حضرت خالد کی عہدۂ سپہ سالاری سے معزولی اور حکم امیر کی پاسداری- قسط نمبر۱۰
(Ata Ur Rehman Noori, India)
فتح ونصرت اﷲ کی طرف ہے اور ہم سب اس کے
بندے ہیں
ماہ ربیع الاول ۱۰؍ہجری میں پیغمبر اسلامﷺ نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوچار
سو مجاہدین کاسالار بناکرنجران کی طرف بھیجاتاکہ بنوالحارث بن کعب کواسلام
کی دعوت دیں۔حضورانورﷺ نے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ کوحکم دیاجب وہاں پہنچیں
توفوراً ان پر حملہ نہ کردیں بلکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔صرف
ایک مرتبہ نہیں بلکہ تین مرتبہ اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔اگر وہ اسلام
قبول کرلیں توان کوامن دے دیں اور وہاں سکونت پذیرہوں اور اس اثناء میں
قرآن کریم اور سنّت نبوی کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اسلام کے بنیادی عقائد
وفرائض کے بارے میں ان کوتلقین کریں۔لیکن اگر وہ تین بار اسلام قبول کرنے
کی دعوت کے بعد بھی اسلام کوقبول کرنے سے انکار کردیں توپھر ان کے ساتھ جنگ
کرنے کی اجازت ہے۔اہل نجران،نصرانی تھے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی
شریعت پر عمل پیراتھے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ مدینۂ طیبہ سے روانہ ہوکرنجران
کے علاقے میں پہنچے اور اپنے سواروں کے چھوٹے چھوٹے دستے بناکراس علاقے کے
مختلف اطراف واکناف میں بھیجے تاکہ انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں۔جب
ان حضرات نے مختلف آبادیوں میں پہنچ کراسلام قبول کرنے کی دعوت دی توان سب
نے اسلام قبول کرلیا۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ یہاں کچھ عرصہ سکونت پذیر رہے
اور حسب ارشادِ رسالت مآبﷺ ان کو قرآن کریم کی سورتیں یاد کراتے رہے۔حضورﷺ
کی سنت مطہرہ پر ان کوآگاہ کرتے رہے اور دین اسلام کے بنیادی عقائد اور
احکام پر عمل کرنے کی دعوت دیتے رہے۔حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے کامیابی کے
ساتھ اس علاقہ کونورِاسلام سے منورکرنے کے بعد بارگاہِ رسالتﷺ میں ایک
عریضہ ارسال کیاجس میں اپنی ساری سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع درج
کی۔سرکاردوعالمﷺ نے اس مکتوب کاجواب تحریر فرمایااور ان لوگوں کے اسلام
قبول کرنے پراﷲ تعالیٰ کی حمدوثناء کی،پھرفرمایا:ان کو اﷲ کی رحمت کی بشارت
سنائیں،اﷲ کی نافرمانی سے ڈرائیں۔جب بھی مدینہ واپس آؤ تو ان کاایک وفد
اپنے ہمراہ لاؤ۔ حضرت خالد رضی اﷲ عنہ جب مدینۂ طیبہ حاضر ہوئے تو ان کاایک
وفداپنے ہمراہ لائے جو ان کے رؤساء پر مشتمل تھا۔(ضیاء النبیﷺ،ج۴،ص؍۷۳۰)
عہدۂ سپہ سالارسے برطرفی
۲۲؍جمادی الآخر۱۳؍ھ بمطابق۲۲؍اگست ۶۳۴ء کوامیرالمومنین سیدناصدیق اکبررضی
اﷲ عنہ نے اس دارِفانی سے پردہ فرمایا اور حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ عنہ
مسندخلافت پرجلوہ گرہوئے ۔ کسی وجہ سے سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے اﷲ کی
تلوار حضرت خالد بن ولید کوسپہ سالاری کے عہدہ سے معزول کیااور حضرت
ابوعبیدہ بن الجراح کوسپہ سالارمقررفرمایا۔۳؍شعبان ۱۳؍ھ بمطابق
۲؍اکتوبر۶۳۴ء کی صبح لشکرِ اسلام کو سیدناابوبکر صدیق رضی اﷲ عنہ کی وفات
اور سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کی خلافت کااعلان کیاگیا۔دمشق میں مقیم
لشکر نے غائب نمازِ جنازہ پڑھی اور نئے خلیفہ کی بیعت کااقرار کیا۔اس کے
بعد سپہ سالار کی تبدیلی کا اعلان کیاگیا ۔حضرت خالد بن ولیدنے امین الامت
حضرت ابوعبیدہ رضی اﷲ عنہ کی ماتحتی میں وہی جوہر دکھائے جوسپہ سالاری کے
ایام میں دکھاتے تھے۔آپ نے فرمایا:’’واﷲ!اگرحضرت عمر رضی اﷲ عنہ کسی کم عمر
بچے کوبھی میرا امیر بنا دیتے تومیں اس کی بھی اطاعت کرتا،میں نے تو اپنی
زندگی خداکی راہ میں وقف کی ہوئی ہے‘‘۔(ماہ نامہ استقامت ،کان پور،اسلامی
جہاد نمبر،۲۰۰۵،حضرت خالدرضی اﷲ عنہ بن ولید کی آپ بیتی،ص۳۵)امین الامت کی
قیادت میں آپ نے جنگ یرموک اور بیت المقدس کے محاصرے میں جنگی حکمت عملی
اورمحیرالعقول منصوبوں کے ذریعے دشمنان اسلام کودم بخودکردیا۔چار ماہ کے
محاصرے کے بعدبیت المقدس والوں نے اس شرط پر ہتھیار ڈالنے کی پیش کش کی کہ
صلح کے معاہدہ پردستخط کے لیے خود مسلمانوں کے خلیفہ آئیں۔امین الامت کاخط
پڑھ کرامیرالمومنین ربیع الاول۱۶؍ھ بمطابق اپریل ۶۳۷ء کوملک شام تشریف
لائے۔جابیہ کے مقام پر آپ کاپُرتپاک استقبال کیا گیا، آپ انتہائی سادہ لباس
میں تھے۔بعض لوگوں نے آپ کوترکی گھوڑااور لباس پیش کیا۔اس پرآپ نے وہ
تاریخی جملے ارشاد فرمائے جوآج بھی ہمیں جذبۂ عمل فراہم کررہے ہیں،آپ نے
فرمایا:’’اﷲ نے ہمیں اسلام کی جوعزت دی ہے ہمارے لیے وہی کافی ہے‘‘۔(مرجع
سابق،ص۳۹)پادریوں نے خود آپ کوقبلۂ اول کی چابیاں دیں۔بیت المقدس کے حصول
کے بعد آپ فتح شدہ علاقوں کادورہ کرکے اور سرحدوں کی حفاظت کاانتظام کرکے
مدینہ شریف تشریف لے گئے۔بیت المقدس کے پادری کے ساتھ امیرالمومنین
سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ کے معاہدے پر حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے بھی
بطورگواہ دستخط کئے۔(مرجع سابق،ص۳۹)
فوج سے معزولی
مرعش سے واپسی پربنی کِنداکے ایک سرداراشعت بن قیس نے حضرت خالدرضی اﷲ عنہ
تعریف میں ایک قصیدہ پڑھااور انھیں ایک عظیم فاتح قراردیا،آپ نے خوش
ہوکراسے دس ہزاردرہم بطورانعام دیئے۔یہ خبر امیرالمومنین کوملی توآپ نے
حضرت خالدرضی اﷲ عنہ کومدینہ شریف بلوایااورفوج سے سبکدوش کردیا۔حضرت
خالدرضی اﷲ عنہ فوج سے علیٰحدہ ہوکرحمص میں مقیم ہوگئے۔امیرالمومنین نے
سالانہ تین ہزاردرہم آپ کاوظیفہ مقرر فرمایا ۔تاریخ شاہد ہے کہ جس نیک دلی
اورحوصلے سے حضرت خالد رضی اﷲ عنہ نے امیرالمومنین کے احکام کی تعمیل کی اس
کی مثال نہیں ملتی۔فوجوں کاسپہ سالار اختیار رکھتاتھاکہ اپنے احکام منوالے
لیکن جس نے اپنے آپ کوراہِ خدامیں وقف کردیاہو وہ ذاتی شان وشوکت کامحتاج
نہیں ہوتا۔آپ کی معزولی کے بعد سیدنافاروق اعظم رضی اﷲ عنہ نے سلطنت کے
تمام علاقوں میں ایک گشتی مراسلہ بھجوایاتھاجس میں لکھاتھاکہ:میں نے خالد
رضی اﷲ عنہ کوکسی ناراضی یا خیانت کی وجہ سے معزول نہیں کیاہے بلکہ فوجی
کارناموں کی وجہ سے لوگ فتنے میں مبتلاہورہے تھے اور خدشہ تھاکہ کہیں
مسلمان خالد پرہی انحصار نہ کرلیں۔میں نے انہیں اس لیے معزول کیاتاکہ لوگوں
کومعلوم ہوجائے کہ فتح و نصرت خداکی طرف سے ہے اور ہم سب اس کے بندے
ہیں۔(نورانی حکایات،ص۷۴) |
|