قوم کی مایوسی کی تصویر

زیر نظر مضمون لکھنے کا مقصد قوم کی مایوسی کی تصویر کو مزید پختہ کرنا ہر گز نہیں کیونکہ یہ ’فریضہ‘ ملکی اخبارات اور ٹی وی چینلز بخوبی انجام دے رہے ہیں۔ ہمارا بنیادی مقصدصرف اور صرف ایک ایسے معاشرتی مسٔلہ کی طرف قارئین کو متوجہ کرنا ہے جس کہ بدقسمتی سے مختلف معاشرتی طبقات بالخصوص مذہبی طبقہ کی طرف سے کوئی معاشرتی مسئلہ ہی نہیں سمجھا جاتا۔ آمدم برسر مطلب، اس مضمون کا باعث قومی و بین الاقوامی ذرائع ابلاغ میں نمایاں طور پر چھپنے والا وہ بیان بنا جس کے مطابق ، پاکستان کی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے مذہبی امور نے کم عمری کی شادی کے خلاف قانون میں ترمیمی بل کو غیراسلامی قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔اس علمی و فکری زوال کی اور مثال کیا کم ہوگی جب قانون سازی کے حوالہ سے ملک کے اعلیٰ ادارے اس طرح کے نتائج دینے لگیں۔ لیکن ہمیں اس سے قطعاً حیرت نہیں ہوئی کیونکہ قوم کی نمائندگی کیلئے قانون ساز اداروں میں جس علمی سطح کے لوگ(بشمول جعلی ڈگری ہولڈرز)براجمان ہیں ان سے کسی بہتری کی امید رکھنا ممکن ہی نہیں۔ ایک مشہور عربی کہاوت ہے کہ وسیع صحرا میں بھٹکے ہوئے مسافروں کا وہ گروہ تباہ کیوں نہ ہو جبکہ وہ راہنمائی کیلئے زاغ (کوّا) کو اپنا راہنما بنائے۔ ظاہر ہے کہ زاغ وسیع و عریض صحراؤں میں صحیح راستہ دکھانے کی بجائے صرف اور صرف اسی غلط سمت کی طرف راہنمائی کرتے ہیں جس پر پہلے کے مسافر بھٹک کر مرچکے ہوتے ہیں اور زاغ ان کے مردہ اجسام سے اپنا حصہ وصول کرنے کی خاطر ان پر منڈھلاتے رہتے ہیں تو جو بھٹکنے ہوئے مسافر انہی زاغوں کو زندگی کی علامت سمجھ کر اور ان کو اپنا قائد مان کر انکے پیچھے چل پڑتے ہیں اس کا نتیجہ سوائے ہلاکت کے اور کچھ نہیں نکلتا۔ بدقسمتی سے ہماری قوم بھی زندگی کے ہر شعبہ میں چاہے سیاست ہو یا اقتصاد اور یا پھر مذہب، ہر جگہ اپنے اپنے انداز میں زاغوں کے ہی نرغے میں ہے۔یہی وجہ ہے کہ پچھلے 68برسوں میں کسی بھی شعبہ میں بہتری کے کوئی آثار تک دکھائی نہیں دیتے بلکہ اسکے برعکس ہر شعبہ و ادارہ تباہی و انحطاط کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونسل کا کردار باھی اہل سیاست کی نظر ہو کر رہ گیا ہے جسکی وجہ سے اسکے ممبران کی تعیناتی میرٹ و اہلیت کی بجائے سیاسی و مذہبی وابستگی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ ظاہر ہے جب اہلیت کے معیار کے بجائے سیاسی اثر و رسوخ کی بنیاد پر ممبران کا تعین کیا جائے گا تو اسکے نتائج بھی ایسے ہی آئیں گے جس کا نظارہ ہم گزشتہ کئی سالوں سے بالعموم اور گزشتہ دو سالوں سے بالخصوص کررہے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے DNAکو بطور شہادت تسلیم کرنے یا نہ کرنے کے حوالہ سے نظریاتی کونسل کا مضبوط دلائل سے عاری ایک فیصلہ آیا جس پر نہ صرف تمام مذہبی طبقات کا خاموش اتفاق نظر آیا بلکہ بدقسمتی سے ملک کی اعلیٰ عدالتوں نے بھی اس پر خاموش رہنے میں عافیت سمجھی۔ جدید فقہی مسائل کا حل تلاش کرنا یقینا علماء دین کا ہی کام ہے بشرطیکہ وہ اجتہاد کے حوالہ سے تمام ضروری علوم اور اخلاقی و فنی تقاضوں کو پورا کرتے ہوں۔ یہاں تو بدقسمتی سے حال یہ ہے کہ اجتہاد سے متعلقہ ضروری علوم تو ایک طرف، اجتہادی مسائل کے استنباط کیلئے بنیادی ضروری چیز یعنی اجتہاد کرنے کی نیت ہی مفقود ہے۔ ایسی صورتحال میں جب ایک طرف مذہبی انتہاپسندی اپنے عروج پر پہنچی ہوئی ہو اور دوسری طرف فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ سے عوام و خواص کی جان ومال تک محفوظ نہ ہوں تو عمومی طور پر اس طرح کی صورتحال پر متعلقہ ذمہ داران بالخصوص عدلیہ و علماء حق کی جانب سے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ جسکی وجہ سے ایک معتبر قومی ادارہ پر براجمان نااہل لوگوں کی وجہ سے اسلام کے خوبصورت تشخص کو داغدار کرنے کی کوششیں روزافزوں بڑھنے لگتی ہیں یہی وجہ ہے کہ متعلقہ ذمہ دار افراد اور اداروں کی غفلت و خاموشی کی وجہ سے نظریاتی کونسل کی نئی سفارش (جو دراصل حکم کا درجہ رکھتی ہے) سامنے آئی ہے جسکی رُو سے کم عمری کی شادی کی مخالفت کرنا ’غیرشرعی و غیر اسلامی‘ ہے۔ بات یہاں تک ہی نہیں رُکی بلکہ کم عمری کی شادی کے خالص معاشرتی پہلو کو بھی ’’توہین رسالت‘‘ کے مترادف قرار دیا جس پر سوائے افسوس کے اور کیا کیا جاسکتا ہے۔

درحقیقت نظریاتی کونسل کے متعلقہ ممبران علماء کرام کو قومی اسمبلی میں پیش کردہ اس بل کا وہ معاشرتی پہلو سمجھ ہی نہ آیا جسکی وجہ سے کم عمری کی شادیوں پر سزا میں اضافہ کی تجویز دی گئی ہے۔ اجتہاد کیلئے ضروری علمی استعداد سے محروم نظریاتی کونسل کے ممبران کی سمجھ کیلئے عرض ہے کہ کم عمری کی شادی کی مخالفت کے سلسلہ میں اس کے مذہبی پہلو کے بجائے معاشرتی پہلو کو مدنظر رکھیں تو حقیقت تک پہنچنے میں آسانی ہوگی۔ اس مسئلہ کے مذہبی پہلو سے کسی بھی باشعور مسلمان کو انکار نہیں ہوسکتا کہ اسلامی تاریخ کے ابتدائی ایام سے لیکر اب تک بچیوں کی کم عمری کی شادی کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی۔ اس سلسلہ میں خود اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا کی کم عمری میں حضور اکرم ﷺ کیساتھ شادی کی مثال سب کے سامنے ہے۔ انہی حقائق کی وجہ سے کم عمری کی شادی کا مسئلہ بذات خودکوئی مذہبی تردد کا باعث نہیں بنتا۔ اسلام میں اسکی ’اجازت‘ ہونے میں کسی بھی فرقہ کو(چاہے سنی ہو یا شیعہ) اختلاف نہیں بلکہ اسکی اجازت پر تمام امت کا اتفاق ہے۔ اصل مسئلہ ’کم عمری کی شادی‘ سے پیدا ہونے والے معاشرتی اور انسانی مشکلات ہیں جس پر نظریاتی کونسل کے معزز ارکان کو غور کرنے کی توفیق نہ ہوسکی۔ لہٰذا ہمارا موقف یہ ہے کہ ’بچیوں کی کم عمری کی شادی‘ کو اسکے’ شرعی جواز‘کے باوجود فی زمانہ اسکے منفی معاشرتی اور انسانی پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہئے۔ اس حقیقت سے کسی کو کیسے انکار ہوسکتا ہے کہ کم عمری میں شادی کی وجہ سے بالخصوص بچیوں کیلئے شدیدمشکلات پیدا ہوجاتی ہیں۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی حالیہ رپورٹ کے مطابق، دوران زچگی زچہ و بچہ کے اموات کی شرح پاکستان میں خطہ کے دوسرے ممالک کے مقابلہ میں کافی بلند ہے جسکی ایک بنیادی وجہ کم عمری کی شادی بھی ہے۔کم عمری کی شادیوں کی وجہ سے معصوم بچیوں کو جن نفسیاتی اور جسمانی کرب و مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے وہ نہ صرف ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے (جسکی اسلام کبھی اجازت نہیں دیتا) بلکہ اسلامی بنیادی اصول ’حفاظت جان‘ کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اسلام کے تمام احکامات اور مقاصد الشریعہ کی روح انسانی جان کی عظمت و حفاظت کے گرد گھومتی ہے چاہے وہ عبادات سے متعلق احکام ہوں یا معاملات سے متعلق۔ ان معروضی حقائق کی روشنی میں اس بات میں شک و شبہہ کی گنجائش باقی نہیں رہتی کہ کم عمری کی شادی کی وجہ سے نوعمر معصوم بچیوں کی جانوں کو بالخصوص دوران زچگی شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ اور اس پر مستہزاد یہ کہ پاکستان میں طبی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے یہ خطرات تقریباً یقینی صورت اختیار کرلیتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کوئی بھی ذی عقل بشمول نظریاتی کونسل کے معزز ارکان کے، قوم کی بچیوں کی زندگی کو یقینی خطرات سے دوچار کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہی قرار دینگے کیونکہ اسلام میں انسانی جان کی حفاظت پر جتنا زور دیا گیا ہے اسکی مثال شاید ہی کسی دوسرے مذہب میں پائی جاتی ہو۔

جہاں تک اس مسئلہ کے شرعی پہلو یا اسکے ’جواز‘ کا تعلق ہے تو اس بابت عرض ہے کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں حکومت وقت کو شریعت میں یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ کسی بھی پیش آمدہ مسئلہ اور اسکے معروضی حالات کے موافق بہترین انسانی مفاد میں فیصلہ کرے۔ اسکی وضاحت کے لئے صرف اتنا عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اسلامی شریعت میں ’حدود کے احکامات‘ جس میں کسی بھی انسانی ہاتھ کمی یا بیشی کا اختیار نہیں مگرساتھ ہی ان کے استعمال کے وقت قاضی و منصف شرعی کو اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ مجرم کے معروضی حالات کو ضرور سامنے رکھے مثلاً چور سے متعلق حد جاری کرتے وقت چور کے معروضی حالات کو جاننا قاضی کیلئے لازمی ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ اگر چور نے حالت اضطرار میں چوری کا ارتکاب کیا ہے کہ اسکے بیوی بچے بھوک کی شدت سے مرنے کے قریب پہنچ گئے تھے، تب قاضی یا جج ’حد‘ جیسا آسمانی حکم بھی نافذ کرنے سے اجتناب کریگا کہ چور کو انسانی جان (بیوی ،بچوں) کی بقاء کا معاملہ درپیش تھا۔

حرف آخر کے طور پر ان سطور کی وساطت سے تمام متعلقہ ذمہ داران چاہے افراد ہوں یا ادارے، سے گزارش ہے کہ ’کم عمری کی شادی‘ جیسے معاشرتی مسئلہ کو سطحی مذہبی جذبات کے بجائے خالص انسانی مسئلہ کی روشنی میں حل کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔ بالخصوص اس کو ’توہین رسالت‘ قرار دینے کی غیر حقیقی تشریح کرنے سے گریز کرنا چاہئے تاکہ اہل فہم و دانش بلاخوفِ جا ن و مال اپنی علمی آراء پیش کر سکیں کیونکہ ’توہین رسالت‘ کے حساس الزام میں پھنس جانے کے ڈر سے لوگ اتنے خوف زدہ ہوجاتے ہیں کہ وہ اپنے علمی اختلاف رائے کے حق سے بھی دستبردار ہوجاتے ہیں۔ اس خوف کی ایک عام جھلک محترمہ ماروی میمن (اصل محرّکہ میمی بل) کے بی بی سی اردو کو دئیے گئے انٹرویو میں واضح طور پر محسوس کی جاسکتی ہے۔
Syed Fawad Ali Shah
About the Author: Syed Fawad Ali Shah Read More Articles by Syed Fawad Ali Shah: 96 Articles with 80132 views i am a humble person... View More