سابق وزیراعظم تُرکی عدنان مندریس (ایک بیداریِ مسلم کی سز ا)

(طیارے کے حادثے میں بچ گئے لیکن فوج نے پھانسی دے دی)۔۔۔۔۔۔تُرکی کی 50 ء کی دہائی کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت سابق وزیراعظم تُرکی عدنان مندریس ہیں۔ جو 1899ء میں مشرقی ترکی کی صوبے آیدن کے ٹاؤن و ضلع کوکارلی میں پیدا ہوئے۔۔۔۔۔بس ڈنکے پر چوٹ پڑ چکی تھی لہذا وزیرِ اعظم عدنان مندریس جہاں ایک طرف عوامی خدمات کی بدولت عروج پر تھے وہاں اُنکے خلاف ایسی سازش تیار ہوچکی تھی جس پر27ِ مئی 1960ء کو۔۔۔۔۔۔۔۔

سابق وزیراعظم تُرکی عدنان مندریس

تُرکی کی 50 ء کی دہائی کی ایک بہت بڑی سیاسی شخصیت سابق وزیراعظم تُرکی عدنان مندریس ہیں۔ جو 1899ء میں مشرقی ترکی کی صوبے آیدن کے ٹاؤن و ضلع کوکارلی میں پیدا ہوئے۔ اُنھوں نے پرائمری سکول کے بعد ازمیر کے امریکی کالج میں تعلیم پائی اور پھر انقرہ یونیورسٹی سے قانو ن کی تعلیم حاصل کی۔15ِمئی 1919ء میں جب یونانی ازمیر میں داخل ہوئے تو عدنان مندریس نے اُنکے خلاف دفاعی جد وجہد میں بھر پور حصہ لیا۔اس ہی دوران ترکی کی ایک قد آور شخصیت جلال بایار سے اُنکا پہلا تعارف ہوا۔وہاں سے ہی اُن میں سیاسی شعور اُجاگر ہوا اور اُنھوں نے سیاست میں قدم رکھ دیا۔لہذا ترکی میں قیامِ جمہوریہ کے کچھ مدت بعد عدنان مندریس کو اُنکی سیاسی خدمات کے اعتراف میں آیدن کی لبرل پارٹی کی شاخ کا صدر منتخب کر لیا گیا۔

سیاست میں عملی کام:
صدر مصطفی کمال اتاترک اُنکی غیر معمولی صلاحیتوں سے واقف تھے ۔لہذا جب کچھ مدت بعد ترکی میں حزبِ مخالف کی جماعتوں پر پابندی لگا دی گئی تواُن کی ہدایت پر عدنان مندریس نے حکومتی جماعت ریپبلکن پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی۔اُنھیں علم تھا کہ رہنماء اُن سے ترکی کی عوام کیلئے فلاحی کاموں کیلئے خواہش مند ہیں ۔اُن کا ایسے خاندان سے تعلق تھا جن کا پیشہ زراعت تھا اور زمینوں سے اچھی خاصی آمدن بھی تھی۔لیکن اپنی ذمہداری نبھاتے ہوئے ایک تو پہلے اُنھوں نے اپنی زمینیں فروخت کر کے اپنے لیئے صرف ایک زرعی فارم رکھا اور پھر اُسکو ایک ماڈل کے طور پر جدید زرعی طریقوں پر کاشت کروا کر عوام کو ترغیب دی کہ موجودہ دور میں جدید نظام پیداوار میں اضافے کا باعث بن سکتا ہے جس سے ذاتی طور پر بھی فائدہ ہو گا اور ملکی سطح پر بھی زرعی شعبے کو ترقی حاصل ہو گی۔لہذا اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اُنھوں نے آیدن اور اسکے ملحقہ علاقے کو سیلابوں سے بچانے اور زراعت کی ترقی کیلئے ناقابلِ فراموش خدمات انجام دیں۔اُنھوں نے چند دوسرے صوبوں میں بھی تعمیر و ترقی کے کام انجام دیئے۔

وزیرِ اعظم منتخب ہو گئے:
1938ء میں صدر مصطفی کمال اتاترک کا انتقال ہوا تو عصمت انونو صدر بنے۔ مصطفی کمال کی صدارت کے آخری دنوں میں جلال بایار ترکی کے وزیراعظم منتخب ہو ئے تھے ۔لیکن نئے صدر سے اختلافات کی بنیاد پر اُنھوں نے 1939ء کے آغاز میں ہی اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیااور حکومتی جماعت سے الگ ہو گئے ۔ظاہر سی بات تھی کہ عدنان مندریس بھی اُنکے دستِ راست تھے لہذا اُنھوں نے بھی اپنے سیاسی گُرو کی پیروی کی اور پھر جب ترکی میں نئی مزید سیاسی جماعتیں بنانے کا حُکم نامہ جاری ہوا تو1946ء میں جلال بایار،عدنان مندریس اور دوسرے حکومتی سیاسی مخالفین رہنماؤں نے ایک نئی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی کی بنیا د ڈالی۔اُنکی اس جماعت نے جلد ہی ایسی شہرت حاصل کی کہ 1950ء کے انتخابات میں واضح اکثریت حاصل کرلی اور جلال بایار صدر اور عدنان مندریس وزیرِ اعظم بن گئے۔

اہم اصلاحات اور مزید مقبولیت میں اضافہ:
ڈیموکریٹک پارٹی کی کامیابی سے ترکی میں جس دور کا آغاز ہوا اُس کو انقلابِ سفیدکا نام دیا گیا ۔یعنی ایسا دور جس میں عوام سے کیئے گئے وعدے پورے کیئے گئے۔ جمہوریت بحال ہوئی ، معاشی ترقی کی وجہ سے عوام کو خوشحالی حاصل ہوئی اور اسلام پر چلنے کی راہ میں عائد پابندیاں ختم ہوئیں۔مثلاً 1932ء سے ترکی میں اذان اور تکبیر عربی میں پڑھنے کی پابندی تھی۔اُنھوں نے ترجیعی بنیاد پریہ پابندی ختم کردی۔ 25سال بعد ترکی کے 423افراد نے فریضہِ حج ادا کیا۔مسجدوں کے تالے کھلوائے تو وہاں کی رونقیں واپس لوٹ آئیں۔ا سلامی علوم کی توسیع و اشاعت اور عوام میں اسلامی روح پیدا کرنے کیلئے ہر ممکن اقدامات کا آغاز کر دیا گیا۔لہذا اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وزیرِ اعظم عدنان مندریس کے دورِ حکومت میں واقعی عوامی خواہشات کے مطابق تبدیلی آچکی تھے اور اس دوران آئندہ کے 2عام انتخابات 1954ء اور1957ء میں بھی با لترتیب اُنکی جماعت کامیابی حاصل کر چکی تھی۔

مغرب کی طرف جھکاؤ:
اُنکا دور چونکہ امریکہ اور روس کے اُن نظاموں کا دور تھا جس میں ایک طرف مغربی بلاک اپنی طاقت کا مظاہرہ کر رہا تھا اور دوسری طرف کمیونزم کا پرچار دُنیا عالم کی حکومتوں و عوام کو اپنی طرف متوجہ کر رہا تھا۔ لہذا وزیرِ اعظم عدنا ن مندریس کا جھکاؤ مغرب کی طرف زیادہ نظر آیا۔برطانیہ اور امریکہ نے ترکی کو اسلحہ فراہم کیا۔1952ء میں ترکی نیٹو نامی دفاعی تنظیم کا ممبر بن گیا۔ ایک اور دفاعی معاہدہِ بغداد (سینٹو) بھی اُنکے دور میں ہی 1955ء میں تشکیل پایا جس میں ترکی، ایران ،عراق ،پاکستان اور انگلستان شامل تھے۔ مغربی ممالک اُن دنوں فلسطین کے مسئلے کو اہمیت نہیں دے رہے تھے لہذا اسلامی ممالک ترکی سے خائف نظر آرہے تھے۔لیکن عدنان مندریس کی حکومت ترکی کو اشتراکی روس کے عزائم سے بچانے کیلئے ایسے اقدامات کر رہی تھی۔

طیارے کو حادثہ:
قبرص میں اُن دنوں آزادی کی تحریک زو روں پر تھی جب وزیرِ اعظم عدنان مندریس مغرب سے اپنے تعلقات مضبوط کرنے کیلئے کوشاں تھے۔لہذا اس ہی بنیاد پر اُن دنوں جب معاہدہِ لند ن پر دستخط کرنے کیلئے استنبول سے خصوصی ترکش طیارے ویکر ز ویسکاؤنٹ 793کے ذریعے روانہ ہو کر لندن گیٹ ویک ایئرپورٹ سے چند میل کے فاصلے پر تھے کہ اُنکا طیارہ رسپر،سسیکس کے قریب شدید دُھند کے باعث حادثے کا شکار ہو گیا اور اُس میں آگ لگ گئی۔ طیارے میں عملے سمیت26 افراد میں سے جو 10 افراد بچ گئے اُن میں ایک وزیر اعظم عدنان مندریس تھے ۔وہ طیارے کے پچھلے حصے میں بیٹھے ہوئے تھے لہذا اُنھیں کوئی خاص چوٹ نہ آئی اور چند منٹ دی لندن کلینک میں اُنھیں ابتدائی طبی امداد دینے کے بعدہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ جہاں 19ِفروری 1959ء میں اُنھوں نے معاہدہِ لندن پر دستخط کیئے۔اُن کے ساتھ اُس معاہدے پر دستخط کرنے والے برطانیہ کے وزیراعظم ہیرلڈ میک میلن اور یونان کے وزیرِ اعظم کونسٹے ٹائین کیرے منلیز تھے۔

عدنان مندریس اُس معاہدے کے بعد 26فروری 1959ء کو خیر وعافیت سے واپس ترکی آگئے اور 1960ء میں قبرص نے بھی انگریزوں سے آزادی حاصل کر لی۔ لیکن عدنان مندریس یہ نہیں جانتے تھے کہ اُنکا اپناملک ابھی سیکولر قوتوں سے سے آزاد نہیں ہوا ہے۔ ترکی عوام کیلئے فلاحی اصلاحات و حکمتِ عملی ترکی فوج اور اُن افراد کیلئے ناقابلِ قبول تھی جو اپنے آپ کو مصطفی کمال اتاترک کے پیروکار سمجھتے تھے ۔دوسری طرف عدنان مندریس گزشتہ 10سال سے چاہے مغربی رحجان کے طرف دار تھے لیکن اُنکی اسلامی آزادی کی پالیسیاں مغرب کو قبول نہیں تھیں۔کیونکہ اس سے ایک ایسا معاشرہ ترتیب پا سکتا تھا جو اسلامی ممالک کے معاملات کو تقویت بخشتا۔

بغاوت و سزائے موت:
بس ڈنکے پر چوٹ پڑ چکی تھی لہذا وزیرِ اعظم عدنان مندریس جہاں ایک طرف عوامی خدمات کی بدولت عروج پر تھے وہاں اُنکے خلاف ایسی سازش تیار ہوچکی تھی جس پر27ِ مئی 1960ء کوفوج نے عمل کرتے ہوئے اُنکا تخت اُلٹ دیا اور جنرل جمال گرسل کی زیرِ صدارت فوجی حکومت قائم کر دی گئی۔ بعدازاں اُسکی فوجی عدالت (جسکے لیئے بھی کنگرو کورٹ کی اصطلاح جو کہ 1849 ء میں کیلوفورنیا میں پہلی دفعہ سُنی گئی تھی ا ستعمال کی جاتی ہے) نے اُن پر آئین کی خلاف ورزی کا مقدمہ چلا کر ستمبر1961 ء میں پھانسی دے دی۔ ایک بیداریِ مسلم کی سزا ۔

صدر جلال بایار کو بھی موت کی سزا ہی سُنائی گئی تھی لیکن اُنکی عمر زیادہ ہونے کے باعث وہ سزا عمر قید میں تبدیل کر دی گئی۔ڈیموکریٹک پارٹی بھی توڑ دی گئی اور پارٹی کے ممتاز ارکان پر سیاست میں حصہ لینا ممنوع قرار دے دیا گیا۔

آج بھی ترکی میں فوج اور جمہوری قوتوں میں کشمکش:
تُرکی میں فوج اور جمہوری قوتوں کی یہ کشمکش 85 سال پُرانی ہے۔لہذا آج کے ترکی کے وزیراعظم رجب طیب اردگان جو گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ سے وہاں حکومت کر رہے ہیں مسلسل ان سازشی طاقتوں کا شکار ہیں ۔لیکن اُن کے دور میں بھی ویسی ہی ترقی ترکی میں نظر آتی ہے جیسی کہ سابق وزیر اعظم عدنان مندریس کے۔
 
Arif Jameel
About the Author: Arif Jameel Read More Articles by Arif Jameel: 205 Articles with 341650 views Post Graduation in Economics and Islamic St. from University of Punjab. Diploma in American History and Education Training.Job in past on good positio.. View More