آہ۔۔۔۔انتظار حسین کی بستی۔۔؟

برصغیر پاک وہند کے ممتاز ادیب ،منفرد افسانہ نگار اور کالم نگار انتظار حسین اب ہمارے درمیان نہیں رہے طویل علالت کے بعد گزشتہ روز وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ان کی ادبی خدمات کئی عشروں پر میحط ہیں خصوصا افسانہ نگار میں انہوں نے جو اسلوب اپنایا اسے برصغیر کے نامور ادیبوں نے بھی سراہا انہوں نے اپنے کالموں میں مشرقی تہذیب و ثقافت اور روایات کی بات کی جاتی تھی عام گھروں کے کلچر اور رہن سہن کو وہ بڑے سیاق و سباق اور منظر نامے کے ساتھ بیان کیا کرتے تھے ان کے کالم ’’لاہور نامہ‘‘ نے ملک گیر شہرت حاصل کی ان کے کالم نگاری کے مداحوں کا حلقہ لامحدود تھا ۔۔۔ پاکستان اور بھارت کے علاوہ ان کے ناولوں اور کالموں کے تراجم غیر ملکی زبانوں میں بھی ہوئے حتی کہ کہ عالمی ادیبوں کی صف میں شمار کیا جاتا تھا انتظار حسین کی صحافتی اور ادبی خدمات بلاشبہ ایک لمبے عرصے تک یاد رکھی جائیں گی ۔۔۔۔ ۔تخلیق اور دانش میں ربط کی بحث بہت پرانی ہے تاہم کچھ رک کر سو چئے تو دانش کی عدم موجودگی میں تخلیق محض قافیہ پیمائی ہے ہنر محض حرفت کے درجے پر گر جاتا ہے ،دوسری طرف تخلیق سے عاری دانش مند بانجھ نرے لفظوں کا گورکھ دھندا ہے ،انتظار حسین کا لفظ اردو ادب سے آگے نکل کر گزشتہ صدی کے عالمی منظر نامے سے نکلنے والے کچھ بنیادی مباحث کا احاطہ کرتا ہے انتظار حسین کی مغفرت کے لئے دعا کا سرچشمہ کا یہ گہرا احساس ہے کہ تیسری دنیا کے اس غریب ملک میں رہتے ہوئے انتظار حسین نے سات دہا ئیوں تک ہمیں ادبی مکالمے کی صف میں زندہ رکھا ،میٹرو،لائڈز،شیزان،وائی ایم سی اے،پاک ٹی ہاؤس،ٹولنٹن اور ناصر باغ ۔۔۔اور ہاتھ بھر کے فاصلے پر کرشن نگر کی گلیاں ۔۔۔اس راستے کی کون کون سی اینٹ ہے جیسے انتظار حسین کے سجل پاؤں نصیب نہیں ہوئے ۔۔۔خاک کا اتنا چمک جانا ذرا دشوار تھا ۔۔۔یہاں کون سی عمارت ہے جسے انتظار حسین نے بیتے ہوئے لاہور کی تصویر بنا کے نہیں رکھ دیا ۔۔۔کوئی ٹھیلے والاایسا نہیں ،یہاں کوئی پان فروش ایسا نہیں جسے انتظار حسین نے محبت کی آنکھ سے نہ دیکھا ہو اور اسے ایک گزرتے ہوئے عہد کا جیتا جاگتا کردار نہ بنا دیا ہو کوئی 35برس پہلے انتظار حسین کا ناول ’’بستی‘‘ شائع ہوا تھا دو زمانوں کی سرحد پر کھڑے 1980ء کے پاکستان میں بحث کے یہی زاویے تھے وہ انتظار حسین نے اس مکالمے کو دستاویز کیا ،اردو ادب کے اساتذہ سے دریافت کیجئے تو وہ بتائیں گے کہ انتظار حسین نے ترقی پسند تحریک کے بعد افسانے کو ایک نیا لہجہ بخشا ،دوسری طرف سے آواز آئے گی کہ انتظار حسین نے با کمال ناول لکھے۔۔۔پاک ٹی ہاؤس کے شناوروں سے بات کریں تو ناصر کاظمی،شیخ صلاح الدین ،شاکر علی اور مظفر علی سید کے ساتھ انتظار حسین کی گفتگوؤں کے قصے سنائیں گے ۔۔۔اہل صحافت سے پوچھے تو وہ ’’لاہور نامہ‘‘ کے گن گاتے ہیں اگر درویش سے پوچھے تو وہ کہے گا کہ ایک تخلیق کا ر کے طور پر انتظار حسین کے کار نامے اپنی جگہ، ان کی سب سے بڑی دین یہ ہے کہ انہوں نے ادب کی آتما کے لئے سات دہائیوں تک لڑائی لڑی ہے تہذیب کی معدافعت کی ہے مکالمے کے آداب سکھائے ہیں ۔۔۔انتظار حسین وہ چھتار چھاؤں ہے جو صرف لاہور ہی نہیں برصغیر پاک وہند کی ہر اس آنگن پر سایہ فگن رہی ہے جہاں اردو بولی جاتی ہے۔۔۔۔گزشتہ صدی کی چوتھی دہائی میں ادب اور ثقافت کی بحث کی دلچسب راہوں سے گزر رہی ہے ۔۔۔ایک طرف ٹی ایس ایلیٹ تھے جو ادب میں روایت کے دھارے کو آگے بڑھا رہے تھے اور دوسرا زاویہ ترقی پسند دانش کا تھا جو نو آبادیاتی نظام ،طبقے اور سامراج کی اصلاحات میں اپنے نقطہ نظر کا دفاع کر رہے تھے ۔۔۔تکون کے تیسرے زاویے میں سارتر اور ان کے ہم خیال ادیب تھے جو فرد کی تنہائی کو عالمی رستا خیز کے تناظر میں رکھ کر دیکھ رہے تھے ان سب مکاتب فکر میں سچائی کا پہلو موجود تھا لیکن ہم عصر سچ کے کچھ حصوں سے تغافل بھی پایا جاتا تھا ،رویت کا اسکول ہم عصر دنیا میں موجود نا انصافی سے بے نیاز تھا ،حققیت پسندی کا مکتب نا انصافی کے پہلوؤں سے نظر چراتا تھا جو اشترا کی نظام میں موجود تھے ،تجرید اور استعارے کے فرزند فرد کی داخلی دنیا میں بھڑکتے آتش فشاں کی تصویر تو کھنچتے تھے مگر خارج میں موجود اس دباؤ سے انکار کرتے تھے جو فرد کی ذات میں بنتے بگڑتے نقوش پر اثر انداز ہوتا ہے ،حیرت اور افتخار کا درجہ ہے کہ ہمارے ادیب انتظار حسین نے1947ء میں ان سب مباحث کو سمجھا اور راستہ نکالا جہاں تخلیق اور فکر کی کشاکش میں فنکار سرخرو ہوتا ہے اور اجتماح آگے بڑھتا ہے ۔۔۔بہت برس پہلے ایک طالب علم کی کتاب پر دستخط کرتے ہوئے انتظار حسین نے میر کا ایک مصرح لکھا تھا ۔۔۔۔صناح ہیں سب خوار ،ازاں جملہ،ہوں میں بھی ۔۔۔۔۔۔ہمارے زمانے میں میر تقی میر کی خود داری نے انتظار حسین کے روپ کو درشن دیا۔۔۔۔بھکشو نے بدھ سے پوچھا ’’سپھل ہونے کی راہ کیا ہے ۔۔۔؟ بالک۔۔۔کامیابی لمحہ موجود کو معنی دنیا ہے ۔۔۔سوال کیا ۔۔۔معنی باہر سے آتا ہے ۔۔۔؟ تھوڑا تانل اور پھر جواب نلا ’’معنی کے لئے جستجو کرنا پڑتی ہے ،اجالے کی سہائتا کی جاتی ہے ۔۔۔بھکشو نے بے بسی سے کہا مہاراج نجھے سچ کہاں سے ملے گا،جواب دیا اپنے بھیتر میں رہ اور باہر پر آنکھ رکھ ۔۔۔زمین پر آوازیں بہت ہیں ،ساگر میں مچھلیاں بہت ہیں ،اور سچ کی صورت لمحہ با لمحہ بدلتی ہے ۔۔۔مہاراج ۔۔۔بیڑا اور مکان گزرتے جا رہے ہیں اور سفیدی تو اب مرغی کے انڈے برابر رہ گئی ہے تو بدھ نے جواب دیا دھیرج رکھ تو چنتا مت کر۔۔۔۔ گیا کی تراؤں میں برگد کے پیٹر بہت ہیں اور رات ابھی باقی ہے ۔۔۔۔۔۔سو قارئین اکرام اے التماس ہے کہ لاہور کی گلیوں اور چائے خانوں سے دبے پاؤں گزرنے والی اس کرن کی مغفرت کی دعا کریں کہ اﷲ تعالہ ان کو اپنی جوار رحمت میں گجہ دے اور ان کے لواحقین کو صبر وجمیل عطا فرمائے ۔۔۔آمین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ختم شد۔۔۔۔
Abdullah Tabasum
About the Author: Abdullah Tabasum Read More Articles by Abdullah Tabasum: 24 Articles with 17805 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.