کی درخواست کی۔ان کی گفتگوسن کرحضرت نے فرمایاکہ یہ
عنوان اورموضوع ہی غلط ہے،جس پرمناظرہ نہیں ہوسکتا۔یہ دیکھ کرانہوں نے بڑی
منت سماجت کی اوراپنے احباب نے بھی حضرت سے باصراردرخواست کی کہ:حضرت!سنیت
کا مسئلہ ہے،آپ اس مناظرہ کابوجھ اٹھالیجیے۔خلاصہ یہ کہ حضرت نے ہامی
بھرلی۔بریلویوں نے اشتہارلگادیے کہ اہل سنت کی طرف سے مناظرامام اہل سنت
علامہ مولانا حافظ علی شیرحیدری ہوں گے۔جب اس بات کی اطلاع شیعہ مناظرین
کوپہنچی توان کے چھکے چھوٹ گئے،ان کے ہاتھوں کے طوطے اڑگئے۔انہوں نے راہ
فراراختیارکرنے میں ہی اپنی عافیت سمجھی اوراعلان کردیاکہ ہم ہرگزمناظرہ
نہیں کریں گے۔ہرچندکہ انہیں سمجھایاگیاکہ ''الصلوۃ خیرمن النوم''قرآن میں
نہیں ہے،آپ مناظرہ کریں ،فتح آپ کامقدرہوگی۔مگران کاکہناتھا کہ کچھ بھی
ہو،ہم مناظرہ نہیں کریں گے کیونکہ علامہ علی شیرحیدری کا علم اورقوت
استدلال اس قدرمضبوط ہے کہ وہ ''الصلو خیرمن النوم''کوقرآن سے ثابت کرہی
دیں گے۔قارئین کرام!آپ نے اندازہ لگایا دشمن بھی آپ کی علمیت اورقوت
استدلال کاکس قدرمعترف اورآپ سے ہراساں تھا!
حضرت کے علم وفضل کاایک اورواقعہ قارئین کی نذرکرتے ہیں:
ایک مرتبہ کاواقعہ ہے کہ کراچی میں ایک شیعہ خاتون نے اپیل کی کہ میرے کچھ
اشکالات ہیں ،اگران کو دورکیا جائے تو میں مسلمان ہونے کے لیے تیارہوں ۔اس
خاتون سے بات کرنے کے لیے ایک جیدعالم دین کاانتخاب کیا گیا،جوعلوم دینیہ
وعصریہ کے ماہر،محقق ومدبراورمایہ نازمصنف وخطیب بھی تھے،انہوں نے بڑے احسن
اندازسے اس کے اشکالات سنے اورتسلی بخش جوابات دیے،لیکن اس عورت کے کچھ
اشکالات ایسے تھے کہ ان کے جوابات سے اس خاتون کی تسلی وتشفی نہ
ہوسکی۔آخرمیں انہوں نے ایک تاریخ سازجملہ ارشادفرمایاکہ :یہ میرے علم کانقص
ہے،میرے مذہب کے جھوٹے ہونے کی علامت نہیں ۔اس کے بعدعلمانے باہمی مشورے سے
حضرت علامہ حیدری ؒکواس حوالے سے خیرپورسے تشریف لانے کی درخواست کی ،حضرت
تشریف لائے اوراس خاتون کے تمام اشکالات کے تسلی بخش جوابات دیے۔کراچی
اورملک کے دوسرے شہروں میں جیدعلماومناظرین کی کمی نہیں تھی،لیکن اس کے
باوجودعلامہ حیدری کاانتخاب اکابرکے ان پراعتمادکی بین دلیل اوران کے علم
وفضل کابھی واضح اعتراف ہے۔
ورع وتقوی میں بھی آپ اپنی مثال آپ تھے۔ہم نے سن رکھاتھا کہ بڑے لوگوں سے
دوررہ کرہی ان سے حقیقی محبت وعقیدت قائم رہتی ہے اورجتنی ان سے قربت بڑہتی
اوران کے روزوشب سامنے آتے ہیں ،عقیدت ومحبت اورپارسائی کا یہ بھرم ٹوٹ
جایاکرتاہے،لیکن واﷲ العظیم ہم نے اپنے حضرت کوقریب سے دیکھا،سفرتوحضرمیں
ان کے ساتھ رہنے کا بارہاموقع ملا، خوشی وغمی میں ،اپنوں اوربیگانوں میں
غرضیکہ ہرحال میں دیکھااورہمیشہ ہمیں آپ کے ورع وتقوے کی ایک عجیب ہی شان
نظرآئی،معمولات کی پابندی ،نمازپنجگانہ ہی نہیں ،تہجدتک کا اہتمامتلاوت
کلام مجیدسے رطب اللسان استقامت وعزیمت ،صبروتحمل…… یہ اوصاف آپ میں ہمہ
وقت جلوہ گردیکھے۔ہم نے آپ کوجب بھی جامعہ حیدریہ میں دیکھا،کسی نہ کسی
دینی وعلمی مشغولیت میں دیکھا،جامعہ میں پہرے کے دوران ہم دیکھتے کہ حضرت
تہجد کے بعدجامعہ میں بے خوف وخطرچکرلگارہے ہوتے تھے،حالاں کہ آپ
کوجیدعلمائے کرام نے کہہ رکھاتھا کہ احتیاطاًفجراورعشاکی نمازیں بھی
گھرپرادافرمایاکیجیے،مگراصحاب ِ رسول کے اس شیرکی جرا ت کایہ عالم تھا کہ
جامعہ میں موجودہوتے توہرنمازصف ِ اول میں اداکرتے اورتہجدکے بعدبھی جامعہ
کاچکرلگاتے تھے۔سفرمیں عام طورپربڑی تھکاوٹ ہوجاتی ہے اورشریعت نے بھی
قصرنمازکی سہولت رکھی ہے،مگرحضرت سفرمیں بھی اعمال میں کوئی کمی نہ کیاکرتے
تھے۔رمضان المبارک میں سندھ وپنجاب کے اسفارمیں مسلسل پروگرامات کی وجہ سے
حددرجہ تھکاوٹ ہوجاتی تھی،ایسے ہی ایک سفرکاواقعہ ہے ،ہم طارق محمودمدنی کے
ہاں قیام پذیرتھے،عشاکی نمازکاوقت ہوگیا،سب کاخیال تھا کہ حضرت صرف نمازِ
قصرادافرمائیں گے،کیونکہ مسلسل اسفاروبیانات اورنیندکی وجہ سے آپ کی آنکھیں
سرخ ہوگئی تھیں،مگرفرضوں کے بعدحضرت نے آگے بڑھ کرخودتراویح کی نماز کی
امامت فرمائی،یہ دیکھ کرہم حضرت کی اس ہمت پرحیران رہ گئے۔
ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ حضرت کو اﷲ تعالی نے محبوبیت بھی عطا فرمائی
تھی جو بہت کم کسی کو نصیب ہوتی ہے، علما وطلبہ اور عوام الناس، بوڑھے اور
جوان سب ان سے محبت کرتے تھے۔وہ اس شعر کا مصداق تھے،جو حضرت خنساء رضی اﷲ
عنھا نے اپنے مرحوم بھائی قیس کے مرثیہ میں کہا تھا
وما کان قیس ھلکہ ھلک واحد
و لٰکّنہ بنیان قوم تھدما
اﷲ تعالیٰ کی نظر میں وہ کس قدر محبوب تھے،اس کا اندازہ اس شان شہادت سے
ہوتا ہے ،جو انھیں نصیب ہوئی۔وہ پیر جو گوٹھ میں واقع ایک مدرسے میں درس
قرآن وحدیث دے کر واپس تشریف لارہے تھے،دشمن نے ان پر حملہ کرنے کے لیے جن
ساعات کاانتخاب کیا تھا،وہ ساعات بھی بڑی عظیم تھیں کہ جب خلاق عالم آسمان
دنیا پر تشریف لاکر ندا کراتے ہیں ہے کوئی……کیا معلوم!حضرت ؒ نے کسی ایسی
ہی ساعت میں ایسی ہی شان شہادت مانگی ہو،جو قبول کرلی گئی۔میرے ایک دوست
،جو سرکاری ملازم ہیں اورجن کا کسی دینی جماعت سے تعلق نہیں،حضرت ؒ کی
شہادت کے ایک ماہ بعد خیر پور کے دورے پر گئے تھے تو واپسی میں بتایا کہ اب
تک ان کی گاڑی کی سیٹ،جس پر ان کا لہو گرا تھا،معطر ہے۔اہل بصیرت جانتے ہیں
یہ کس مقام علیا کی علامت تھی،جو دنیا میں دکھائی گئی۔ان کے قاتلوں کے
انجام سے بھی اس حقیقت پر مہر تصدیق ثبت ہوگئی کہ منتقم حقیقی کو انتقام
لینے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی،اس نے اپنے ولی کے قاتلوں سے
اعلان جنگ کیا ہے،سو اس کا انتقام بھی دنیا میں لے کر دکھادیا۔سبحان تیری
قدرت!
اﷲ تعالیٰ ان کی شہادت کو اسلام کے غلبے کا ذریعہ بنائے اور امت مسلمہ کو
ایسے آبدار ہیروں کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین |
|