کارلوٹا گیل کے پاکستان پر منفی اور من گھڑت الزامات

پاکستان دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش برطانوی صحافی کارلوٹا گیل نے ایک بار پھر پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ نیویارک ٹائمز میں ایک بار پھر اپنے تازہ ترین آرٹیکل میں کارلوٹا گیل نے پاکستان پر افغان طالبان کی مدد اور افغانستان میں عدم استحکام پیدا کرنے کے الزامات لگائے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ انتہائی بددیانتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کارلوٹا گیل نے پاکستان پر داعش کے شام میں ابھارنے کا بھی الزام لگایا ہے۔ یہ آرٹیکل کارلوٹا گیل نے عین اس دن نیویارک ٹائمز میں شائع کیا ہے جب افغانستان سے متعلق پاکستان، چین، افغانستان اور امریکہ کا تیسرا اجلاس اسلام آباد میں ہو رہا تھا تاہم کارلوٹا گیل کی بے بنیاد پراپیگنڈا مہم کے باوجود اچھی بات یہ ہے کہ افغانستان کی وزارت خارجہ نے اسلام آباد میں پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل چار ملکی رابطہ گروپ کے اجلاس میں افغان حکومت اور طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات کے لئے منظور ہونے والے روڈ میپ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے اور افغان طالبان کے تمام گروپوں سے اپیل کی ہے کہ وہ مذاکراتی عمل میں شریک ہو جائیں۔ رابطہ گروپ بنیادی طور پر پاکستان کی کوششوں کے نتیجے میں وجود میں آیا جن کا مقصد مفاہمتی عمل کے ذریعے دہشت گردی اور انتہاء پسندی کا خاتمہ کرکے افغانستان سمیت خطے میں سیاسی و معاشی استحکام لانا ہے۔ اس سلسلے میں گروپ کے کئی اجلاس ہو چکے ہیں اور آئندہ اجلاس 23فروری کو کابل میں منعقد ہونا طے پایا ہے۔ اس سے قبل پاکستان اور چین کی مشترکہ کوششوں سے بیجنگ اور مری میں امن مذاکرات ہوئے تھے جن میں افغان طالبان بھی شریک تھے مگر ملا عمر کی وفات کے اچانک انکشاف کے بعد طالبان گروہ بندی کا شکار ہو گئے اور مذاکرات سے لاتعلقی اختیار کرلی۔ اس وقت صورتحال یہ ہے کہ طالبان کے بعض گروپ مفاہمت کے حامی اور بعض شدید مخالف ہیں۔ مخالف کرنے والوں نے افغانستان میں پرتشدد کارروائیاں پھر سے تیز کردی ہیں اور ہلمند، ننگرہار اور بعض دوسرے مقامات پر سرکاری فوج پر زوردار حملے کیے ہیں۔ اس کے علاوہ کئی جنگجو عراق اور شام میں برسرپیکار تنظیم داعش میں بھی شامل ہو گئے ہیں جس سے افغانستان میں داعش زور پکڑ گئی ہے اور اس کے اثرات پاکستان تک بھی پہنچنے لگے ہیں۔ یہاں بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ایجنسیوں نے داعش کے کئی سرگرم ایجنٹ پکڑے ہیں تاہم یہ امر اطمینان بخش ہے کہ افغان طالبان کا بڑا حصہ ملک میں امن چاہتا ہے اور اس نے مذاکراتی عمل میں شریک ہونے کے اشارے بھی دئیے ہیں۔ پاکستان، افغانستان، چین اور امریکہ پر مشتمل رابطہ گروپ افغان حکومت اور طالبان قیادت کے درمیان براہ راست مذاکرات کے ذریعے باہمی اختلافات ختم کرانے کی راہ ہموار کرنے کی غرض سے مصروف عمل ہے۔ افغان حکومت کے علاوہ اس گروپ نے بھی اپنے مشترکہ اعلامیہ میں افغان طالبان سے اپیل کی ہے کہ وہ بات چیت میں شریک ہو جائیں۔

بہرحال برطانوی صحافی کارلوٹا گیل نے ہمیشہ پاکستان کے خلاف متعصبانہ رپورٹنگ کی ہے۔ نیویارک ٹائمز کے کئی صحافیوں کو ناپسندیدہ سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بدر کیا جاچکا ہے۔ کارلوٹا گیل اس وقت نیویارک ٹائمز کی نمائندہ برائے افغانستان اور پاکستان ہیں ۔ نیو یارک ٹائمز کے لئے انہوں نے یہ ذمہ داری 2001ء میں سنبھالی۔ اس سے پہلے کارلوٹا گیل نے زیادہ تر رپورٹنگ روس ، سربیا، کوسوو، چیچنیا میں کی ہے۔ انہوں نے پاک افغان خطے کی ہمیشہ منفی اور من گھڑت رپورٹنگ کی ۔ پاکستانی اداروں،جوہری پروگرام اور ملکی سلامتی کے دیگر اداروں کی رپورٹنگ میں ہمیشہ صحافتی اصولوں کو پامال کیا۔ مغربی ممالک کے صحافیوں کی طرح کارلوٹا گیل نے پاکستانی جوہری پروگرام اور ملکی سلامتی کے ادارے کانٹوں کی طرح چبھتے ہیں بلوچستان کی صورتحال ہو یا فرقہ وارانہ فسادات کے بارے میں کارلوٹا گیل نے ہمیشہ منفی رائے دی۔ وسط ایشیاء کے لئے رپورٹنگ کرنے والی کارلوٹا گیل بڑی خبر کے شوپ میں من گھڑت خبریں دینے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ یہی وجہ ہے کہ موصوفہ پاکستان کے حساس اداروں کو روایتی تعصب کا نشانہ بناتے ہوئے منفی رپورٹنگ میں پیش پیش رہتی ہیں۔ نیویارک ٹائمز میں چھپنے والی حالیہ رپورٹ اس بات کا واضح ثبوت ہے غیر ضروری تانک چھانک کی وجہ سے کارلوٹا گیل 22دسمبر 2006ء میں پاکستانی حساس اداروں کے ہاتھوں ہزیمت بھی اٹھا چکی ہیں۔ کارلوٹا گیل کو 2008ء میں کوئٹہ میں انٹیلی جنس ایجنسیوں نے حراست میں لیا تھا اور ویزہ نہ ہونے کی وجہ سے اُسے ملک بدر کردیا گیا۔ اس سے پہلے بھی کئی صحافی پاکستان مخالف سرگرمیوں کی وجہ سے ملک بدر کیے جا چکے ہیں۔ 10مئی 2013ء کو نیویارک ٹائمز کے اسلام آباد کے بیورو چیف ڈیکن واش کو پاکستان بدر کیا گیا۔ ڈیکن واش سے پہلے پاکستان میں نیو یارک ٹائمز کی بیورو چیف جیمز پارلس کو ناپسندیدہ قرار دیکر ملک بدر کردیا گیا تھا۔
 
Raja Majid Javed Ali Bhatti
About the Author: Raja Majid Javed Ali Bhatti Read More Articles by Raja Majid Javed Ali Bhatti: 57 Articles with 43821 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.