ایہہ پُتر ہٹاں تے نیئں وکدے
توں لبھد ی ایں وچ بازار کُڑے
ایہہ دیں اے میرے داتا دی
نہ ایوں ٹکراں مار کُڑے
جس ماں کا لختِ جگر اُس سے جدا ہوجائے درد وچھوڑا صرف وہی جانتی ہے مگر
سلام ہے اُن ماؤں کو جن کے سپوت اپنے وطن کی عزت اور شان پر اپنی جان کی
بازی لگا کر خود کو ہمیشہ کے لئے امر کر جاتے ہیں جس کی گواہی خود قُرآنِ
پاک نے دی ہے ﴿اور جو اﷲ کی راہ میں اپنی جان کو قربان کر دے اسے مرد ہ
گمان بھی نہ کریں پس تم اس کا شعور نہیں رکھتے ﴾
17فروری بروز ہفتہ رات کے 9:40 منٹ پر ائرفورس کے ایک ہسپتال کراچی جہاں پر
مجید منہاس نامی شخص جو کہ پیشہ کے لحاظ سے ایک ٹھیکدار تھا اس کے ہان ایک
بچہ پیدا ہوتا ہے مجید منہاس کا خاندان آزاد جموں کشمیر سے تعلق رکھتا تھا
جو بعد میں ہجرت کر کے ہندوستان کے ایک شہر گرداس پور آ کر مقیم ہو گئے اور
ایک عرصے تک وہیں قیام کیا ِ،اس کے بعد قلعہ سباہ سنگھ (سیالکوٹ)کے نواہ
میں رہائش اخیتار کی۔
کوئی نہیں جاتناتھا رات کو پیدا ہونے والا یہ بچہ نہ صرف مجید منہاس کے لئے
باعث فخر ہو گا بلکہ اپنے ملک وقوم کا درخشاں ستارہ ہوگا۔کم عمری میں نشانِ
حیدر پانے والے اس جواں مرد کو قوم ہمیشہ اپنے سنہری لفظوں میں یادرکھے گی
جی ہاں میری مُراد راشد منہاس ہے ، صرف بیس سال کی عمر میں اپنی جوانی کو
وطن کی عظمت پر قربان کرنے والا یہ واحد سپوت ہے ۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ
قربانیوں کی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر جو اعزاز اس قوم کے بیٹے کے پاس
ہے وہ شائد کسی اور کے نصیب میں نہیں ہے۔ ابتدائی تعلیم کے بارے مورخ کی
رائے مختلف ہے کوئی لاہور لکھتا ہے تو کوئی راولپنڈی۔
راشد منہاس کی صلاحتوں کو جلا بخشنے میں ان کے تایا عبدالرشید کا بہت ہاتھ
ہے 1965سے 1968ء تک اسلامیات اور اردو کی تعلیم سے مزین کیا۔بی ایس سی کی
ڈگری فروری 1971ء میں پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی31۔اگست 1968 ء میں
رسالپور ائر فورس کے سکول میں داخلہ ملا، جہاں راشد منہاس نے اپنی چھوٹی سی
عمر میں ہی اپنے فن پر قابو پا لیا۔یہاں سے 1971ء میں تعلیم سے فارغ ہونے
کے بعد آپ کو مزید ٹریننگ کے لیئے رسالپور سے مسرور کراچی بھیج دیا گیا
جہاں انہوں نے 15 اگست 1971ء کواپنی تربیت مکمل کی۔
ایک خوبصورت دن بروز جمعہ کو قوم کے اس سپوت کو ایک ٹرینی جیٹ طیارہ T-33
میں بیٹھنے کا موقع ملا اور ٹاور کنڑول سے پہلی کلرینس کال ملی اور یہ ان
کے تیسری بنا کسی ساتھی پائلٹ کے پرواز تھی۔ ماں کی آنکھوں کا لال آج بہت
خوش تھا ، پھر اچانک 11:27 پر ان کا انسٹرکٹررن وے پر اپنی گاڑی میں سوار
ہو کر سامنے آگیا اور راشد منہاس کے طیارے میں بیٹھ گیا مطیع الرحمان نامی
اس بنگالی پائیلٹ آفیسر نے طیارے کا کنٹرول سمبھال لیا اور کراچی میں اپنے
دو ساتھیوں کو پیغام دیتے ہوے کہا٭میں جودھاپور جا رہا ہوں تم میرے اہل و
عیال کو لے کرفورا ہندوستان ہائی وے کمیشن چلے آؤ اور وہاں پنا ہ لے لو،
جیسے یہ الفاظ نوجوان پائلٹ آفیسر راشدمنہاس کے کانوں تک پڑے آپ نے فورا
بھانپ لیا کہ ان کا طیارو اغواہ ہو چکا ہے اور وہ دشمن کے ارادوں کہ خوب
سمجھ چکے تھے مگر اب کام دل کا نہیں بلکہ صبر اور تحمل مزاجی کے ساتھ سارے
معاملے کو حل کرنا تھا ، انہوں نے اپنے حوش کو قابو میں رکھتے ہوے فورا
اپنے نزدیکی کنٹرول ٹاور میرپور سے رابط کیااور ان کو بتایا کہ میرے طیارے
کو اغواہ کر نے کی کوشش کی جا رہی ہے لہذا میرے استاد اور اس کے غدار
ساتھیوں کو ہندوستاں ہائی کمشن پنا ہ لینے سے روکو ان الفاظ کو سنتے ہی
غدار بنگالی انسٹرکٹرنے اپنی جیب سے کلورفارم میں بھیگا رومال راشد منہاس
کے ناک پر رکھ دیا ان کو بے ہوش کرنے کی کوشش کی تو ایسے میں کنٹرول ٹاور
سے پیغام ملا طیارے کو اغوا ہونے سے بچایا جائے، ایسی حالت میں جب کنٹرول
دشمن کے ہاتھ آچکا ہواور بندہ حالت بے حوشی میں ہو ایسے میں خود کو قابومیں
رکھنا اور اپنے حواس بحال رکھنا ایک مشکل عمل ہے مگر سلام ہے اس قوم کے
بیٹے کو جسے اپنی موت سامنے نظر آرہی تھی مگر وطن کی عزت اور آبرو کی خاطر
اپنے غداراستاد سے اب بھی مقابلہ کر رہا ہے لیکن اسی دوران راشد منہاس بے
حوش ہو جاتے ہیں اور غدار بنگالی استاد طیارے کو 120ڈگری کے زاویے پر طیارے
کو ہندوستان کی طرف اڑاتے چلا جا رہا تھا، نوجوان پائلٹ آفیسر کو تھوڑی دیر
بعد جیسے ہوش آیا تو پھر کنٹرول ٹاور سے رابطہ کیا اور پیغام دیا۔کہ مجھے
اغوا کیا جا رہا ہے اور غدار بنگالی پائلٹ سے کشمکش جاری ہے راشد منہاس کے
طیار ے کو :ٹی برڈ : کا کوڈ ملا ہوا تھا، ٹھٹھ کے مقام پر انہوں نے ایک
غیرت مندانہ اور حمتی اور حتمی فیصلہ کیااور ہندوستاں بارڈر سے بتیس
کلومیٹر کے فاصلے پرطیارے کا رُخ زمین کی طرف کر دیا اور طیارے کو دشمن کی
حدود میں داخل نہ ہونے دیا اور اپنی جان کو وطن کی ناموس پر قربان کر دیا
20اگست 1971کا دن پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ سنہری حروف میں لکھ دیا گیا
اور حکومت ِ پاکستان نے قوم کے اس عظیم بیٹے کو سب سے بڑ ا فوجی اعزاز نشان
ِ حیدر ان کی جرات اور بہادری کو دیا ،پاکستان ائر فورس میں ان کا نام
ہمیشہ درخشاں رہے گا۔
ڈاکٹر علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے۔
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں۔
زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ہیروز کو یاد رکھتی ہیں ایسے کتنے قوم کے بیٹے ہیں
جو آج ہم میں موجود نہیں اور ان کی ان گنت قربانیوں کے وجہ سے ہم اتنے آزاد
ہیں اور ہم ان کو بھلائے بیٹھے ہیں مگر افسوس ہم اپنی زندگی میں اتنے مصروف
ہو گئے ہیں کہ ہمارے پاس ان کی یاد منانے کے لیئے بھی وقت نہیں، ہمیں،
ٹیلویژن پر کئی پروگرام دیکھاے جاتے ہیں مگر قوم کے ان سپوتوں پر کوئی ایک
ادھا ہی پروگرام دیکھنے کو ملتا ہے یا پھر زیادہ سے زیادہ ایک ٹکِر چلا کر
میڈیا بھی بری زمہ ہو جاتا ہے ، اگر دشمن کا کوئی بھانڈ مر جائے تو ٹی وی
چینل سارا دن اس کی یاد میں روتے رہتے ہیں ، اگر ہم نے اپنے ان ہیروز کو
بھُلا دیا اور آنے والی نسل کو ان کی قربانیوں کا نہ بتایا گیا تو ہمار ا
کل بہت بھانک ہوگا۔ |