قومی انٹرنیشنل ائیر لائن پی آئی اے جو کہ
کسی دور میں اوّل درجے کی ائیر لائن ہوا کرتی تھی ,مفاد پرست حکومتوں کی
نااہلی کی وجہ سے شدید بحران کا شکار ہے , یہ بحران جہاں پوری دنیا میں
پاکستان کی بدنامی کا سبب بن رہا ہے وہیں لاتعداد مسافروں کی پریشانی کا
سبب بھی ہے۔کوئی مسافر اگر کسی غمی یا خوشی میں شرکت کرنے جا رہا تھا یا
کوئی نوکری کے سلسلہ میں یا روز گا ر کے لئے ,بہت سے مسافروں کا سفر ٹائم
لمیٹڈ اور کسی مجبوری کی بنا پر ہوتا ہے وہ ہماری اشرافیہ کی طرح شوقیہ
مسافر نہیں ہوتے۔اور اپنے محدود وسائل کی وجہ سے وہ اب دوسری ائیر لائنز کے
ٹکٹس کا اضافی بوجھ برداشت نہیں کر سکتے ۔ مسلسل ہڑتال اور مسائل کی وجہ سے
عوام کے اندرایک شدید نوعیت کا لاوہ پکنا شروع ہوچکا ہے ۔پی آئی کے ملازمین
کو سبق سکھانے کے چکر میں حکومت پوری عوام کو سبق سکھارہی ہے۔
یہ سچ ہے کہ پی آئی اے کی تباہی کی بنیادی وجہ سفارشی و سیاسی اضافی
بھرتیاں ہیں ، ملازمین کی تعداد ضرورت سے بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے حاصل
شُدہ آمدن تنخواہوں اور مراعات میں نکل جاتی ہے ، تو کیا نجکاری یا کوئی
متبادل ائیر لائن ہی اس مسئلے کا حل ہے؟اس کے لیے سب سے پہلے موجودہ بحران
اور اسکی وجہ کو سمجھنا ہوگا۔اگر ہم کامیاب اور پڑوسی ممالک کی ائیر لائنز
کا جائزہ لیں جیسے ائیر انڈیا کے پاس لگ بھگ109کمرشل جہاز ہیں جو کہ
82مختلف مقامات کے لیے پرواز کرتے ہیں او ر ملازمین کی تعداد 28000سے اوپر
ہے۔انڈیا کا سالانہ منافع 80ملین ڈالز ہے،ترکش ائیرلائن کے پاس 300جہاز ہیں
جو 282مقامات کیلئے پرواز کرتے ہیں او ر سالانہ منافع2.2بلین ڈالز ہے۔اسی
طرح امراتی ائیرلائن جو پاکستان کی شاگرد ائیر لائن ہے اسکے پاس بھی
250کمرشل جہاز ہیں۔ جبکہ پاکستان کے صرف 38جہاز ہیں جو 67مقامات کے لئے
پرواز کرتے ہیں، تو تقابلی جائزے سے تو یہ یہی ثابت ہوتا ہے کہ بنیادی وجہ
مطلوبہ جہازوں کا نہ ہونا ہے جس وجہ سے پی آئی اے کی پرواز بہت محدود ہے
اور حیرت ہے اس بات پر کہ 7دہائیوں میں بھی تجربہ کار حکومتوں نے اس طرف
کوئی توجہ نہ دی ۔
روزگا ر اور بنیادی سہولتیں دینا حکومت ہی کا کام ہوتا ہے عوام حکومت کے
لیے اولاد کی طرح ہوتے ہیں ، پی آئی اے میں ڈاون سائزنگ یا نجکاری مسئلہ کا
حل نہیں بلکہ ضد ،تعصب اور ’’سبق سکھانے ‘‘کے بجائے اسکا بہترین حل یہ ہے
میٹرو ٹرین پر آنے والے سارے کے سارے سرمایہ کو حکومت پی آئی اے پر خرچ
کرے، میٹرو ٹرین منصوبہ عارضی طور پر موقوف کیا جائے کیونکہ میٹرو ٹرین کے
لیے سارا انفرا سٹرکچر صفر سے شروع کرنا ہے اور اس منصوبے کو کامیاب بنانے
کے لیے بھی حکومت کو سبسڈی دینی پڑے گی جو کہ خزانے پر اضافی بوجھ ہوگا،
جبکہ پی آئی اے کو چلانے کے لیے صفر سے سٹارٹ نہیں لینا پڑے گا، پی آئی اے
کے لیے نئے جہاز خریدے جائیں،اور کم از کم 200جہازوں کا ٹارگٹ رکھا جائے ،
سروس کو بہتراور انٹزنیشنل میعار کا بنایا جائے،ایڈمنسٹریشن او ر سٹاف کا
رویہ مسافروں کے سا تھ بہتر بنایا جائے ۔پی آئی اے میں فی جہاز کے ساتھ
موجودعملاجو کہ اس وقت اضافی ہے جب جہازوں کی تعداد زیادہ اور سروس بہترین
ہوگی تو ائیر لاین کے لیے نت نئی منزلیں کھل جائیں گی آمدن اوروقار میں
اضافہ ہوگا۔سروس بہتر کرنے کے لیے ملازمین کو ٹاسک دیے جائیں جو درست پرفام
نہ کرے اسکو نکال دیا جائے۔قومی ائیر لائن کو اپنے پاوں پر کھڑا کر دیا
جائے تویہی لُٹی پٹی پی آئی اے پاکستان کو میٹروٹرین جیسے کئی پروجیکٹ
کیلئے کھڑے کرنے کے لیے اضافی سرمایہ فراہم کر سکتی ہے۔ اور اسکے بعد حکومت
میٹرو ٹرین اور بلٹ ٹرین جیسے منصوبے’’ بغیرقرضوں‘‘ کے شروع کر کے عوام میں
اپنا نا م مزید اچھا بنا سکتی ہے،حکومت اگر ایک ڈوبتے ادارہ کو بچا لیتی ہے
تو عوام کی نظروں میں و ہ ہمیشہ کے لئے ہیرو بن جائے گی۔اور اگر پی آئی اے
اسی طرح کمزور او ر ناتواں رہی تو میٹرو جیسے کئی منصوبے مل کر بھی حکومت
کو نیک نامی نہیں دیں سکیں گے۔ |