سندھ اسمبلی کے احاطے کے بے دخل مکین

گزشتہ دنوں سندھ اسمبلی بلڈنگ کے احاطے کے اندر رہائش پذیر 10 خاندانوں کو بے دخل کر کے انہیں سرد موسم میں کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور کردیا گیا۔ ان کے کچے پکے مکان جو گزشتہ نصف دہائی سے ان کے سرچھپانے کا سامان تھے چھین لیے گئے۔ مکانوں کو مسمار کرنے کی وجہ ناجائز اور غیر قانونی ہونے کے علاوہ یہ سامنے آئی کہ اس جگہ پر اراکین سندھ اسمبلی کے لیے پارکنگ لاٹ تعمیر کی جائے گی۔ سندھ اسمبلی بلڈنگ کا احاطہ کافی کشادہ ہے ، یہاں ایک جانب کچھ مکانات بنے ہوئے ہیں مکانوں کو دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ مکانات حکومت کی جانب سے باقاعدہ بنا کر نہیں دئے گئے بلکہ کسی زمانے میں جب دہشت گردی کے لفظ سے اہلِ کراچی نا آشنا تھے ، کراچی امن و سکون کا گہوارہ تھا، اسمبلی کے ملازمین کو اجاذت دے دی گئی کہ وہ اپنی رہائش بلڈنگ کے احاطے کے ایک جانب اختیار کرلیں اور ایسا ہی ہوا، ایک ایک کرکے ملازمین کی تعداد میں اضافہ ہوا اور وہاں مکانات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔ یہ بات یقینی ہے کہ ملازمین نے اسمبلی کے احاطے کے اندر بلااجازت رہائش اختیار نہیں کی بلکہ متعلقہ حکام کی مرضی شامل حال رہی ۔سرکاری اداروں میں یہ عام سے بات ہے کہ وہاں کے نچلے درجے کے ملازمین جن میں چوکیدار، خاکروپ، دفتری وغیرہ شامل ہوتے ہیں ، اس ادارے کے اسی بلڈنگ میں رہائش اختیار کرلیتے ہیں۔ یہاں بھی یہی کچھ ہوا ۔ نچلے درجے کے چند ملازمین نے یہاں رہائش اختیار کر لی۔

میرا تجربہ ہے کیوں کہ میر ی ملازمت کالج کی تھی ، اکثر کالجوں اور اسکولوں میں ملازم چوکیدار ، خاکروپ یا دفتری اسی بلڈنگ کے اندر رہائش اختیار کرلیتے ہیں۔ جگہ کی عام طور پر کمی نہیں ہوتی ، وہ متعلقہ افسران کی اجازت سے عمارت کے اندر ہی اپنا ٹھکانا بنا لیتے ہیں اور اپنی فیمیلی کے ساتھ رہائش پذیر ہوتے ہیں جہاں پر انہیں ہر چیز مفت میں مہیا ہوتی ہے یعنی، بجلی مفت، پانی مفت، گیس مفت، صفائی ستھرائی کا کوئی مسئلہ نہیں، ایک اعتبار سے ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی بہت آرام سے بسر ہوتی ہے۔ ایک کالج میں تو یہ تک تھا کہ وہاں کا چوکیدار جو کالج میں رہائش پذیر تھا صبح کے اوقات میں اسکول وین چلا یا کرتا تھا جو کہ اس کی اپنی تھی، چنانچہ رات میں وہ اسکول وین بڑے اطمینان سے کالج میں کھڑی کیا کرتا تھا۔ اسمبلی کے احاطے میں قائم خود ساختہ مکانات یقینا غیر قانونی ہیں۔ اگر اسمبلی کے ملازمین کی رہائش کے لیے کوئی باقاعدہ منصوبہ ہوتا تو مکانات تمام بنیادی سہولتوں اور طریقہ کار کے مطابق تعمیر کیے جاتے لیکن یہاں تو جس کسی کا جی چاہا اس نے اپنی مرضی سے مکان بنا لیا اور رہائش اختیار کر لی ، وقت کے ساتھ ساتھ وہ ا نکروچمنٹ بھی کرتا رہا۔ اصولی طور پر تو یہ غلط تھا۔ لیکن جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ رہائش کا یہ سلسلہ جب شروع ہواتھااس وقت کے حالات کچھ اور تھے آج حالات بہت مختلف ہیں۔ان رہائشیوں کو یہاں سے بے دخل کیا جانا تو درست لگتا ہے لیکن انہیں نوٹسز دے کر ان کے مکانوں کو مٹی کا ڈھیر بنا دینا کسی بھی طرح مناسب اور جائز نہیں۔ یہ تمام رہائشی اپنی مرضی سے یہاں نہیں رہ رہے بلکہ متعلقہ حکام کی آشیر باد انہیں حاصل رہی ہے تب ہی تو انہوں نے یہ جرت کی کہ اسمبلی جیسی عمارت کے اندر اپنا گھر بنا لیا۔ آج تو کوئی کسی سرکاری عمارت میں داخل نہیں ہوسکتا ۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ یہاں کے مکینوں کو بے دخل ضرور کرے لیکن انہیں متبادل جگہ فراہم کردے۔ یہ متبادل جگہ کراچی کے کسی بھی حصہ میں ہو سکتی ہے۔ میں نے جب اس مسئلہ کے بارے میں معلومات کیں تو یہ بھی معلوم ہوا کہ یہاں ایسے خاندان بھی رہائش پذیر ہیں کہ جو اپنی مدت ملازمت پوری ہوجانے کے بعد ریٹائر ہوگئے ، کچھ اﷲ کو بھی پیارے بھی ہوگے لیکن ان کے بچے جو سندھ اسمبلی کے ملازم بھی نہیں یہاں رہائش رکھتے ہیں۔ کچھ ایسے خاندان ہیں کہ جن کے باپ دادا یہاں ملازم تھے انہوں نے کوشش کر کے اپنے بیٹوں یا پوتوں کو یہاں ملازم کرادیا اب وہ یہاں رہنے کا حق رکھتے ہیں۔ اس جگہ پارکنگ لاٹ بنائی جائے یا نہیں ہر دو صورتوں میں یہاں رہائش غیر قانونی ہے۔ خاص طور پر اسمبلی کی سیکیوریٹی کو دیکھتے ہوئے، دہشت گردی کی صورت حال کو دیکھتے ہوئے ، ان مکینوں کو اس بنیاد پر مستقل رہنے کا حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ گزشتہ چار دیہائیوں یا اس سے بھی زیادہ عرصے سے یہاں رہائش اختیار کیے ہوئے ہیں۔ غلط کام غلط ہی رہے گا خواہ وہ پچاس سال قبل ہوا ہو یا کوئی آج غلط کام کرے۔ البتہ یہاں کے مکینوں کا یہ حق بنتا ہے کہ انہیں کوئی متبادل جگہ فراہم کرنے سے قبل خاندانوں کو ، معصوم بچوں کو سردی کے موسم میں کھلے آسمان تلے نہ کیا جائے۔ یہ انسانیت کے خلاف ہے، قانون بھی اس کی اجاذت نہیں دیتا، یہ وہ لوگ ہیں جو اسی ادارے میں خدمات انجام دے رہے ہیں ، ان میں کچھ ایسے بھی ہیں کہ جن کے باپ دادا نے اپنی پوری زندگی اسمبلی اور اسمبلی کے اراکین کی خدمات میں صرف کردی۔ ان میں سے بعض اب ریٹائر ڈ لائف گزار رہے ہوں گے انہیں اس طرح بے گھر کر دینا ان کی خدمات کا صلہ نہیں بلکہ ان کے ساتھ ان کے خاندان کے ساتھ زیادتی ہے۔ سندھ اسمبلی کے اراکین خاص طور پر اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر ، وزیر اعلیٰ اور وزراء کو چاہیے کہ وہ ان خاندانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتی کو فوری نوٹس لیں اور تمام خاندانوں کو متبادل جگہ فراہم کرنے سے قبل انہیں یہاں سے بے دخل نہ کیا جائے۔ یہ جگہ کراچی کے کسی بھی آباد علاقے میں دی جاسکتی ہے۔ حکومت وقت کے لیے ایسا کرنا کوئی بڑی بات نہیں۔ حکومت بہت آسانی سے تمام مکینوں کو متبادل رہائش دے سکتی ہے۔

سندھ اسمبلی کے احاطے کے اس حصہ پر جہاں یہ گھر بنے ہوئے ہیں جنہیں اب جزوی طور پر مسمار کردیا گیا ہے پر پارکنگ لاٹ تعمیر کرنے کا فیصلہ گزشتہ حکومت کے دور میں کیا گیا تھا ۔ ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر سید سردار احمد کاکہنا ہے کہ پارکنگ لاٹ بنانے کا منصوبہ چار پانچ سال پہلے کا ہے اور یہ کہ یہ کواٹر خالی کرانے کے لیے ہم نے ملازمین سے وعدہ کیاتھا کہ ہم انہیں متبادل رہائش فراہم کریں گے۔ اس پانچ پرانے منصوبے پر اب عمل درآمد ہونے جارہا ہے۔ موجودہ اسپیکر سندھ اسمبلی نے اس وعدے کو پورا کرنے کا ایک اور وعدہ کیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ متبادل جگہ فراہم کرنے سے قبل ان مکینوں کے کواٹروں کو مسمار کرنے کے احکامات کس نے جاری کیے ۔ متعلقہ حکام کے علم میں نہیں تھا کہ اگر انہیں اس بہیمانہ طریقے سے بے دخل کردیا گیا تو ایک نیامسئلہ کھڑا ہوجائے گا۔ جب اس طریقے سے بلاسوچے سمجھے اقدامات کیے جائیں گے تو لوگوں کو موقع ملے گا سیاست کرنے کا ، اپنی دکان چمکانے کا۔ان بے گھر خاندانوں کی داد رسی کرنا، ان کے خلاف متعلقہ حکام کی توجہ مبزول کرانا، چھوٹ چھوٹے بچے کھلے آسمان تلے زندگی گزار رہے ہیں، کھانے پینے کے مسائل ہیں ان میں اگر کچھ لوگوں نے تعاون کیا ، اور انہیں سہولت فراہم کی چاہے وہ ایک بس منگواکر جو فائیس اسٹار بس کی صورت میں تھی برا نہیں کیا۔ انسانیت کی خدمت کی ہے۔آغا سراج درانی جو اس وقت اسمبلی کے اسپیکر ہیں ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس واقعہ سنجیدگی کے ساتھ نوٹس لیں اور متاثرین کو اپنی پہلے فرست میں متبادل جگہ فراہم کی جائے۔
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1287158 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More