میراوطن وہی ہے
(nazish huma qasmi, mumbai)
26جنوری بروز منگل ہندوستان کا 67 واں یوم جمہوریہ بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔ جگہ جگہ قومی ترنگے لہرائے گئے، ملک کے چپہ چپہ میں علامہ اقبال کا تخلیق کردہ ترانہ ’’سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا‘‘کی گونج سنائی دے رہی تھی، دیش بھکتی اور وطن سے محبت کے نغمے گنگنائے جارہے تھے، سرفروشان آزادی کو خراج عقیدت پیش کیاگیاہے۔ لیکن اس خوشی کے حسین لمحہ میں ایک انجانا سا خوف بھی ہمارے دلوں میں شامل تھا، ایک ایسا خوف جسے محسوس کیاجاسکتا ہے ،لیکن سپرد قرطاس نہیں کیا جاسکتا ہے۔ دسمبر 2015کے اواخر میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بڑے ہی جوش وخروش سے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں فخر ہے ہندوستانی مسلمانوں پر جنہوں نے دنیا میں پھیلی ممنوعہ تنظیموں کویکسرمستردکردیا ہے،داعش کے قافلے میں ہر ملک کے لوگ شامل ہورہے ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے انہیں بھی راندۂ درگاہ کردیا ہے۔ لیکن پھر اچانک ایک ہی مہینے میں ایسا کیا ہوا کہ یہ کہہ دیا گیا کہ اب ہندوستان بھی دہشت گردتنظیموں سے محفوظ نہیں ہے۔اور آنافانا کئی مسلم نوجوانوں کی ہنستی مسکراتی زندگی جیل کی سلاخوں میں دب کر رہ گئی۔پکڑ دھکڑ کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا، القاعدہ، داعش اور دیگر ممنوعہ تنظیموں سے تاڑ جڑنے لگے،معصوم بچوں کی کلکاریاں خاموشی کے دامن میں سمیٹ دی گئی ہے، جس آنگن میں خوشیوں کے ترانے گائے جاتے تھے اب وہاں غم کا پہرہ ہے۔تمام تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اور علمائے دین کو ممنوعہ تنظیم سے تعلق رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر جرم ثابت ہوگا یا نہیں یہ تو بعد کی بات ہے۔ یا پھر ماضی کی طرح یہ بھی دس دس پندرہ پندرہ سال زنداں کی تاریکیوں میں گزارنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے باعزت بری کردیئے جائیں گے۔ لیکن پکڑ دھکڑ کے اس ماحول نے ایک مرتبہ پھر پورے ہندوستان کے مسلمانوں میں خوف کی لہر پیدا کردی ہے… ہر کوئی اپنے آپ کو قصور وار سمجھنے لگا ہے…مسلمانوں کو برادران وطن کی نظر میں مشتبہ بنانے کی بھر پور کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کی غلط فہمیوں کی زد میں آکر برادران وطن کے اندر یہ تعصب جاگ گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ |
|
26جنوری بروز منگل ہندوستان کا 67 واں یوم
جمہوریہ بڑے ہی تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا۔ جگہ جگہ قومی ترنگے لہرائے
گئے، ملک کے چپہ چپہ میں علامہ اقبال کا تخلیق کردہ ترانہ ’’سارے جہاں سے
اچھا ہندوستان ہمارا‘‘کی گونج سنائی دے رہی تھی، دیش بھکتی اور وطن سے محبت
کے نغمے گنگنائے جارہے تھے، سرفروشان آزادی کو خراج عقیدت پیش کیاگیاہے۔
لیکن اس خوشی کے حسین لمحہ میں ایک انجانا سا خوف بھی ہمارے دلوں میں شامل
تھا، ایک ایسا خوف جسے محسوس کیاجاسکتا ہے ،لیکن سپرد قرطاس نہیں کیا
جاسکتا ہے۔ دسمبر 2015کے اواخر میں وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے بڑے ہی جوش
وخروش سے اس بات کا دعویٰ کیا تھا کہ ہمیں فخر ہے ہندوستانی مسلمانوں پر
جنہوں نے دنیا میں پھیلی ممنوعہ تنظیموں کویکسرمستردکردیا ہے،داعش کے قافلے
میں ہر ملک کے لوگ شامل ہورہے ہیں لیکن ہندوستانی مسلمانوں نے انہیں بھی
راندۂ درگاہ کردیا ہے۔ لیکن پھر اچانک ایک ہی مہینے میں ایسا کیا ہوا کہ
یہ کہہ دیا گیا کہ اب ہندوستان بھی دہشت گردتنظیموں سے محفوظ نہیں ہے۔اور
آنافانا کئی مسلم نوجوانوں کی ہنستی مسکراتی زندگی جیل کی سلاخوں میں دب
کر رہ گئی۔پکڑ دھکڑ کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا، القاعدہ، داعش اور دیگر
ممنوعہ تنظیموں سے تاڑ جڑنے لگے،معصوم بچوں کی کلکاریاں خاموشی کے دامن میں
سمیٹ دی گئی ہے، جس آنگن میں خوشیوں کے ترانے گائے جاتے تھے اب وہاں غم کا
پہرہ ہے۔تمام تعلیم یافتہ مسلم نوجوانوں اور علمائے دین کو ممنوعہ تنظیم سے
تعلق رکھنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان پر جرم ثابت ہوگا یا نہیں یہ
تو بعد کی بات ہے۔ یا پھر ماضی کی طرح یہ بھی دس دس پندرہ پندرہ سال زنداں
کی تاریکیوں میں گزارنے کے بعد جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے باعزت بری
کردیئے جائیں گے۔ لیکن پکڑ دھکڑ کے اس ماحول نے ایک مرتبہ پھر پورے
ہندوستان کے مسلمانوں میں خوف کی لہر پیدا کردی ہے… ہر کوئی اپنے آپ کو
قصور وار سمجھنے لگا ہے…مسلمانوں کو برادران وطن کی نظر میں مشتبہ بنانے کی
بھر پور کوشش کی گئی ہے اور میڈیا کی غلط فہمیوں کی زد میں آکر برادران
وطن کے اندر یہ تعصب جاگ گیا ہے کہ ہندوستانی مسلمان دہشت گرد ہیں ۔ مسلمان
تنہائی میں بھی خوف کا شکار ہے اور بھیڑ میں بھی ایک انجانے خوف میں مبتلا
ہے کہ کب کس پر اسپیشل برانچ کا چھاپہ پڑجائے کچھ نہیں کہا جاسکتا ہے۔ مسلم
نوجوانوں کی بے جا گرفتاریوں سے سیدھے سادے برادران وطن کو یہ باور کرانے
کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہمارا یہ لہلہاتا چمن محفوظ نہیں ہے، انہیں اب دہشت
گردوں سے خطرہ لاحق ہے اور یہ کوئی اور نہیں بلکہ اسی ملک کے باسی ہیں جو
ممنوعہ تنظیموں سے تعلقات استوار کرکے ملک کی سلامتی کو خطرہ پہنچانے کے در
پے ہیں۔نتیجہ یہ ہوا کہ اب ایک عام مسلمان بھی اپنے ہندو پڑوسی کی نظر میں
مشکوک ہوگیا ہے۔ملک کے حالات اس درجہ دگرگوں ہوگئے کہ مسلمانوں کو اپنی
وفاداری ثابت کرنے کیلئے اخبارات و رسائل کا سہارا لینا پڑ رہا ہے۔اب سوال
ان لوگوں سے ہے جوکل تک یہ کہہ رہے تھے کہ مودی سرکارمیں مسلمانوں کی
گرفتاریوں کے واقعات میں کمی آئی ہے،اس پرشادیانے بھی بجارہے تھے اورحکومت
کی چاپلوسی بھی ۔کیاان کی آنکھیں ابھی بھی بندرہیں گی۔
یہ باور کرانے کی کوشش کرنی پڑرہی ہے کہ ہم مسلمان ہندوستان کے تئیں مخلص
ہیں لیکن وہ لوگ جو آزادی سے قبل بھی اس گنگاجمنی تہذیب کے دشمن تھے اور
آج بھی ہیں ان سے کوئی سرٹیفیکٹ نہیں مانگا جاتا بلکہ وہ سبھی کچھ کرتے
ہوئے بھی وفادارہیں۔ جب مسلمان انگریزوں سے لڑ رہے تھے تو یہی وہ طبقہ
انگریزوں کو ہاف چڈی پہن کرسلامی پیش کررہا تھا اور جب آج مسلمان جمہوریت
کی بقاء کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے پر تلا ہے تو پھر یہی طبقہ اس
چمنستان کو کبھی گجرات،مظفرنگربنانے کی دھمکی دینے کے باوجود بھی وفادار
ہے۔ ہم ہی وہ مسلم قوم ہیں جنہوں نے اس ملک کی آزادی کیلئے اپنا خون پسینہ
ایک کردیا تھا، کبھی نواب سراج الدولہ کی شکل میں انگریز سے نبرد آزما
ہوئے تو کبھی ٹیپو سلطان کی صورت میں انگریزوں کیلئے سد سکندری بن کر حائل
ہوئے، جنگ پلاسی سے لیکر مالٹا کی تاریک کوٹھری کو ہم نے اس ملک کی آزادی
کی خاطر لالہ زار کیا ہے اور آزادی کے بعد بھی کبھی ویرعبدالحمید بنے تو
کبھی عبدالکلام بن کرہم نے اس ملک کا نام روشن کیاہے۔جب جب مادر وطن کو
ضرورت پڑی ہم نے ہمیشہ خود کو پہلے پیش کیا ہے، لیکن آج ہم سے وہ لوگ
وفاداری کاسرٹیفکیٹس مانگ رہے ہیں جن کا جنگ آزادی میں کوئی کردارنہیں رہا
ہے۔ اس کے باوجود ہندوستانی مسلمانوں نے جس جوش و خروش کے ساتھ یوم جمہوریہ
منایا ہے یہ قابل دیدرہاہے، سوشل میڈیا سے لیکرپرنٹ میڈیا نے بھی مسلمانوں
کی حب الوطنی کے عمل کو سراہا ہے اور ہونا بھی یہی چاہئے تھاکیونکہ یہ دیش
ہمارا ہے ہم اس ملک کے سپوت ہیں ہم نے اپنے خون جگرسے اس گلشن کی آبیاری
کی ہے پھر کیوں ہم چنددریدہ دہن صفت لوگوں کی وجہ سے اپنے ملک کے یوم
جمہوریہ اور یوم آزادی کو منانا چھوڑ دیں۔ جس طرح ماضی میں ہمارے اسلاف نے
اس چمن کو سیراب کیاہے ہم بھی اسی طرح اس کی حفاظت کرنے کو تیار ہیں اپنے
اکابرین کے اس ورثہ کوملک مخالف عناصر کے ہاتھوں برباد نہیں ہونے دیں گے۔
|
|