سید بشیرحسین جعفری....یادیں باتیں
(syed abrar gardezi, rawalpindi)
عالمی سیاح، دانش ور،ادیب ،تاریخ دان، صحافی،بیوروکریٹ،آرکاوسٹ، کالم نگار، مدیرماہنامہ”بصیرت“ اور ایوارڈز کی نصف سنچری مکمل کرنے والے مصنف۔ |
|
عالمی سیاح سید بشیر حسین جعفری زندگی کی
اٹھاسی بہاریں دیکھ کر ۱۲ جنوری کو راولپنڈی میں داعی اجل کو لبیک کہہ
گئے۔انا ﷲ و انا الیہ راجعون۔
جعفری صاحب کا نام کسی تعارف کی محتاج نہیں ۔آزاد کشمیر اور پاکستان کے
علمی و ادبی حلقے اس نام سے بخوبی واقف ہیں۔ پینتالیس برس اعلی سرکاری
ملازمت کی،سارا پاکستان چھان مارا۔ چھ براعظموں کے بیسیوں ممالک ‘ سیکڑوں
شہر،وہاں کی لائبریریاں ‘عجائب گھر ‘ سائنسی و فنی ادارے‘ عجائبات دیکھے۔
نارتھ پول پوائنٹ تک سفر کیا ۔ آٹھ مرتبہ یورپ ‘ امریکہ ‘ ایشیا ‘ افریقہ
کی سیاحت کی ۔ کینیڈا ‘ امریکہ کی چھتیس ریاستیں، روس ‘ چین ‘ ہوائی ‘
جنوبی کوریا ‘ مصر ‘ سوڈان ‘ الجزائر ‘ اٹلی ‘ جرمنی ‘ فرانس بلجیم ‘
ہالینڈ ‘ لکسمبرگ اور سپین،اٹلی۔کہاں کہاں نہیں گئے ۔ کوہ الپس ALPSکی
گھاٹیاں ، بلیک فارسٹ ،نیا گرا فال ‘ونکوور‘ ڈزنی لینڈ‘ تاہو لیک ‘ ریڈ
فارسٹ اور کوسٹل مونٹین سبھی کچھ دیکھا۔”دنیا میرے آگے“ تو کبھی ”سورج میرے
پیچھے۔“ دنیا کا جغرافیہ ہی نہیں تاریخ بھی آپ سے مخفی نہیں۔سیاحت،علم ،
ادب، صحافت، سائنس، ٹیکنالوجی، تاریخ، جغرافیہ کون سا موضوع ہے جس پہ آپ نے
تحقیقی مضامین نہیں لکھے۔ستاون برس باقاعدگی سے ڈائری لکھی جو بیک وقت ذاتی
بھی ہے، قومی بھی اور بین الاقوامی حالات و واقعات بھی روزانہ اس میں درج
ہوتے رہے۔ ڈائری کیا ہے، ہر صفحہ ایک کالم ہے، ایک مضمون ہے۔چھ زندہ تواریخ
،چار زندہ و جاوید تصانیف جو اسم با مسمیٰ ہیں: کلمات جلیلہ، زندہ باد،
پائندہ باد، تابندہ باد(زیر طبع)اور دیگر بے شمار کام جس کی تحسین پچاس کے
لگ بھگ چھوٹے بڑے ایوارڈز کی صورت میں کی گئی۔1967ءمیں آپ کو سائنسی تحقیقی
کام پر ” نشان سپاس“ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے دور میں ملا تھا۔1971ءمیں
”تذکرہ جنگ آزادی کشمیر“ پر حکومت آزاد کشمیر نے ” پہلا “ ایوارڈ دیا۔
امریکہ کی نارتھ کیرولینا سٹیٹ کی ”ورلڈ بک 1997ئ“ میں آپ کو ” مین آف دی
ایئر“ کی فہرست میں شمار کیا ۔آزاد کشمیر سے صدارتی ایوارڈ اور آزاد کشمیر
گورنمنٹ سے 24اکتوبر2007ءکو رئیس الاحرار ایوارڈ ‘ گولڈ میڈل اور ایک لاکھ
روپے نقد ملے ہیں ۔ مختلف علمی ‘ادبی ‘سائنسی ایسوسی ایشنز اور تنظیموں سے
بھی وابستہ رہے۔ برٹش لائبریری لنڈن اور لائبریری آف کانگرس واشنگٹن نے
1988ئ‘1989ءمیں بالترتیب آپ کے انٹرویوز ریکارڈ کر کے اپنے ہاں کے
افروایشین سٹڈیز کے شعبہ میں محفوظ کیے ہیں ۔
آپ کا شمار آزاد کشمیر کے سابق صدر اور وزیر اعظم سردار عبد القیوم خان
مرحوم کے دیرینہ قریبی دوستوں میں ہوتا تھا۔آپ جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے
بانی رہنما مولانا سید مظفر حسین ندوی کی سب سے چھوٹے بھائی تھے۔گلشن آباد
اڈیالہ روڈ راولپنڈی کی گلی نمبر پچاس میں ایک سو سینتالین نمبر کامکان،
گھر نہیں، جدید طرز کی حویلی ہے جس کا دس کمروں پہ مشتمل دوسرا فلورسید
بشیر حسین جعفری کی نصف صدی سے زائد کی شبانہ روز علمی و تحقیقی مشقت کے
گراں قدر سرمائے سے بھرا ہے جن میں ان کی کتب، قلمی مسودے و نسخے، اخبارات،
رسائل ، مضامین ، خطوط،تصاویر، تراشے کئی ایک موضوعات پہ مشتمل
آرکائیوتواریخ اور خدا جانے کیا کیا کچھ موجود ہے۔اسلام آباد سمیت آزاد
کشمیر کے کئی شہروں میں بارہا اس منفرد کام کی نمائش ہو چکی ہے۔گزشتہ برس
حکومت آزاد کشمیر نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے جعفری صاحب کا یہ سارا اثاثہ
بھاری قیمت پر خرید کر مرکزی لائبریری(خورشید نیشنل لائبریری مظفر آباد)
میں رکھنے اور سید بشیر حسین جعفری کے نام سے ایک گوشہ مختص کرنے کا فیصلہ
کیاجو مستحسن اقدام ہے۔
جعفری صاحب نے اپنی حیات کا نصف سے زیادہ عرصہ لائبریریوں اور کتب خانوں
میں علمی پیاس بجھاتے ہوئے گزارا۔ انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا ‘ انسائیکلو
پیڈیا امریکانا ‘ انسائیکلو پیڈیا ریلیجن اینڈ ایتھکس ‘ انسائیکلو پیڈیا
سوشل سائنسز‘ انسائیکلو پیڈیا سائنس اینڈ ٹیکنالوجی نیز ترقی یافتہ دنیا سے
شائع ہونے والے تحقیقی سائنسی جرائدسبھی کچھ زیر مطالعہ رہا۔پچاس برس تک
ملک کے تقریباً سبھی اردو ‘ انگریزی ‘قومی روز ناموں ‘ ڈائجسٹوں ہفتہ روزوں
اور ماہناموں میں آپ کی تحریریں شائع ہوتی رہی ۔ کمال یہ کہ جتنا لکھا،
شائع ہوا ۔
۷۴۹۱ میں میں اسلامیہ ہائی سکول پونچھ شہر میں نویں کلاس کے طالب علم تھے۔
موسم گرما کی تعطیلات میں اپنے گاو ¿ں واپس آئے تو تحریکِ آزادی ¿ کشمیر
زوروں پر تھی، پونچھ کی تحصیل سدھنوتی اور باغ کے لوگ اس تحریک کے روح رواں
تھے۔ ۳۲ اگست ۷۴۹۱ءکو نیلا بٹ میں جو عوامی جلسہ ہواتوجعفری صاحب اپنے بڑے
بھائی سید مظفر حسین ندوی اور دوسروں کے ساتھ سردار محمد عبدالقیوم خان کی
قیادت میں تحصیل ہیڈ کوارٹر باغ کی طرف لانگ مارچ کے جلوس میں شامل تھے۔ ۶۲
اگست کو ہڈا باڑی(باغ) میں جلسہ گاہ پر ڈوگرہ فوج کے میجر کھجور سنگھ اور
میجسٹریٹ موتی رام کی ہدایت پر جب گولیاں برسائی گئیں، تو آپ وہاں موجود
تھے۔ بعد ازاں آزاد کشمیر فورسز کے کیمپ ہاڑی گہل میں مختصر فوجی تربیت
حاصل کر کے تھرڈ باغ بٹالین میں اوڑی محاذ پر ایک مجاہد ، اور سپاہی کے طور
پرجہاد آزادی میں بھر پور حصہ لیا۔آپ تا دم آخریں کشمیر اور آزادی کشمیر کے
متعدد پہلو ¶ں پر لکھتے رہے ۔
ایک ملاقات میں انھوں نے بتا یا کہ جب ۶۱ دسمبر ۱۷۹۱ءکو ڈھاکہ کے پلٹن
میدان میں انڈین جنرل جگجیت سنگھ اروڑہ کے سامنے پاک آرمی کے جنرل اے کے
نیازی نے ہتھیار ڈالے، نوے ہزار فوجی اور سول جنگی قیدی بنا دیے گئے اور
انڈیا کی وزیرِ اعظم مسز اندرا گاندھی نے اپنی نشری تقریر میں فخریہ انداز
میں کہا:”آج ہم نے دو قومی نظریہ....نظریہ ¿ پاکستان کو بحیرہ ¿ بنگال میں
ڈبو دیا ہے۔“ ان الفاظ نے میرے دل و دماغ پر ہتھوڑے برسائے ، میں زاروزار
رونے لگا۔پھر جب ۴۷۹۱ءمیں جب انڈیا نے اپنے پہلے ایٹم بم کا دھماکہ کیا تو
میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ اب پاکستان کا کیا بنے گا؟ کہیں ہم کشمیر لیتے
لیتے ہم وطن عزیز پاکستان سے بھی ہاتھ نہ دھولیں۔ مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں
کی آزادی کی جنگ ہم ۸۴۹۱ءمیں ہار گئے۔ ستمبر ۵۶۹۱ءمیں اپریشن جبرالٹر کے
باوجود ہم تہی دامن رہے۔ ۱۷۹۱ءکی جنگ میں بھی انڈیا نے کشمیر کے اندر کچھ
علاقے ہم سے چھین لےے۔ حد متارکہ جنگ Cease fire lineکا نام بدل کر لائن آف
کنٹرول ہو گیا۔ شملہ معاہدہ ہمیں ڈبو گیا۔۵۸۔ ۴۸۹۱ءسے سیاچن کی جنگ اور
۸۹۹۱ءمیں کارگل اور بٹالکس (ٹائیگر ہل) کی جنگ کی شرمندگی، جانی نقصان میرے
ذہن پر برابر بوجھ چلا آرہا تھالیکن ۸۲ اورپھر ۰۳ مئی ۸۹۹۱ءکو پاکستان دنیا
کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا تو دل اور ذہن پر ”ٹھنڈ“ پڑ گئی۔ مئی تا اگست
۰۷۹۱ ءمیں ” تذکرہ جنگ آزادی کشمیر“ لکھ رہے تھے تو آزاد کشمیرکا بھمبر سے
گریز تک تفصیلی دورہ کیا،جنگ آزادی میں شریک افراد سے ملاقاتیں کیں اور
حالات معلوم کےے، یہ سب ان کے”آر کائیوز“ کا حصہ ہیں۔
ایک ہفتہ قبل میں ملنے ان کے گھر گیا۔ضعیفی اور کمزوری کے علاوہ کوئی ایسی
علامت دکھائی نہیں دی کہ اب وہ چند روز کے مہمان ہیں۔میں نے باتوں باتوں
میں کہا ” میری چھوٹی بیٹی آٹھویں جماعت کی طالبہ ہے،اس نے فارسی کے چند
اشعار یاد کر لیے ہیں تو خود کو ”طرم خان“ سمجھتی ہے۔“مسکرائے اور بولے
”میں اسے مختلف موضوعات پر فارسی کے سو اشعار لکھ کر دوں گا ، پھر آپ اسے
رومی کہا کریں گے۔“ ا س گفتگو کے بعدابھی میں واپس گھر پہنچا ہی تھا کہ ان
کا فون آگیا”مجھے آپ کو یہ بتانا تھا کہ آ پ کی بچی کے لیے میں نے اشعار
لکھنے کا کام شروع کر دیا ہے ۔دو چار روز تک آپ کو دے دوں گا۔“مجھے اندازہ
نہیں تھا کہ اس معمولی بات کو وہ اتنی اہمیت دیںگے۔ اٹھاسی برس کی عمر میں
بھی رہنمائی و حوصلہ افزائی کا جذبہ ماند نہیں پڑا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے،میرے خالہ زاد بھائی سید مسعود گردیزی(نمائندہ نوائے
وقت اور وقت نیوزآزاد کشمیر) اورمحترم سید سلیم گردیزی(ادیب ، مصنف،ایڈیشنل
سیکرٹری حکومت آزاد کشمیر )جس زمانے میں ”پیاسا کوا“اور ”اتفاق میں برکت
ہے“ رٹ کر لکھا کرتے تھے، بشیر حسین جعفری صاحب نے اپنے ماہنامہ” بصیرت“
میں ان کی تصاویر شائع کیں ۔نیچے لکھا تھا”نوجوان ادیب“۔جعفری صاحب کی اسی
حوصلہ افزائی کے باعث مسعود صاحب اچھے صحافی اور سید سلیم گردیزی نہ صرف
ادیب و مصنف بنے بلکہ سیاست اور پھر سول سروس میں بھی خوب نام کمایا۔
آخری ملاقات میںجعفری صاحب نے مقبوضہ جموں کے ایک سکھ کمشنرکے کچھ روز پہلے
لکھے چند خطوط مجھے پڑھنے کو دیے۔کمشنر صاحب کانام مجھے یاد نہیں رہا۔وہ
کبھی جعفری صاحب سے بالمشافہ بھی نہیں ملے، خطہ و کتابت دیرینہ تھی۔ معلوم
ہوا کہ جموں میں رہائش پذیر یہ سکھ گھرانہ تقسیم سے قبل سیسر دھیرکوٹ میں
رہتا تھا ۔کمشنر صاحب کے والد جعفری صاحب کے بچپن کے دوست اور کلاس فیلو
تھے۔وہ چل بسے تھے ، اب ان کے فرزند کمشنر صاحب اس تعلق کو آگے بڑھا رہے
تھے۔ انھوں نے بہت محبت، پیار اور انتہائی عقیدت سے یہ خطوط لکھے ہیں۔تازہ
خط میں لکھا تھا”جعفری صاحب!میری چھوٹی بیٹی آپ کے خطوط نہ صرف بار بار
پڑھتی ہے بلکہ ساتھ لے کر بھی سوتی ہے۔ہم ایک مدت سے آپ سے التجا کر رہے
ہیں کہ آپ جموں آئیں۔اب آ بھی جائیں۔پتا ہے،ہم سب گھر والوں نے یہ طے کیا
ہے کہ آپ جونہی کنٹرول لائن عبور کر کے ادھرآئیں گے ، اس گھرانے کے سب
چھوٹے بڑوں کو اپنے استقبال کے لیے وہاں پائیں گے۔“ایسے تھے جعفری صاحب۔
دس بارہ روز پہلے انھوں نے فون کیا۔بولے ” آپ نے میری جو ڈائریکٹری بنائی
تھی، اس کے ابتدائی صفحے سے معلومات لے کرمیری cv بنا دیجیے گا۔“
”cv !!!....آپ کی!!!....اور وہ بھی ایک صفحے کی!!!!“سچ میں انھوں نے مبہوت
ہی تو کر دیا تھا۔میرا دھیان ان کے وزٹنگ کارڈ کی طرف گیاجو ۷۹۹۱ءمیں پہلی
بالمشافہ ملاقات پر انھوں نے مجھے دیا تھا۔دو فولڈ کے وزٹنگ کارڈ کے چاروں
صفحات پر ان کا تعارف درج تھا ۔
دو روز بعد میں cv لے کر ان کے گھر حاضر ہو گیا۔ حسب روایت بہت محبت سے
ملے،خوب تواضع کی۔کہنے لگے” cv تو ایک بہانہ ہے۔ آج آپ سے بہت ساری باتیں
کرنی ہیں۔میں نے دنیا دیکھی۔بہت کچھ پڑھا،لکھا،بولا۔اٹھاسی برس کا ہو گیا
ہوں ۔میری زندگی میں کامیابیاں بھی ،بلکہ زیادہ ہیں اور ناکامیاں بھی۔ہمیشہ
کی طرح آج بھی میں ان کا احاطہ کرتاہوں۔روزانہ کرتا ہوں۔عمر کے اس حصے میں
پہنچ چکا ہوں بقول غالب:
ہوچکیں غالب بلائیں سب تمام
ایک مرگِ ناگہانی اور ہے
دو بائی پاس ہو چکے ہیں۔میں نے اپنی قبر کے لیے جگہ بھی دیکھ لی ہے اور اس
کی ادائیگی بھی کر آیا ہوں۔دو ایک روز میں جا کر کاغذی کارروائی کرنی
ہے۔فارغ بیٹھنا میری فطرت میں نہیں ہے۔چاہتا ہوں کہ ”زندہ باد“ اور پائندہ
باد“ کے بعد اب ”تانندہ باد“ کو بھی کتابی صورت دے دوں جو تین سو صفحات کی
ہو۔یہ میرے ان کالموں پر مشتمل ہو گی جو مختلف موضوعات پر میں نے لکھے
ہیں۔مسودہ کمپوز ہو چکا ہے، بس ایک نظر دیکھنا ہے، دو صورتیں ہیں ، ایک یہ
کہ اسے باقاعدہ کتابی شکل میں شائع کیا جائے،دوسری یہ کہ اس کی پچاس کاپیاں
بنوا کر محفوظ کر دوں، آپ کیا کہتے ہیں؟ “
”زندہ باد “اور ”پائندہ باد“ کی اشاعت میں سرورق سمیت دیگر تیکنیکی کاموں
کی انھوںنے مجھے سعادت بخشی تھی۔ میری رائے یہی تھی کہ”تابندہ باد“ یکجا ہو
کر محفوظ ضرور ہو جانی چاہیے ۔ بولے”میں زیادہ خرچہ نہیں کرنا چاہتا، آپ
پچاس کاپیاں بنوانے کا بندو بست کریں۔پچاس ہزار تک خرچ کر کے میں ”تابندہ
باد“ محفوظ کر لیتا ہوں۔“
میں نے کہا”جی ٹھیک!آپ مسودہ مجھے دیجیے گا، میں اس کی پچاس کاپیاں بنوا
دوں گا۔“
گھرپہنچا تو فون آگیا ہنستے ہوئے بولے ”پیر تو میں بھی ہوں، اولیاءکی اولاد
ہوں۔میری کرامت سنیے،ابھی ابھی چکسواری سے ایک صاحب نے فون کیا تھا،ان سے”
تابندہ باد“ کا تذکرہ کیا تو بولے اشاعت کا سارا خرچہ میرے ذمے۔میں نے کہا،
مجھے شائع نہیں کرنی بس کچھ کاپیاں محفوظ کرنی ہیں‘ مگر وہ بضد ہیں کہ ہم
اس کی اشاعت کا ذمہ لیتے ہیں۔“
اس روزکئی اور باتیںہوئیں۔اپنے عقائد اور مسلک کے بارے بتایا، اولاد سے
متعلق بات چیت کی۔یہ بھی کہا میرا گھر بین المسالک ہم آہنگی کا نمونہ ہے۔ہم
میاں بیوں سنی العقیدہ ہیں ،سبھی بچے شیعہ ہیں۔مذہب بارے بتاؤں،اسلام سچا
خدائی دین ہے،اس سے اچھا کوئی اور مذہب ہوہی سکتا۔نبی کریم صلی اﷲ علیہ
وسلم اگر اس دنیا میں تشریف نہ لاتے تو دنیا آج تک جہالت کے اندھیروں میں
ہی بھٹک رہی ہوتی۔مگر افسوس!اسلام کو یہود و ہنود نے کم،مسلمانوں نے زیادہ
نقصان پہنچایا۔یہ امن اور محبت کا مذہب ہے مگر دین کا صحیح ادراک نہ ہونے
کی وجہ سے وصال نبوی کے فوراً بعد سے باہمی کشت و خون کا جو سلسلہ چلا تھا،
اب تک تھم نہیں سکا۔مرنے والا بھی مسلمان اور مارنے والا بھی۔دین بارے
مسلمانوں کی سمجھ کا یہ پہلو میرے لیے ہمیشہ سے ہی تکلیف دہ رہا ہے۔اسلام
تو وضو کا فالتو پانی بہانے سے منع کرتا ہے، چہ جائیکہ خون بہایا جائے اور
وہ بھی اپنے مسلمان بھائی کا۔
اپنے علمی ورثے کے بارے میں بتایا کہ ویب سائٹ kashmirvista.com .پرمیرا
تمام ہی کام اپ لوڈ ہو چکا ہے۔آج ہی ویب سائٹ کی سالانہ فیس ادا کی ہے۔اپنی
اولاد سے کہا ہے کہ اس کی سالانہ فیس ادا کرتے رہنا تاکہ لوگ اس سے استفادہ
کرتے رہیں۔
سید بشیر حسین جعفری تادم آخریںبلا تفریق رنگ و نسل ،مذہب و عقیدہ،
محبت،علم و آگہی کے چراغ فروزاں کرتے تہہ خاک جا سوئے۔دعا ہے اﷲ تعالیٰ ان
کی بشری لغزشوں کو معاف فرمائے، ان کے ساتھ آسانی کا معاملہ کرے اور انھیں
ان کی ”امی جی“ سے ملا دے جنہیں وہ جنت کے پتے پر خط لکھا کرتے تھے۔ |
|